انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تعارف ایمانیات ایمان ایمان امن سے ماخوذ ہے، ایمان کے معنی امن دینے کے ہیں۔ کسی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے والا اس کو جھٹلانے اور ٹھکرادینے سے محفوظ کردیا اور یہ اقرار کرلیا کہ یہ بات صحیح اور حق ہے۔ (اساس البلاغۃ:۱/۱۱) اسی طرح کسی کی ذات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس کے اقوال واحکام اور اس سے متعلق تمام چیزوں کو حق اور سچ مانا جائے۔ ایمان شریعت کی اصطلاح میں دین وشریعت کی خاص اصطلاح میں ایمان اس کو کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کو ماناجائے اور یہ یقین کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہدایت کے واسطے وحی کے ذریعہ اپنے رسول کو بہت سی وہ باتیں بتلاتا ہے جو ہم آنکھ، کان وغیرہ جو اپنے علمی ذرائع ہیں ان سے معلوم نہیں کرسکتے اور اسی وجہ سے ان کی ان سب باتوں کی تصدیق کی جائے جو وہ اللہ کی طرف سے پہنچاتے ہیں اور ان کے لائے ہوئے دین کو دین حق کی حیثیت سے قبول کیا جائے . "یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ" (البقرۃ:۳) "یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر"۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) نیزیہی اقرار "لَاإِلٰہَ إِلَّااللہ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ" میں لیا گیا کہ اللہ کے معبود واحد ہونے کے ساتھ محمدﷺ کواللہ کارسول مان کر اس کی تمام لائی ہوئی باتوں کومان لے؛ لہٰذا کسی آدمی کے مومن ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان سب باتوں کو حق جانے جن کی اطلاع اللہ کے پیغمبر نے دی ہے؛ اگر ان میں سے کسی ایک چیز کابھی کسی نے انکار کیاتو وہ مؤمن نہیں ہوسکتا مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں رسول اللہﷺ کو اللہ کا رسول مانتا ہوں اور آپ نے اللہ کی توحید اور اس کی صفات کے بارے میں جوکچھ بتلایاہے ان سب کو بھی حق اورسچ جانتاہوں لیکن قیامت اور جنت ودوزخ کے متعلق جوکچھ آپ نے بتلایاہے (جوہم قرآن وحدیث میں پڑھتے ہیں) ان کو میری عقل قبول نہیں کرتی؛ لہٰذا میں اسے تسلیم نہیں کرتا تو ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا۔ الغرض دین وشریعت میں "کُلُّ مَاجَاءَ بِہِ الرَّسُوْلُ مِنْ عِنْدِاللہِ" (وہ تمام چیزیں اور حقیقتیں جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے ہیں) کی تصدیق کرلینے کو ایمان کہتے ہیں۔ (دین وشریعت:۲۹، مصنف:مولانا محمد منظورنعمانیؒ) عقائد اور ایمانیات: شریعت نے جن باتوں پر ایمان لانے اور اعتقاد رکھنے کا ہم سے مطالبہ کیا ہے اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔ جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے کچھ کا تعلق اللہ کی ذات وصفات سے ہے اور کچھ کا تعلق دوسری چیزوں سے ہے مثلاً، رسولوں سے، ملائکہ سے قیامت سے۔ کن امور پر ایمان لانا ضروری ہے اسلام میں جن امور پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے وہ یہ ہیں: (۱)اللہ تعالیٰ (۲)ملائکہ (۳)اللہ کی کتابیں (۴)اللہ کے رسول (۵)قیامت کا دن (۶)ہرخیروشر کی تقدیر۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلِٰٕکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ" (البقرۃ:۲۸) اعتقاد رکھتے ہیں رسول اس چیز کا جو ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور مؤمنین بھی، سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ، اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے سب پیغمبروں کے ساتھ۔ (ترجمہ حضرت تھانوی) اور ایک جگہ ارشاد ہے: "وَمَن یَکْفُرْ بِاللّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدا" (النساء:۱۳۶) اورجو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور روزِ قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) نوٹ: ان چھ امور میں سے "تقدیر خیروشر" کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان ایمانیات کے ساتھ ان آیات میں نہیں آیا ہے؛ لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کی بھی تصریح کی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: قُلْ کُلّ مِّنْ عِنْداللہِ"۔ " (النساء:۷۸) آپ فرمادیجئے سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) چھ امور پر ایمان لانے کا مطلب اب مختصراً یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ ان سب پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟: (۱)اللہ پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے موجود وحدہ لاشریک خالقِ کائنات اور رب العالمین ہونے کا یقین کیا جائے، عیب ونقص کی ہربات سے پاک اور ہرصفت کمال سے اس کو متصف سمجھا جائے ۱؎ کائنات کی ہرچیز اسی کے ارادہ ومشیت کے تابع ہے سب اسی کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں کائنات کے سارے تصرفات اسی کے قبضہ میں ہیں۲؎ اللہ کے علاوہ بت، دیوتا ، مخلوق وغیرہ کی پرستش اور تصرف کو دل سے ختم کردینا ورنہ اللہ تعالی پر ایمان لانے میں ملاوٹ ، شرکت ہو جائیگی جیسے پٹرول کے اندر غبار مل جاتا ہے تو پھر اس کوریفائنڈ کر کے دور کیا جائے تو وہ کام آئیگا اسی طرح جب تک ان چیزوں کو دل سے نہ نکالا جائیگا ایمان باللہ نہیں ہوگا۳؎۔ حاشیہ:۔(۱)رکائز الایمان:۱/۵۔ فتح الباری، حدیث نمبر:۴۸۔ صفحہ نمبر:۱/۸۰۔ (۲)شرح الطحاویۃ لابن ابی العز، وکل شئی یجری بتقدیرہ ومشیتہ:۱/ (۳)مجموعہ بیانات:۱۰/۸۰، حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالنپوریؒ۔ اللہ کی صفات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی صفات قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں ان سب کےمتعلق یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام صفات سے علی وجہ الاتم (مکمل طور پر) متصف ہیں ان کی شان عالی ہے " لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیٌٔ وَّھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرْ" ۱؎ (کوئی چیزاس کے مثل نہیں اور وہی ہر بات کا سننے والا اور دیکھنے والا ہے۲؎ )وہ سمیع وبصیر بے شک ہے مگر اس کا دیکھنا سننا مخلوق کی طرح محدود نہیں (کہ انسان سننے میں کان کامحتاج آواز بالکل آہستہ ہوتو نہیں سن سکتا اور سننے کے لیے بیدار رہنے اور باہوش رہنے کامحتاج ہوا کرتا ہے؛ اِسی طرح دیکھنے کے لیے آنکھ کا اور اس کے صحیح ہونے کا محتاج اور جس چیز کودیکھ رہا ہے اس کے قریب رہنے؛ پھراس پرکوئی پردہ وغیرہ نہ رہنے کا محتاج وغیرہ؛ لیکن اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے میں کسی چیز کا محتاج نہیں) کمالات اس کی ذات میں سب ہیں؛ مگرکوئی کمال ایسا نہیں جس کی کیفیت بیان کی جاسکے ، کیوں کہ اس کی نظیر کہیں موجود نہیں ، وہ مخلوق کی مشابہت و مماثلت سے بالکلیہ پاک اور مقدس و منزہ ہے۳؎۔ حاشیہ:۔(۱)الشوری:۱۱۔ (۲)ترجمہ حضرت تھانویؒ۔ (۳)شرح الطحاویۃ لابن ابی العز، ولاشئی مثلہ:۱/۲۶۔ (۲)ملائکہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ مخلوقات میں ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ان کے وجود کو حق مانا جائے اور یقین کیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک پاکیزہ اور محترم مخلوق ہے۱؎ ’’بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ‘‘۲؎ بلکہ بندے ہیں معزز۳؎ جس میں شر اور شرارت اور عصیان وبغاوت کا عنصر ہی نہیں بلکہ ان کا کام صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے"لَایَعْصُونَ اللہَ مَاأَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَایُؤْمَرُونَ"۴؎ جواللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں۵؎ اور جس کو جو کام اللہ تعالی نے مقرر کردیا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس میں کوتاہی نہیں کرتا۶؎ اور یہ یقین رکھا جائےکہ یہ اللہ پاک کا غیبی نظام ہے جوآنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا کہ فرشتہ ہرجگہ موجود ہیں انسانوں کےاعمال کی نگہبانی کرتے ہیں،جہاں نیک کام ہوتے ہیں وہاں یہ آپس میں اعلان کرتے ہیں’’ھَلُمّواالی حَاجَتِّکُمْ‘‘۷؎ اپنی ضرورت کی طرف آجاؤ؛اگر کوئی علم دین سکھانے نکلتا ہےتو سارے آسمان و زمین کے فرشتے اس کے لیے دعا میں لگ جاتے ہیں’’لَیُصَلوُّنَ عَلٰی مُعَلِم النَاسِ الخَیْرَ‘‘۸؎ اور اللہ کے ان فرشتوں والے غیبی نظام پریقین رکھا جائے۔ حاشیہ:۔(۱)فتح الباری، حدیث نمبر:۴۸۔ صفحہ نمبر:۱/ (۲)الانبیاء:۲۶۔ (۳) ترجمہ حضرت تھانویؒ۔ (۴)التحریم:۶۔ (۵)ترجمہ حضرت تھانویؒ۔ (۶)التحریم:۶۔ (۷)بخاری، باب فضل ذکر اللّٰہ عزوجل، حدیث نمبر:۵۹۲۹ عن ابی ھریرہؓ۔ (۸)ترمذی، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبارۃ ، حدیث نمبر:۲۶۰۹ عن ابی امامۃ الباھلیؓ۔ (۳)اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ہدایت نامے بھیجے،۱؎ ان میں چار زیادہ مشہور ہیں،"تورات" جو حضرت موسی علیہ السلام پر نازل کی گئی "زبور" جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتاری گئی "انجیل" جوحضرت عیسی علیہ السلام پر نازل کی گئی اور "قرآن مجید" جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۲؎ سب سے آخر اور سب کا خاتم قرآن مجید ہے، جو پہلی سب کتابوں کا مصداق اور مہیمن بھی ہے یعنی ان کتابوں میں جتنی ایسی باتیں تھیں جن کی تعلیم و تبلیغ ہمیشہ اورہرزمانہ میں ضروری ہوتی ہے وہ سب قرآن میں لےلی گئی ہیں؛ گویا یہ تمام کتبِ سماویہ کے ضروری مضامین پر حاوی اور سب سے مستغنی کردینے والی اللہ رب العزت کی آخری کتاب ہے اور چونکہ وہ کتابیں اب محفوظ بھی نہیں رہیں؛ اس لیے اب صرف یہی کتابِ ہدایت ہے جوسب کے قائم مقام اور سب سے زیادہ مکمل ہے۳؎ اور زمانۂ آخر تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی لیے خود اللہ نے لی ہے"اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ "۴؎ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں۵؎ اب اس کی پیروی سارے انسانوں پر لازم ہے اور اس میں ساری انسانیت کی نجات ہے جو شخص اللہ تعالی کی اس آخری کتاب سے روگردانی کریگا وہ ناکام اور نامراد ہوگا۶؎۔ حاشیہ:۔(۱)رکائز الایمان:۱/۶۔ (۲)تفسیرابن کثیر، آل عمران:۲/۴۴،۴۷۔ مسندابی یعلی الموصلی، باب انزل اللہ صحف ابراہیم فی اول، حدیث نمبر:۲۱۳۶، صفحہ نمبر:۵/۲ (۳)رکائزالایمان:۱/۶۔ الحجر:۹۔ روح المعانی:۹/۴۴۹۔ تفسیررازی:۹/۲۸۷۱۔ (۴)الحجر:۹۔ (۵)ترجمہ حضرت تھانویؒ۔ (۶)آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۱/۱۸۔ (۴)اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی "ہدایت" اور اپنی رضامندی کا دستور دیکر بھیجا ہے اور انہوں نے پوری امانت ودیانت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں کو پہنچادیا اور لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی پوری پوری کوششیں کیں، یہ سب پیغمبر اللہ کے برگزیدہ اور صادق بندے تھے ان میں سے چند کے نام اور کچھ حالات بھی قرآن کریم میں ہم کو بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے نہیں بتلائے گئے "مِنْھُمْ مَنْ قَصَصنا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ"۱؎ اور اسی کے ساتھ اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ نے اس سلسلہ نبوت ورسالت کو حضرت محمدﷺ پر ختم کردیا آپ خاتم الانبیاء اور اللہ کے آخری رسول ہیں اور اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے نجات وفلاح آپ ہی کی اتباع اورآپ ہی کی پیروی میں ہے۲؎۔ حاشیہ:۔(۱)المؤمن:۷۸۔(۲)العقیدۃ الطحاویۃ، باب الایمان بنبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۱/۱۱۔تفسیرابن کثیر:۱/۷۳۶۔البقرۃ:۲۸۳۔ (۵)ایمان بالیوم الآخر یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیاجائےکہ یہ دنیاایک دن قطعی طور پر فنا کردی جائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے پھر سارے مردوں کو جِلائے گا(زندہ کرےگا)ور یہاں جس نے جیسا کچھ کیا ہے اسی کے مطابق جزا یاسزا اس کو دی جائے گی۱؎ اور میزان عدالت قائم ہوگی اور ہرشخص کی نیکیاں اور بدیاں اس میں تولی جائیں گی۲؎ ،جس شخص کےنیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا اسے اللہ تعالی کی خوشنودی کا پروانہ ملے گا اوروہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کی رضا اور قرب کے مقام میں رہے گا ، جس کو جنت کہتے ہیں اور جس شخص کی برائیوں کا پلہ بھاری ہوگا اسے اللہ تعالی کی ناراضی کا پروانہ ملے گا اور وہ گرفتار ہو کرربّانی قید خانے میں جس کا نام جہنم ہے ،سزا پائے گا اور کافر اور بے ایمان لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ، دنیا میں جس شخص نے کسی دوسرے پر ظلم کیا ہوگا، اس سے رشوت لی ہوگی ، اس کا مال ناحق کھا یا ہوگا ،اس کے ساتھ بدزبانی کی ہوگی یا اس کی آبروریزی کی ہوگی قیامت کے دن اس کا بھی حساب ہوگا اور مظلوم کو ظالم سے پورا پورا بدلہ دیا جائیگا؛ الغرض رب تعالی کے انصاف کے دن کا نام قیامت ہے جس میں نیک و بد کو چھانٹ دیا جائیگا، ہرشخص کو اپنی پوری زندگی کا حساب چکانا ہوگا اور کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں ہوگا اور یہ یقین کامل ہو کہ یہ دن یقینی طورپر وقوع پذیر ہوگا۔ ۳؎ حاشیہ:۔(۱)شرح الطحاویۃ لابن ابی العز: قولہ ونؤمن بالبعث:۱/۲۷۲۔(۲)بخاری:باب قول اللّٰہ تعالیٰ، ونضع الموازین القسط:۲۳/۱۰۳۔شرح الفتاوی الحمویۃ:اثبات الصراط والمیزان:۱/۴۳۵۔(۳)الانبیاء:۴۶ ،آل عمران:۲۵۔ادلّۃ معتقد ابی حنیفۃ: باب مراتب الدین، الایمان بالیوم الآخر: ۱/۱۹۲۔ (۶)ایمان بالقدر یہ ہے کہ اس بات پر یقین لایا جائے اور ماناجائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے (خواہ وہ خیرہو یاشر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے، جس کو وہ پہلے ہی طے کرچکا ہے۱؎، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دنیا کا یہ کارخانہ اس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی کے خلاف چل رہا ہو؛ ایسا ماننے میں حق تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بیچارگی لازم آئیگی۔ ۲؎ حاشیہ:۔(۱)الأحزاب:۳۸۔ القمر:۴۹۔ (۲)معارف الحدیث:۱/۵۲، مصنف:حضرت مولانا محمدمنظور نعمانیؒ۔ بہر حال یہ کارخانہ عالم اپنے آپ سے نہیں چل رہا ہے بلکہ ایک علیم و حکیم ہستی اس کو چلا رہی ہے ، اس کائنات میں جو خوشگوار یاناگوار واقعات پیش آتے ہیں وہ سب اس کے ارادہ اور قدرت وحکمت سے پیش آتے ہیں ، کائنات کے ذرہ ذرہ کے تمام حالات اس علیم وخبیر کےعلم میں ہیں، کائنات کی تخلیق سے قبل اللہ تعالی نے ان تمام حالات کو جو پیش آنے والے تھے ، لوح محفوظ میں لکھا لیا تھا ؛ لہٰذا اس کائنات میں جو کچھ بھی وقوع میں آرہا ہے وہ اسی علم ازلی کے مطابق پیش آرہا ہے الغرض کائنات کا جو نظام حق تعالی شانہ نے ازل ہی سے تجویز کر رکھا تھا یہ کائنات اس طئے شدہ نظام کے مطابق چل رہی ہے۱؎ اور انسان پر خیر و شر یعنی نعمت اور تکلیف جو آتی ہے یہ اللہ کے طرف سے آتی ہے جسے اللہ نے پہلے ہی سےطےکررکھی تھی لیکن انسان کومعلوم نہیں کہ میرے اوپر کیا ہونے والا ہے،جب ہوجاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے،اب اس بات پر یقین کرنا کہ یہ مجھے اب پتہ چلا لیکن اللہ کے نزدیک پہلے ہی سے طئے تھا۲؎۔ واضح رہے کہ مذکورہ چھ امور پرصرف ایمان لالینا یاصرف مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانا رضائے الہٰی یاحصولِ جنت کے لیے کافی نہیں ہے؛ بلکہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ اس کے لیے بہت ضروری ہے اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں جہاں بھی اپنے بندوں کا یاجنت کی بشارت کا تذکرہ فرمایا وہاں پر ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کوضرور ذکرفرمایا؛ جیسا کہ سورۂ بقرہ کے ابتدا ہی میں "الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ" (البقرۃ:۳) اور پھرچند ہی آیتوں کے بعد "وَبَشِّرِ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ...." (البقرۃ:۲۵) میں اللہ سے ڈرنے والوں کی خوبی ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کوبتلایا پھردوسری آیت میں جنت کی بشارت بھی ان ہی لوگوں کودی جوایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ بھی اختیار کرتے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جوشخص ایمان لاکر اعمالِ صالحہ نماز، روزہ وغیرہ میں مستقل لگتارہے اور اس کا اہتمام کرے تواس کی برکت سے اس کا انجام بھی انشاءاللہ اچھا ہوگا اور اگروہ ایمان لاکراس کے تقاضوں اور اعمالِ صالحہ کو نظرانداز کردے اور اللہ کی نافرمانی کرتا رہے اور یہ سمجھے کہ میں تو ایمان والا ہی ہوں مجھے اعمال کی کیا ضرورت؟ توپھرکیا بعید ہے کہ اللہ کی نافرمانیوں اور برائیوں میں اس طرح اسے موت آئے کہ آخروقت میں اس کی نحوست کی وجہ سے ایمان بھی باقی نہ رہے۔ نوٹ: ان چھ امور سے متعلق اور بھی بہت سی تفصیلات ہیں خواہش مند حضرات وہ سب ذیلی عناوین میں دیکھ سکتے ہیں۔ حاشیہ:۔(۱)اصول الایمان، باب الایمان بالقدر متی کان تقدیر مقادیرالخلق: ۱/۹۳، مصنف:محمدبن عبدالوھاب بن سلیمان، المتوفی:۱۲۰۶ھ۔ (۲)اصول الایمان، باب الایمان بالقدر کتابۃ العمل والأجل والرزق:۱/۱۰۳۔ (۳)بخاری، باب الاعمال بالخواتیم ومایخاف منہا، حدیث نمبر:۶۰۱۲۔ ایمان کا اصل تعلق امورِ غیب سے ہے شرعی ایمان کا اصل تعلق اصولاً امورِ غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس وادراک (آنکھ، ناک، کان وغیرہ) کے ذریعہ معلوم نہیں کرسکتے اسی وجہ سے ایمان کے ساتھ بالغیب کی بھی قید لگائی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ (البقرۃ:۳۔)،یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ۔) اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اوران پر وحی کی آمد اور مبداء ومعاد کے متعلق جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ان سب کا تعلق غیب ہی سے ہے ، یعنی سر کی آنکھوں سے ان کا دنیا میں رہتے ہوئے مشاہدہ نہیں ہوسکتا ہے۔ دنیوی مثالوں سے غیب پر ایمان بہت ساری چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جو ہمارے مشاہدے میں نہیں ہیں؛ لیکن ہم ان کے وجود پر مکمل اعتماد اور یقین رکھتے ہیں، انسان بلکہ ہرجاندار مخلوق کے اندر روح موجود ہوتی ہے؛ لیکن کوئی جاندار اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اس کا عدم مشاہدہ (اس کونہ دیکھنا) اس کے وجود کا یقین کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا، ایسے ہی ہرجاندار کے لیے حیات وممات ہے لیکن وہ مشاہدہ سے ماوراء ہے اس کے باوجود اس کے وجود میں ہمیں ذرہ برابر شک نہیں ہوتا اور ہمارے اندر عقل بھی اسی طرح ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی لیکن ساری دنیا والے اس کے وجود کو مانتے ہیں اور آگے بڑھ کر دیکھئے کہ ڈاکٹر س اور اطباء وغیرہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے بدن میں شکر ، لوہا وغیرہ ہے اور وہ ہمیں نظر بھی نہیں آتی ، خود ڈاکٹر سے بھی کہا جائے کہ ایک چمچہ شکر یالوہا نکال کر دکھادیں تو وہ نہیں دکھا سکتے ، لیکن ڈاکٹر کے ساتھ ہم بھی اس کے موجود ہونے کا یقین رکھتے ہیں اسی طرح موبائل کے ٹاور سے موبائل کا تعلق اور پھرٹاور کا تعلق سٹلائٹ سے موجود ہوتا ہے، بظاہر ہمارے مشاہدے میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے نہ ہم اس کا احساس کرتے ہیں لیکن ہمیں اس فن کے ماہرین نے ان کے آپسی تعلق کے موجود ہونے کی خبر دی اور ہم نے اس کا یقین کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدات ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو کچھ چیزیں دکھائیں جیسے معراج کے واقعہ میں بیت المقدس، ساتوں آسمان، سدرۃ المنتہیٰ جنت اور جہنم اور دیگر عجائباتِ قدرت کا آپﷺ نے مشاہدہ فرمایا اور ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبرستان سے ہوا توآپ کو دوقبروں میں عذاب ہوتے ہوئے دکھائی دیا ، جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اطلاع دی۱؎ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے غیبی امور کا آپﷺ نے مشاہدہ کیا اور اس کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دی؛ لہٰذا اس پر یقین کرنا ضروری ہے؛کیونکہ وہ دنیا کے ماہر اوراللہ تعالیٰ کے فرستادہ (بھیجے ہوئے) ہیں۔ (۱)حاشیہ:۔ترمذی، باب ماجاء فی التشدید فی البول:حدیث نمبر:۶۵۔ ایمان لانے کا فائدہ ایمان لانے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صرف ایک ذات وحدہ لاشریک کے سامنے اپنا سر جھکا تا ہے؛ دیگر مذاہب کے ماننے والے جو ایک کے سوا اور کو بھی حاجت روا مانتے ہیں ، ان کا سر ہر آستانہ پر جھک جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، اسلام کے مختصات(خصوصیات) میں جو چیز ہے وہ توحید ہے ، کیونکہ دوسرے مذاہب میں یا توسر ے سے توحید تھی ہی نہیں یا تھی تو کامل نہیں۔ جس قوم کو مشرک کہا جاتا ہے وہ بھی قادر مطلق ایک ہی ذات کو مانتے ہیں البتہ اس کے صفات کو متعدد کہتے ہیں جس سے شرک کا گمان ہوتا ہے، عیسائی تین معبود مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تینوں ایک ہیں، اس لحاظ سے مطلق توحید بھی کوئی نئی بات نہیں؛ مگراسلام کواس باب میں جو خصوصیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس نے توحیدکو کامل یعنی شرک کے ہر قسم کے شائبوں سے پاک کردیا اور یہ منجملہ ان تکمیلوں کے ہے جن کی وجہ سے اسلام کے بعد اور کسی مذہب کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ کمال کے بعد پھرکوئی درجہ نہیں۔ توحید کا مل کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح حق تعالیٰ کی ذات میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں، پیدا کرنا، زندہ رکھنا، مارنا، عالم الغیب ہونا، دور اور نزدیک سے یکساں تعلق رکھنا یہ تمام صفات کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں اسلام کے سوا اور مذہب والے اوتاروں اور پیغمبروں میں بھی یہ اوصاف مانتے تھے اور مانتے ہیں اور یہی توحید کا نقص ہے گرچہ افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اب اصطلاح کا پردہ رکھ کر ان اوصاف کو اوروں میں بھی ماننے لگے ہیں ، اسلام نے توحید کے کمال کے لیے توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات اور توحید فی العبادت کو بھی ضروری قرار دیا؛ یہاں تک کہ سجدۂ تعظیمی جو تمام دوسرے مذاہب میں جائز تھا؛ لیکن مذہبِ محمدیہ میں اِس کو بھی ختم کردیا گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اقرار اور اعتراف کا دل پر جو اخلاقی اثر پڑتا ہے وہ توحید کامل کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ، اطاعت، انقیاد،خشوع، استقلال ، توکل اوراخلاص کی حالت اسی وقت دل پر طاری ہوسکتی ہے جب یہ خیال ہو کہ ہماری تمام حاجتوں، تمام ضرورتوں، تمام امیدوں، تمام اغراض، تمام خواہشوں کا ایک ہی مرکز ہے،انسان میں استقلال،آزادی،دلیری اوربے نیازی کے اوصاف بھی توحید کا مل کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتے۔ (ملخص من الکلام:۶۲،۶۳، علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ) لغوی تعریف ایمان لغت میں کسی بات یا کسی چیز کی تصدیق کرنے، یقین کرنے، اور دل سے مان لینےکو کہتے ہیں۔ (المصباح المنیر:۱/۱۳۶) شرعی تعریف اصطلاح شریعت میںﷺ جو کچھ اپنے پروردگار کے پاس سے لائے ہوں ان سب کی تصدیق کرنے (مان لینے)کو ایمان کہتے ہیں۔ (فتح الباری،کتاب الایمان:صفحہ نمبر:۱/۸۔ التعریفات، الایمان:۱/۱۲) حقیقت سب سے پہلے ایمان کی حقیقت اور اس کا تعارف سمجھنا ضروری ہے اس لیے کہ بہت سارے لوگ ہیں جو "ایمان" کا مطلب نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے بہت ساری خرابیاں وجود میں آتی ہیں۔ ایمان کے اصل معنی کسی پراعتماد کرتے ہوئے اس کی بات کو سچ ماننے کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَاأَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَاوَلَوْکُنَّا صَادِقِیْنَ"" (یوسف:۱۷) ترجمہ:اور آپ ہمارا کاہے کو یقین کرنے لگے ؛ گوہم کیسے ہی سچے ہوں۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اور ایمان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں یقین کرنا، تصدیق کرنا،دل سے کسی بات کو مان لینا، اسی طرح اسلام بھی عربی زبان کا ہی لفظ ہے اس کے معنی ہیں اپنے آپ کو دوسرے کے سپرد کردینا، اس کے سامنے ڈال دینا۔ (اسلام مکمل دین مستقل تہذیب:۲۱) شریعت میں ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام باتوں میں تصدیق کرنا جو دین کی بابت آپﷺ سے بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوں اور ضرورت پر یا مطالبہ پر زبان سے اس کا اقرار و اظہار بھی کرنا؛اگر دل سے حضورﷺ کو سچا نہ مانا جائے تو آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا اگرچہ زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کا کتنا ہی اقرار کیاجائے یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے منافقین یعنی وہ لوگ جو حضورﷺ اور مسلمانوں کے سامنے تو آپﷺ کو سچا رسول اور اپنے آپ کومسلمان کہتے تھے؛ لیکن دل سے ہرگز اس کے قائل نہ تھے، اسی لیے وہ درپردہ کافروں سے ملے ہوئے تھے، ان سے ظاہری معاملہ تومسلمانوں جیسا