انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مرض الموت کا آغاز آنحضرت ﷺ ۲۹ صفر کو جنت البقیع میں ایک صحابی کے دفن کے بعد گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہؓ دردِ سر کی شدت سے بے تاب ہیں، وہ بار بار " وارساہ " " واراسا " کہہ رہی ہیں جس کا مطلب تھا کہ اس تکلیف سے موت آجاتی تو اچھا تھا ، حضور ﷺ نے فرمایا : ائے عائشہؓ : میرا سر بھی درد سے پھٹا جارہا ہے ، پھر مزاحاً فرمایا : اگر تم پہلے مر جاتیں تو میں تمہیں کفن پہناتا ‘ نماز جنازہ پڑھتا اور اپنے ہاتھ سے سپرد خاک کرکے دعائے مغفرت کرتا، اس پر حضرت عائشہؓ نے بھی مزاحاً جواب دیا ، اور جب لوٹ کر آتے تومیرے گھر میں کسی اور بیوی کو لے آتے ، اس پر حضور ﷺ مسکرا اٹھے اورفرمایا: ائے عائشہ ؓ : تمہارا درد سر تو جاتا رہیگالیکن میرا دردِ سر شاید ہی کم ہو، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا : ابو بکرؓ اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ان کے لئے ایک تحریر لکھ دوں، اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص بھی خواہش کرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ اور مومنین ابو بکرؓ کے سوا کسی اور کو اس مقام پر نہیں چاہتے ، اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مرض الموت کی ابتداء درد سر کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کے کمرہ سے شروع ہوئی، صحیحین کی جو روایت حضرت عبیداللہ بن عبداللہ سے مروی ہے اس کے مطابق اس بیماری کی ابتداء حضرت میمونہؓ کے گھر سے ہوئی، آنحضرتﷺ کی بیماری ماہ صفر کے آخر میں شروع ہوئی، یہ پیر کا دن تھا، کسی مورخ نے چہارشنبہ اور ہفتہ بھی لکھا ہے، بیماری کے ایام کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، دس ، بارہ، تیرہ اور چودہ دن بتائے ہیں ، مرض کے دوران بھی آپﷺ باری باری چادر اوڑھ کر ازواج کے پاس قیام فرماتے،