انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مکی بن ابراہیمؒ نام ونسب مکی نام اورابو السکن کنیت تھی (طبقات ابن سعد:۷/۱۰۵) سلسلہ نسب یہ ہے،مکی بن ابراہیم بن بشیر بن فرقد (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۹۳) تمیم کے قبیلہ براجمہ کی سب سے مشہور شاخ بنو حنظلہ بن مالک سے خاندانی تعلق رکھتے تھے، اس وجہ سے براجمی،تمیمی اورحنظلی تینوں نسبتوں سے شہرت پائی۔ (اللباب:۱/۱۰۸ وکتاب الانساب ورق:۷۱) وطن اورپیدائش خراسان کا شہر بلخ اس حیثیت سے بہت ممتاز ہے کہ اس کی خاک سے لا تعداد ائمہ،علماء اورصلحاء پیدا ہوئے اور بزم علم وعمل کی رونق دوبالا کی،یہی مردم خیز سرزمین ۱۲۶ھ میں ابو السکن کی ولادت سے مشرف ہوئی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۹۳) علم وفضل علمی اعتبار سے وہ اکابر اتباع تابعین میں شمار کیے جاتے تھے،انہیں سترہ منتخب روزگار تابعین کے دیدار کی سعادت نصیب ہوئی تھی؛چنانچہ انہوں نے اس گرانبہادولت سے پورا فائدہ اٹھایا اوران تابعین کے چمنستانِ علم کی عطر بیزی سے اپنے دل و دماغ کو معمور کیا،علامہ ذہبی ،الحافظ الامام شیخ خراسان لکھتے ہیں۔ (ایضاً) حدیث ابوالسکن تحصیل علم کا فطری ذوق رکھتے تھے؛چنانچہ صرف سترہ سال کی عمر ہی میں انہوں نے طلب حدیث کے لیے بادیہ پیمائی شروع کردی اور دُوردراز ملکوں کا سفر کرکے سترہ تابعین کے منبع علم سے مستفیض ہوئے ان کے اساتذہ حدیث میں یزید بن ابی عبید،جعفر الصادق،بہزبن حکیم، ابی حنیفہ،ہشام بن حسان ابن جریح،مالک بن انس، یعقوب بن عطاء، فطر بن خلیفہ،حنظلہ بن ابی سفیان،ہشام الدستوائی،جعد بن عبدالرحمن،عبداللہ بن سعید اورایمن بن نابل کے نام قابِل ذکر ہیں اورتلامذہ میں امام بخاریؒ،امام احمد، یحییٰ بن معین،یحییٰ بن نابل کے نام قابل ذکر ہیں ،محمد بن المثنیٰ،عبداللہ بن مخلد، محمد بن حاتم، ابراہیم بن یعقوب،محمد بن اسماعیل بن علیہ ،یزید بن سنان، احمد بن نضر، محمد بن الحسن بن مکی،ابراہیم بن موسیٰ الرازی،حسن بن عرفہ،محمد بن وضاح،یعقوب بن سفیان،یعقوب بن شیبہ،محمد بن شیبہ،محمد بن یونس اور معمر بن محمد جیسے یگانۂ عصر ائمہ شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۹۳،۲۹۴) ثقاہت ان کی ثقاہت وعدالت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں ان کی متعدد مرویات کی تخریج کی ہے (اللباب فی الانساب:۱/۱۰۸)اور ابن حبان نے کتاب الثقات میں امام بخاریؒ کے کبار شیوخ میں ان کا نمایاں ذکر کیا ہے،علاوہ ازیں خلیلی انہیں ثقہ ،متفق علیہ،دارقطنی ثقۃ مامون،امام احمد ابن معین عجلی اورابو حاتم ثقۃ صدوق کہتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۵وتہذیب:۱۰/۲۹۵)علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں:کان ثقۃ ۔۔۔۔۔ وکان ثبتا فی الحدیث (اللباب فی الانساب:۱/۱۰۸) عبادت وتدوین علم کے ساتھ عمل میں بھی انہیں نمایاں مقام حاصل تھا کثرت سے عبادت فرمایا کرتے تھے، عبدالصمد بن الفضل راوی ہیں کہ میں نے اکثر ابن ابراہیم کو یہ فرماتے سُنا کہ: حججت ستین حجۃ و جاورت عشرین سنۃ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۹۴) میں نے ساٹھ حج کیے اوربیس سال تک (بیت اللہ) کے قریب رہا۔ عبداللہ بن مدرک کی روایت کے مطابق شیخ ابن ابراہیم نے بارہ سو دینار مکہ کے مکانوں کا کرایہ ادا کیا تھا۔(تاریخ بغداد:۱۳/۱۱۷) ساٹھ مرتبہ زیارتِ حرمین کی اہمیت یوں اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ اس زمانہ میں سفر حج کی ان سہولتوں اورآسائشوں کا تصور بھی محال تھا جو عہدِ حاضر میں پائی جاتی ہیں،اس وقت حج کا سفر اپنی صعوبتوں اورخطرات کی بنا پر سفرِ آخرت کے مرادف خیال کیا جاتا تھا؛چنانچہ تاریخ بغداد میں اس روایت کے ساتھ "قطعت البادیۃ" کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں،یعنی میں نے بلخ سے مکہ تک بادیہ پیمائی کی۔ وفات ۱۵شعبان ۲۱۵ھ کو بمقامِ بلخ رہ سپار عالم جاوداں ہوئے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۷۹،وطبقات ابن سعد:۷/۱۰۹)تقریباً سو سال کی عمر پائی۔