انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنتیوں کی باہم ملاقاتیں اور سواریاں جنتی کی جنتیوں اور دوزخیوں سے ملاقاتیں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَo قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌo يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَo أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّالَمَدِينُونَo قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَo فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِo قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِo وَلَوْلَانِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَo أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَo إِلَّامَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَانَحْنُ بِمُعَذَّبِينَo إِنَّ هَذَا لَهُوَالْفَوْزُ الْعَظِيمُo لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ۔ (الصافات:۵۰ تا ۶۱) ترجمہ: پھر (جب سب لوگ ایک جلسہ میں جمع ہوں گے تو) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر بات چیت کریں گے (اس بات چیت کے دوران میں) ان (اہلِ جنت) میں سے ایک کہنے والا (اہلِ مجلس سے) کہے گا کہ (دنیا میں) میرا ایک ملاقاتی تھا وہ مجھ سے بطورِ تعجب کہا کرتا تھا کہ کیا تو (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے) ماننے والوں میں سے ہے؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے توکیا ہم (دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور زندہ کرکے) جزاء وسزادیئے جائیں گے؟ (یعنی وہ آخرت کا منکر تھا، اس لیے ضرور وہ دوزخ میں گیا ہوگا، اللہ تعالیٰ کا) ارشاد ہوگا کہ (اے اہلِ جنت!) کیا تم جھانک کر (اس کو) دیکھنا چاہتے ہو؟ (اگرچاہو توتم کواجازت ہے) سووہ شخص (جس نے قصہ بیان کیا تھا) جھانکے گا اس کوجہنم کے درمیان میں (پڑا ہوا) دیکھے گا (اس کووہاں دیکھ کراس سے) کہے گا کہ خدا کی قسم تو، تومجھ کوتباہ ہی کرنے کوتھا (یعنی مجھ کوبھی منکر آخرت بنانے کی کوشش کیا کرتا تھا) اور اگرمیرے رب کا (مجھ پر) فضل نہ ہوتا (کہ مجھ کواس نے صحیح عقیدے پرقائم رکھا) تومیں بھی (تیری طرح) عذاب میں گرفتار لوگوں میں ہوتا (اور اس کے بعد جنتی اہلِ مجلس سے کہے گا کہ) کیا ہم بجز پہلی بار مرچکنے کے (کہ دنیا میں مرچکے ہیں) اب نہیں مریں گے اور نہ ہم کوعذاب ہوگا (یہ ساری باتیں اس جوش مسرت میں کہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے سب آفات اور کلفتوں سے بچالیا اور ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیا، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جنت کی جنتی جسمانی اور روحانی نعمتیں اوپر کی آیات میں بیان کی گئی ہیں) یہ بے شک بڑی کامیابی ہے، ایسی ہی کامیابی (حاصل کرنے) کے لیے عمل کرنے والوں کوعمل کرنا چاہیے (یعنی ایمان لانا اور اطاعت کرنی چاہئے)۔ اہلِ جنت کا دنیا میں آپ بیتیوں کا مذاکرہ: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَo قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَo فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِo إِنَّاكُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ۔ (الطور:۲۵ تا ۲۸) ترجمہ:وہ (جنتی) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر بات کریں گے (اور اثنائے گفتگو میں) یہ بھی کہیں گے کہ (بھائی) ہم تواس سے پہلے اپنے گھر (یعنی دنیا میں انجام کار سے) بہت ڈرا کرتے تھے، سو!خدا نے ہم پربڑا احسان کیا اور ہم کوعذاب دوزخ سے بچالیا (اور) ہم اس سے پہلے (یعنی دنیا میں) اس سے دعائیں مانگا کرتے تھے (کہ ہم کودوزخ سے بچا کر جنت میں لے جائے؛ سو! اللہ نے دعا قبول کرلی) وہ واقعی بڑا محسن مہربان ہے۔ علمی محافل بھی قائم ہوں گی: علامہ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب اہلِ جنت آپس کی آپ بیتیاں ایک دوسرے کوسنائیں گے توان میں علم کے مسائل، فہم قرآن وسنت اور صحت احادیث پرگفتگو زیادہ قرینِ قیاس ہے؛ کیونکہ دنیا میں اس کا مذاکرہ کھانے پینے اور جماع سے زیادہ لذیذ ہے تواس کا مذاکرہ جنت میں بھی بہت ہی لذیذ ہوگا اور یہ لذت صرف اہلِ علم کے ساتھ خاص ہوں گی جولوگ اہلِ علم میں سے نہ ہوں گے وہ ان محافل کے شرکاء بھی نہ ہوں گے، واللہ اعلم۔ (حادی الارواح:۴۸۹) ملاقات کا انداز وگفتگو: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَادَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ اشْتَاقُوا إِلَى الْإِخْوَانِ، فَیَجِیٔ سَرِيرُ هَذَا حَتَّی یُحَاذِی سَرِيرِ هَذَا، فَيُحَدِّثَانِ فَیَتکیٔ إِذَاوَیَتَّکِیٔ ہَذَا وَیَتَحَدَّثَانِ ِمَاكَانَ فِي الدُّنْيَا فَيَقُولَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: یَافُلَانِ تَدْرِي يَوْمَ غَفَرَ اللَّهُ لَنَا يَوْمَ کَذَا فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا فَدَعَوْنَا اللَّهَ تَعَالَی فَغَفَرَ لَنَا۔ (البدورالسافرہ:۲۱۹۷۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۳۹۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۲۱) ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تووہ اپنے بھائیوں (اور مؤمنوں اور دوستوں) کی ملاقات کا شوق کریں گے توایک جنتی کے پلنگ کولاکر کے دوسرے جنتی کے پلنگ کے برابر رکھ دیا جائے گا؛ چنانچہ وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہیں گے اس نے بھی تکیہ لگایا ہوگا اور اس نے بھی تکیہ لگایا ہوگا، یہ دونوں حضرات دنیا میں جوکچھ ہوا اس کے متعلق باتیں کرتے رہیں گے، ان میں ایک اپنے دوست سے کہے گا اے فلاں! آپ کومعلوم ہے کہ فلاں دن فلاں اور فلاں جگہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بخشش فرمائی، جب ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی تواس نے ہمیں معاف کردیا تھا۔ زیارت کی سواریاں: حدیث: حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إَنّ أَهْلَ الجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ عَلَى نَّجائِبِِ بيض كَأَنَّهُنَّ اليَاقُوْتُ وَلَيْسَ فِي الْجَنَّةِ مِنَ البَهَائِمِ إِلاَّالْإِِبْلُ وَالطَّيْرُ۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۸۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۲) ترجمہ:جنتی حضرات یاقوت کی طرح کی خوبصور تسفید سواریووں پربیٹھ کر ایک دوسرے کی زیارت کوجائیں گے؛ جبکہ جنت میں اونٹ اور پرندے (یاگھوڑے) کے علاوہ کوئی جانور (سواری کا) نہیں ہوگا۔ مشک کا غبار اڑانے والے اونٹ: ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنتی حضرات ایک دوسرے کی ملاقات (میں جانے) کے لی بھورے رنگ کے اونٹ کواستمعال کریں گے جن پردرخت میس کی لکڑی کے کجاوے ہوں گے، اس کے پاؤں کے تلے مشک کا غبار اڑاتے ہوں گے، ان میں کے ہراونٹ کی (خالی) لگام (ہی) دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۱) عمدہ گھوڑے اور اونٹ: حدیث: حضرت شفی من ماتع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ نَعِيمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنَّهُمْ يَتَزَاوَرُونَ عَلَى الْمَطَايَا وَالنُّجُبِ، وَإِنَّهُمْ يُؤْتَوْنَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِخَيْلٍ مُسَوَّمَةٍ مُلْجَمَةٍ، لَاتَرُوثُ وَلَاتَبُولُ، فَيَركَبُونَهَا حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ عَزَّوَجَلْ، فَيَأْتِيهِمْ مِثْلُ السَّحَابَةِ، فِيهَا مَالَاعَيْنٌ رَأَتْ، وَلَاأُذُنٌ سَمِعَتْ، فَيَقُولُونَ: أَمْطِرِي عَلَيْنَا، فَمَایَزَالُ الْمَطِرُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَنْتَهِيَ ذَلِكَ إِلَى فَوْقِ أَمَانِيهِمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا غَيْرَ مُؤْذِيَةٍ فَتَنْسِفُ كُثْبَانًا مِنْ الْمِسْكِ عَلَى أَيْمَانِهِمْ، وَعَلَى شَمَائِلِهِمْ، فَيَأْخُذُ ذَلِكَ الْمِسْكُ فِي نَوَاصِي خُيُولِهِمْ، وَفِي مَعَارِفِهَا، وَفِي رُءُوسِهِمْ، وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ جُمَّةٌ عَلَى مَااشْتَهَتْ نَفْسُهُ، فَيَتَعَلَّقُ ذَلِكَ الْمِسْكُ فِي تِلْكَ الْجِمَامِ، وَفِي الْخَيْلِ، وَفِي مَاسِوَى ذَلِكَ مِنَ الثِّيَابِ، ثُمَّ يُقْبِلُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى مَاشَاءَ اللَّهُ عَزَّوَجَلْ، فَإِذَا الْمَرْأَةُ تُنَادِي بَعْضَ أُولَئِكَ: يَاعَبْدَ اللَّهِ، أَمَالَكَ فِينَا حَاجَةٌ؟ فَيَقُولُ: مَاأَنْتِ؟ وَمَنْ أَنْتِ؟ فَتَقُولُ: أَنَازَوْجَتُكَ، فَيَقُولُ: مَاكُنْتُ عَلِمْتُ بِمَكَانَكِ، فَتَقُولُ الْمَرْأَةُ: أَوَمَاتَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ قَالَ: ﴿ فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاأُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَاكَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (السجدة:۱۷) فَيَقُولُ: بَلَى وَرَبِّي، فَلَعَلَّهُ يُشْغَلُ عَنْهَا بَعْدَ ذَلِكَ الْمَوْقِفِ مِقْدَارَ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا، لَايَلْتَفِتُ وَلَايَعُودُ، مَايَشْغَلُهُ عَنْهَا إِلَّامَاهُوَفِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ وَالْكَرَامَةِ۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۴۱۔ البدورالسافرہ:۲۲۰۱۔ حادی الارواح:۳۳۵۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۶۷۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۴۳) ترجمہ: جنت کی نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جنتی حضرات ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کے لیے اونٹ اور خوبصورت سواریاں استعمال کریں گے اور یہ جمعہ کے دن زین اور لگام والے گھوڑے پرسوار ہوکر آئیں گے جونہ تولید کرتا ہوگا نہ پیشاب کرتا ہوگا، جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے، یہ اس پرسوار ہوگا، بادل کی طرح کی کوئی چیز ان کے پاس آئے گی جس میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے، یہ جنتی کہیں گے تم ہم پربرسوتووہ ان پربرستی رہے گی؛ حتی کہ بالکل ان کی خواہشات کے تکمیل پرجاکرکے تھمے گی؛ پھراللہ تعالیٰ ایک ہوا چلائیں گے جومشک کے ٹیلے اکھیڑ کرجنتیوں کے دائیں بائیں رکھدے گی؛ پھرمشک (کستوری) اڑکر جنتیوں کے گھوڑوں کی پیشانیوں، چہروں اور ان کے سروں میں سجے گی، ہرایک جنتی کے لیے جوکچھ اس کا جی چاہے گا بہت کچھ ملے گا اور یہ مشک، ان تمام چیزوں میں شامل ہوجائے گی حتی کہ گھوڑے میں بھی اس کے علاوہ کپڑوں میں بھی؛ پھریہ جنتی واپس مڑیں گے حتی کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ چاہے گا ان نعمتوں کی انتہاء کوپہنچیں گے کہ اچانک ایک عورت ان حضرات میں سے کسی ایک کوپکارے گی کہ اے بندۂ خدا! کیا تمھیں ہماری ضرورت نہیں؟ تووہ پوچھے گا توکون سی نعمت ہے توکون ہے؟ تووہ کہے گی میں تیری دلہن ہوں اور تیری محبت ہوں وہ کہے گا مجھے معلوم نہیں ہوا توکہاں تھی؟ تووہ کہے گی کیا آپ کومعلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاأُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَاكَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (ترجمہ:) سو! کسی شخص کوخبر نہیں جوجوآنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانہ غیب (جنت) میں موجود ہے، یہ ان کوان کے اعمال کا صلہ ملا ہے، تو وہ کہے گا کیوں نہیں مجھے میرے رب کی قسم! پس! شاید کہ وہ جنتی اس مجمع کے بعد چالیس سال تک ادھر اُدھر متوجہ نہ ہوگا اور نہ اس کوایسی کوئی چیز اس سے ہٹاسکے گی اس حالت میں وہ نعمت اور شان وشوکت میں رہے گا۔ شہدا کی سواریاں: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّامَنْ شَاءَ اللَّهُ (الزمر:۶۸) (ترجمہ:) اور صور میں پھونک ماری جائے گی توتمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اُڑجائیں گے مگرجس کوخدا چاہے۔ یہ کون لوگ ہوں گے اللہ تعالیٰ جن کے ہوش قائم رکھنا چاہیں گے؟ توانہوں نے بتایا کہ یہ شہداء ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کواس حالت میں اٹھائے گا کہ انہوں نے اپنی تلواریں عرشِ خداوندی کے اردگرد لٹکائی ہوں گی فرشتے ان سے میدان محشر میں جب ملیں گے تویہ یاقوت کی عمدہ سواریوں پرسوار ہوں گے، ان کی باگیں سفید موتی کی ہوں گی، کجاوے سونے کے ہوں گے، لگاموں کی رسیاں باریک اور موٹے ریشم کی ہوں گی اور لگامیں ریشم سے زیادہ ملائم ہوں گی، ان کے قدم مردوں کی تاحد نظرپر پڑیں گے، یہ اپنے گھوڑوں پرجنت کی سیر کرتے ہوں گے، جب سیروتفریح لمبی ہوجائے گی توکہیں گے چلو ہمارے ساتھ پروردگار کی طرف ہم اس کودیکھیں کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان کس طرح سے فیصلہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ (ان کودیکھ کر) ان کو(خوش کرنے) کے لیے ہنس پڑیں گے اور جب اللہ عزوجل کسی بندہ کی طرف کسی موقع پردیکھ کرہنس پڑیں تواس سے (قیامت کے دن اعمال کا) حساب وکتاب نہیں ہوگا۔ (صفۃ الجنۃ، ابن ابی الدنیا:۲۴۲۔ حادی الارواح:۳۳۰۔ درمنثور:۵/۳۳۶) اعلیٰ جنتی کا گھوڑا: حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَخْرُجُ مِنْ أَعْلَاهَا حُلَلٌ، وَمِنْ أَسْفَلِهَا خَيْلٌ مِنْ ذَهَبٍ مُسْرَجَةٍ مُلْجَمَةٍ مِنْ يَاقُوتٍ وَدُرٍّ، لَاتَرُوثُ وَلَاتَبُولُ، لَهَا أَجْنِحَةٌ خَطْوُهَا مَدُّ بَصَرِهَا فَيَرْكَبُهَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فَتَطِيرُ بِهِمْ حَيْثُ شَاءُوا، فَيَقُولُ الَّذِي أَسْفَلُ مِنْهُمْ دَرَجَةً: يَارَبِّ مَابَلَّغَ عِبَادَكَ هَذِهِ الْكَرَامَةَ؟ فَيُقَالُ لَهُمْ: إِنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ اللَّيْلَ وَأَنْتُمْ تَنَامُونَ، وَكَانُوا يَصُومُونَ وَكُنْتُمْ تَأْكُلُونَ، وَكَانُوا يُنْفِقُونَ وَكُنْتُمْ تَبْخَلُونَ، وَكَانُوا يُقَاتِلُونَ وَكُنْتُمْ تَجْبُنُونَ۔ (صفۃ الجنۃ، ابن ابی الدنیا:۲۴۲۔ حادی الارواح:۳۳۰۔ درمنثور:۵/۳۳۶) ترجمہ: جنت میں ایک درخت ہے جس کے اوپر کے حصہ سے پوشاکیں نکلیں گی اور نچلے سے یاقوت اور جوہر کی زین اور لگام سمیت سونے کا گھوڑا نکلے گا، یہ نہتولید کریگا اور نہ پیشاب، اس کے کئی پرہوں گے، اس کا قدم تاحدنگاہ پرپڑےگا، جنتی اس پرسوارہوں گے اور جہاں چاہیں گے یہ ان کولیکر اڑے گا، وہ جنتی جوان سے نچلے درجہ میں ہوگا وہ کہے گا: اے رب! کس عمل نے تیرے ان بندوں کواس شان وشوکت تک پہنچایا ہے؟ توان سے کہا جائے گا: (۱)یہ لوگ رات کونماز پڑھتے تھے جب تم سورہے ہوتے تھے (۲)یہ لوگ روزہ میں ہوتے تھے جب کہ تم کھارہے ہوتے تھے (۳)یہ لوگ صدقہ خیرات کرتے تھے جب کہ تم بخل کرتے تھے (۴)یہ لوگ جہاد کرتے تھے جب کہ تم بزدلی دکھاتے تھے۔ جنت کے گھوڑے اور اونٹ: حدیث: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا جنت میں گھوڑا بھی ہوگا؟ توآپ نے ارشاد فرمایا اگراللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں داخل فرمائیں گے توجب چاہے گا کہ یاقوت احمر کے گھوڑے پرسوار ہواور وہ تمھیں جنت میں اُڑاتا پھرے توتوسوار (ہوکرجنت کی اس طرح سے سیر کرسکے گا) ایک اور صحابی نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا جنت میں اونٹ ہوگا؟ توآپ نے اس کوویسا جواب نہ دیا جیسا کہ پہلے صحابی کودیا تھا؛ بلکہ فرمایا:اگرآپ کواللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائیں گے توآپ کے لیے جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کا تمہارا دل چاہے گا اور تمہاری آنکھوں کولذت ملے گی۔ (حدیث حسن، زہد ابن مبارک:۲/۷۷۔ ابن جریر، تفسیر:۲۵/۵۸۔ شرح السنہ:۱۵/۲۲۲) اللہ کی زیارت کے لیے لے جانے والا گھوڑا: حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَادَخَلَ أَهْل الجنة الجنة جائتهم خيول مِنْ يَاقوت احمر لها اجنحة لاتبول ولاتروث فقعدوا عليها ثم طارت بهم في الجنة فيتجلى لهم الجبار فاذا راوه خروا سجدا فيقول لهم الجبار تعالى ارفعوا رؤوسكم فان هذا ليس يوم عمل انما هويوم نعيم وكرامة فيرفعون رؤوسهم فيمطر الله عليهم طيبا فيمرون بكثبان المسك فيبعث الله على تلك الكثبان ريحا فتهيجها عليهم حتى انهم ليرجعوا الى أهليهم وانهم لشعث غبر۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۴۲۹۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۵۱۵، کتاب العظمۃ ابوالشیخ۔ حادی الارواح:۳۳۱۔ کتاب الشریعۃ آجری:۲۶۷) ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوچکیں گے توان کے پاس یاقوت احمرکے گھوڑے پیش ہوں گے جن کے پربھی ہوں گے جونہ تولید کریں گے نہ پیشاب، یہ حضرات ان پرسوار ہوں گے اور یہ گھوڑے ان کواٹھاکر اڑیں گے، اللہ تعالیٰ جبار ان کے سامنے تجلی فرمائیں گے تویہ حضرات اللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہی سجدہ میں گرجائیں گے تواللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے: اپنے سراٹھالو! کیونکہ یہ عمل کرنے دن کا نہیں ہے یہ نعمتوں اور عزت ومرتبہ پانے کا دن ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ جنتی اپنے سراٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پرخوشبو پاشی کریں گے؛ پھریہ مشک کے ٹیلوں کے پاس سے گذریں گے تواللہ تعالیٰ ان ٹیلوں پرایسی ہوا چلائیں گے کہ وہ ان جنتی حضرات کومعطر کردے گی؛ حتی کہ جب یہ اپنے گھروالوں کی طرف واپس لوٹیں گے توبال کھلے ہوئے مشک آلود ہوں گے۔ جنتی حضرات علماء کرام کے جنت میں محتاج ہوں گے: حدیث:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: إنّ أهْلَ الجَنَّةِ لَيَحْتاجُونَ إلى العُلَماءِ في الجَنّةِ وذلِكَ يَزُورونَ الله تَعَالَى فِيْ كُلِّ جُمُعَةٍ فَيَقُولُ تَمَنّوْا مَاشِئْتُمْ فَيَلْتَفِتُونَ إلى العُلَماء فَيَقُولُونَ مَاذَا نَتَمَنّى عَلَی رَبِّنَا فَيَقُولُونَ تَمَنّوْا كَذَا وَكَذَا فَهُمْ يَحْتَاجُونَ إلَيْهِمْ في الجَنَّةِ كمايَحْتَاجُونَ إلَيْهِمْ في الدُّنْيا۔ (مسندالفردوس دیلمی:۸۸۰۔ لسان المیزان:۵/۵۵۔ میزان الاعتدال:۷۰۶۶) ترجمہ:جنت والے جنت میں بھی علماء کے محتاج ہوں گے اور وہ اس طرح سے کہ جنتی ہرجمعہ کواللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے تم جوچاہو تمنا کریں؟ تووہ بتائیں گے کہ تم اس اس طرح کی تمنا کرو؛ چنانچہ یہ حضرات جنت میں علماء کرام کے اسی طرح سے محتاج ہوں گے جس طرح سے یہ ان کے دنیا میں محتاج ہیں۔ حضرت سلیمان بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جنت والے لوگ جنت میں علماء کرام کے محتاج ہوں گے جس طرح سے وہ دنیا میں علماء کے محتاج ہوتے ہیں (وہ اس طرح سے کہ) ان کے پاس ان کے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی حاضر ہوں گے اور کہیں گے کہ آپ حضرات اپنے رب تعالیٰ سے (نعمتیں) مانگو تووہ کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا مانگیں پھران میں سے ایک دوسرے سے کہے گا: چلو ان علماء کی طرف جب ہمیں دنیا میں کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا تب بھی توہم ان کے پاس جایا کرتے تھے؛ پھروہ (ان علماء کے پاس جاکر) کہیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے رب تعالیٰ کی طرف سے ایلچی تشریف لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ مانگنے کا حکم فرماتے ہیں جب کہ ہمیں علم نہیں کہ ہم کیا مانگیں؟ تواللہ تعالیٰ علماء کے سامنے (ان نعمتوں کا) اظہار کردیں گے توعلماء ان عوام اہلِ جنت کوبتائیں گے کہ تم ایسا ایسا سوال کرو؛ چنانچہ (ویسے ہی) سوال کریں گے اور ان کووہ چیزیں عطاء کی جائیں گی۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق ابن عساکر۔ البدورالسافرہ:۲۱۹۱)