انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عمرو نام ونسب عبداللہ نام، ابو جابر کنیت،بنی سلمہ سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، عبداللہ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ بن حرام بن کعب بن غنم بن سلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزید بن حشم بن خزرج۔ قبیلۂ سلمہ میں نہایت ممتاز شخص تھے۔ بعثت نبوی کے تیر ہویں سال ایام حج میں اہل مدینہ کا ایک قافلہ جو تعداد میں ۵۰۰ آدمیوں پر مشتمل تھا، مکہ چلا عبداللہ بھی اس میں شامل تھے اور اوس وخزرج کے وہ افراد جنہوں نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور خفیہ مسلمان تھے وہ بھی ساتھ تھے ،کسی نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کریں گے، آپ ہمارے سردار اورہم میں نہایت معزز آدمی ہیں، بہتر ہے کہ آپ ہمارا ساتھ دیجئے اور قدیم مذہب کو چھوڑ دیجئے ،کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ جیسا ذی رتبہ شخص جہنم کا ایندھن بنے۔ حضرت عبداللہ پر ان باتوں کا خاص اثر پڑا اور صدق دل سے اسلام لانے پر آمادہ ہوگئے۔ اسلام انہی ایام میں بیعت عقبہ ہوئی، حضرت عبداللہ بھی شریک ہوئے اورآنحضرتﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا فخر حاصل کیا، آنحضرتﷺ نے ان کو بنو سلمہ کا نقیب بنایا۔ غزوات غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں کہ ۳ھ میں ہوا تھا، شرف شرکت کے ساتھ شہادت کے لازوال فخر سے بھی بہرہ اندوز ہوئے۔ وفات غزوہ کا وقت آیا تو ایک رات حضرت جابرؓ کو بلایا اورکہابیٹا! میرا دل کہہ رہا ہے کہ اس غزوہ میں سب سے پہلے میں شہید ہوں گا، میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے زیادہ عزیز تم ہو ،تم کو میں گھر پر چھوڑتا ہوں ، اپنی بہنوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور میرے اوپر جو کچھ قرض ہے اس کو ادا کردینا۔ (بخاری:۱/۱۸۰) دن کو معرکہ کار زار گرم ہوا اور حضرت عبداللہ ؓ نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہادت حاصل کی، صحابہ میں سب سے پہلے وہی شہید ہوئے، (بخاری:۱/۱۸۰) اسامہ بن اعور بن عبید (اسد الغابہ:۳/۲۳۳) نے قتل کیا اورپھر مشرکین نے نعش مبارک کا مثلہ کیا۔ لاش کپڑا ڈال کر لائی گئی اورآنحضرتﷺ کے سامنے رکھ دی گئی،حضرت جابرؓ کپڑا ہٹا کر منہ کھولتے اور زار وقطار روتے تھے،خاندانِ سلمہ کے بہت سے آدمی جمع تھے اور جابرؓ کو منع کرتے تھے، آنحضرتﷺ نے یہ دیکھ کر کپڑا ہٹوادیا، بہن نے جو پاس ہی کھڑی تھیں، ایک چیخ ماری پوچھا کس کی آواز ہے،لوگوں نے کہا عبداللہ ؓ کی بہن کی ۔ (بخاری:۱/۱۷۲) دفن کرنے کو لے چلے تو بہن نے جن کا نام فاطمہ تھا رونا شروع کیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا،تم روؤیا نہ روؤ جب تک جنازہ رکھا رہا، فرشتے پروں سے سایہ کئے تھے۔ (مسلم:۲/۲۴۷، بخاری:۱/۱۶۶) قبر میں دو دو آدمی ساتھ دفن کئے گئے ،صحیح بخاری میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ میرے باپ اورچچا کو ایک چادر میں کفن دیا گیا، (بخاری:۱/۱۷۹)لیکن دوسری کتابوں میں عمرو بن جموح کا نام مذکور ہے جو حضرت عبداللہ کے بھائی نہیں ؛بلکہ بہنوئی تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۲۳۲) ۶ مہینہ کے بعد حضرت جابرؓ نے ان کو اس قبر سے نکال کر دوسری قبر میں دفن کیا، کان کے سوا تمام جسم سالم تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی دفن ہوئے ہیں۔ (بخاری:۱/۱۸۰) اس واقعہ کے ۴۶ برس کے بعد ایک سیلاب آیا جس نے قبر کھولدی،لاش بجنسہ باقی تھی، روایت موطا میں مذکور ہے۔ اولاد حضرت جابرؓ کے علاوہ نو لڑکیاں چھوڑیں جن میں ۶ نہایت خورد سال تھیں۔ (بخاری:۱/۱۸۰) قرض قرض بہت زیادہ تھا، صحیح بخاری میں اس کا تذکرہ موجود ہے، حضرت جابرؓ نے ادا کیا اس کی تفصیل ہم حضرت جابرؓ کے حالات میں لکھ آئے ہیں۔ فضائل مکارم ومحاسن کے لحاظ سے حضرت عبداللہ جلیل القدر صحابہؓ میں داخل ہیں ،بنو سلمہ میں اشاعت اسلام کے لئے انہوں نے جو کوسش اور سرگرمی ظاہر کی اور پھر خدا کی راہ میں جس طرح اپنے کو قربان کیا، اس کا اعتراف خود آنحضرتﷺ کو تھا۔ سنن نسائی میں ہے، جزیٰ اللہ الانصار عنا خیر الاسیما آل عمرو بن حرام وسعد بن عبادہ یعنی خدا تمام انصار کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے، خصوصاً عبداللہ اور سعد بن عبادہ ؓ کو ۔ جامع ترمذی میں روایت آئی ہے کہ واقعہ احد کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت جابرؓ کو خستہ حال دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے؟ عرض کیا باپ قتل ہوئے اور بہت سے بچے چھوڑ گئے،انہی کی فکر دامن گیر ہے، فرمایا ایک خوشخبری سنو :خدا کسی سے بے پردہ گفتگو نہیں کر تا؛لیکن تمہارے باپ سے بالمشافہ گفتگوکی اور فرمایا جو مانگو دیاجاے گا،انہوں نے کہا میری یہ تمنا ہے کہ ایک مرتبہ دنیا میں جاکر پھر شہید ہوں،ارشاد ہوا کہ یہ کہاں ہوسکتا ہے؟ جو دنیا سے آتا ہے وہ واپس نہیں جاسکتا، عرض کیا تو میری نسبت کچھ وحی بھیج دیجئے اس وقت آنحضرتﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (ال عمران:۱۶۹) جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا؛ بلکہ وہ زندہ ہیں انہیں اپنے رب کے پاس سے رزق ملتا ہے۔ حضرت عبدؓ اللہ کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چیزقابل فخر ہوسکتی ہے کہ ان کی وفات کو۱۳۰۰ سال کی مدت گذرچکی، تاہم ان کا نام آج بھی زندہ ہے اور تا ابد زندہ رہیگا ۔ کشتگانِ خنجر تسلیم را ہر زما ں ازغیب جانے دیگر ست