کیا گیا؛ لیکن آخرت کے حق میں انہیں مسلمان نہیں قراردیا گیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دل سے آپﷺ کی سچائی کا اعترف کرنے والا ہو مگر ضرورت و مطالبہ کے باوجودزبان سے اقرار واعلان نہ کرے تو وہ بھی مسلمان نہیں کہلائے گا، جیسے کہ بہت سے کفار مکہ اور بہت سے یہودی وعیسائی ایسے تھے کہ جودل سے توحضورﷺ کی صداقت کے قائل تھے،اس لیےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انہوں نے کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا تھا اور یہودی و عیسائی اپنی کتابوں میں آپﷺ کا ذکر پڑھتے تھے لیکن دنیاوی مصالح کے تحت زبان سے اعتراف نہیں کرتے تھے۔ شرعًا اسلام و ایمان کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے کہ اسلام یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینے کا مطلب یہی ہے کہ جو احکام اللہ تعالی کی جانب سے بھیجے جائیں ان کو بے چون و چرا مان لیا جائے اور ان کے سامنے اپنے آپ کو سپرد کردیا جائے۔ (اسلام مکمل دین مستقل تہذیب:۲۲) لیکن ان سب چیزوں پر تفصیلی طور سے ایمان لانا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ نفس ایمان کے لیے اجمالی تصدیق بھی کافی ہے؛ البتہ کچھ خاص اوربنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعیین کے ساتھ ضروری ہے۔ چنانچہ حدیثِ جبرئیل میں ایمان سے متعلق سوال کے جواب میں جن امور کو ذکر فرمایا گیا ہے (اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابیں، اللہ کے رسول اور قیامت کا دن اور ہرخیروشر کی تقدیر)وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے حدیث جبرئیل میں ان کا ذکر صراحۃ اور تعین کے ساتھ فرمایا اور قرآن پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں: "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ"۔ (البقرۃ:۲۸۵) ترجمہ:اعتقاد رکھتے ہیں رسول اس چیز کا جو ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور مؤمنین بھی سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ اور اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے سب پیغمبروں کے ساتھ۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) "وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا"۔ (النساء:۱۳۶) ترجمہ:اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور روزِ قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اِن چھ امور میں سے "تقدیر خیروشر" کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان آیات میں نہیں آیا ہے لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحۃ بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: "قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِاللہ"۔ (النساء:۷۸) ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اور دوسری جگہ ارشاد ہے: "فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًاحَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآء کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ"۔ (الانعام:۱۲۵) ترجمہ:سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتے ہیں اور جس کو بے راہ رکھنا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو تنگ بہت تنگ کردیتے ہیں جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر پھٹکار ڈالتا ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) حدیثِ جبرئیل جس میں ایمانیات کو یکجا بیان کیا گیا وہ یہ ہے، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اور اس پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد (نئے آنے والے شخص)کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہر کے آدمی ہیں؛ بہرحال یہ حاضرین کے حلقہ سے گزرتا ہوا آیا) اور اپنے گھٹنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ حضورﷺ کی رانوں پر رکھدیئے اور کہا:اے محمد! مجھے بتلائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اسلام یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل وزبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ اللہ کے سوا کوئی "الٰہ" (کوئی ذات عبادت وبندگی کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اورماہ رمضان کےروزے رکھو اور اگر بیت اللہ کا حج کرنے کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو، اس نووارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا: آپ نے سچ کہا۔ راوئ حدیث حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی ہے اور پھر خود ہی اس کو صحیح اور درست بتلا تا بھی ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا:اب مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور یوم آخرت یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہرخیروشر تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو (یہ سن کر بھی) اس نے کہا آپ نے سچ کہا؛ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا:مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت وبندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو؛ اگر (تم یہ دھیان نہ رکھ سکو کہ)تم اس کو دیکھ رہے ہو تو یہ خیال کرو کہ وہ توتم کو دیکھ ہی رہا ہے؛ پھراس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کےمتعلق بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہوگی) آپ نے فرمایا:جس سے یہ سوال کیا جارہا ہے وہ اس کے بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا؛ پھراس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلایئے؟ آپ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھوگے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور بدن پرکپڑا نہیں ہےاورجوخالی ہاتھ اوربکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کرکے یہ نیا آیا ہوا شخص چلاگیا؛ پھر مجھے کچھ عرصہ گزرگیا، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:اے عمر!کیا تمھیں پتہ ہےکہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھادیں۔ (مسلم،باب بیان الایمان والاسلام والاحسان،حدیث نمبر:۹۔ بخاری،باب سوال جبرئیل النبیﷺ ، عن ابی ھریرۃ، حدیث نمبر:۴۸) ضرورت ایمان ایک انسان کےلیے اسی درجہ ضروری چیز ہے جس درجہ کہ اس کے جینے کے لیے غذا پانی اورہوا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ انسان کی روح کو جِلا ایمان سے ہی ملتی ہےاور اس کوترقی وصحت وایمان کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہے،روئے زمین پر ایمان سے بڑھ کر قوت والی کوئی چیزنہیں اورنہ ہی فرد اورمعاشرہ کی اصلاح،ضمیرکی بیداری،اخلاق کی عمدگی وپختگی، ایک صالح معاشرہ کی تشکیل، خیروطاعات پر باہمی تعاون کی مکمل ذمہ داری ایمان کے علاوہ کوئی چیز لے سکتی ہے، اس لیے کہ انسان کا ڈرائیور اس کا باطن ہوتا ہے اور وہی ایمان کا مرکز ومحل ہے، کیسے ہی قومی وجماعتی نظام بنائے جائیں اور کیسی ہی حکومتیں و کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو کہ نہایت اعلی پیمانہ پر افرادو معاشرہ کے اخلاق و اعمال کی نگرانی کرتی ہوں اگر عقیدۂ ایمان ان کی پشت پر نہ ہو تو محض یہ چیزیں ہرگز ہرگز ایک صالح معاشرہ اور فرد کی قابل قدر وذمہ دارودیانتدارزندگی کووجود نہیں دے سکتیں، نظام جرم وسزاوراخلاقی و معاشرتی گرفت کا خوف و خیال ضرور ہوتا ہے مگر اسی وقت تک جب تک کہ جرم کرنےکےبعدگرفت سے بچ نکلنےکی کوئی صورت سامنے نہ ہواورجہاں ایسی صورتیں و تدبیریں سامنےآئیں تو ان کابھی پاس و لحاظ نہیں رہ جاتا، ایمان ہی سےفرد و معاشرہ اور ملک و ملت کی تعمیر وتکمیل ہوتی ہے اور اس کے نہ ہونے سے ہر ایک فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے، ایمان ہی راہ اعتدال ہے اور یہی بھائی چارگی اور ایک دوسرے پر لطف و رحم کے جذبہ کا منبع، اور بڑے سے بڑے مصائب و مشکلات کا حقیقی حل و علاج ہے۔ (اسلام مکمل دین مستقل تہذیب:۲۳) ارشاد باری ہے: "فَاِمَّا یَأتِیَنَّکُمْ مِّنّی ھُدْی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی"۔ ) طٰہٰ:۱۲۴) ترجمہ:پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو شخص میری اس ہدایت کی اتباع کرے گا تو وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ شقی ہوگا اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ)