انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علمِ حدیث وسطِ ہند میں نواب صدیق حسن خان صاحب ہندوستان میں علمِ حدیث کاآغاز شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۲ھ) شارح مشکوٰۃ سے کرتے ہیں، آپ نے حجاز میں شیخ علی المتقی صاحب کنزالعمال سے حدیث پڑھی تھی، آپ کی علمی شہرت نے آپ کوسارے ہندوستان کا مرکز بنادیا تھا؛ یہاں تک کہ گجرات سے بھی علماء ان کے پاس پہنچتے اور حدیث کی سند لیتے تھے، شیخ احمد بن سلیمان گجراتی بھی دہلی آئے اور حضرت الشیخ سے اس کی سند لی، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے پوتے شیخ نورالحق (۱۰۷۳ھ) نے صحیح بخاری کی شرح فارسی میں لکھی، جوعلماء میں بہت مقبول اور متداول ہے۔ ان حضرات کے بعد دہلی کی یہ نہضتِ علمی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خاندان میں منتقل ہوئی، آپ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم جوفتاوےٰ عالمگیری کی تدوین میں اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ کام کرچکے تھے، دہلی کے مدرسہ رحیمیہ کے بانی تھے، آپ کے بعد آپ کے بیٹے حضرت شاہ ولی اللہ اس مسند کے وارث ہوئے، حضرت شاہ صاحبؒ نے حجاز کا سفر کیا اور شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم سے دوبارہ حدیث پڑھی، حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد آپ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سریرآرائے مسند حدیث ہوئے، آپ کی علمی سلطنت مصروشام اور بلخ وبخارا تک پھیلی ہوئی تھی، آپ کے بعد آپ کے نواسے حضرت شاہ محمداسحاق یہاں درس وافتاء کا مرجع بنے، یہ مسند حدیث اس وقت تک ہندوستان کا علمی مرکز تھی، گنگوہ سے شیخ عبدالنبی حدیث پڑھنے حجاز گئے اور واپس آکر یہاں علمِ حدیث کی خدمت کی، شیخ عبدالقدوس گنگوہی بھی اپنے وقت میں مرجع خلائق بنے اور آخری دور میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، گنگوہ میں دورۂ حدیث پڑھاتے رہے، ان کے بعد دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور جیسے ادارے عالمِ وجود میں آئے اور ان سے ایک عالم سیراب ہوا۔