انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت امام احمدؒ کا نظریۂ حدیث حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کواپنے لیئے حجت اور سند سمجھتے تھے، آپؒ کا عقیدہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، اُمت پر اُن کی پیروی لازم ہے، صحابی کی بات کوحجۃ تسلیم کرنے میں آپؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہیں، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں: "(قال ابوعمرو) جعل للصحابۃ فی ذلک مالم یجعل لغیرہم واظنہ مال الی ظاہر حدیث اصحابی کالنجوم واللہ اعلم والی نحو ھذا کان احمد بن حنبل یذھب"۔ (جامع بیان العلم:۲/۱۴۵) ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ کے لیئے وہ درجہ مانا ہے جو دوسرے راوویوں کے لیئے نہیں، آپ حدیث "اصحابی کالنجوم" کے ظاہر کی طرف مائل ہیں، امام احمد کی بھی یہی رائے تھی۔ اِسی اُصول پر آپؒ کا موقف یہ تھا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ کیونکہ حضورﷺ کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؒ پوری صراحت سے فرماچکے ہیں کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام کے پیچھے، آپ ہی سوچیں کہ صحابی کا اِس قدر صریح فیصلہ، کیا نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟۔ حضرت امام ابوحنیفہ کی طرح حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ حدیثِ ضعیف کواپنے قیاس اور اجتہاد پر مقدم کرنا چاہیے، ضعیف حدیث کو کلیۃً نظرانداز کردینا قطعاً صحیح نہیں، جب کسی موضوع پر صحیح حدیث نہ ملے تووہاں ضعیف حدیث کو ہی لے لینا چاہئے، حضرت امام اعظمؒ اور حضرت امام احمدؒ کا مسلک اس باب میں ایک ہے، حافظ ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں: "فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابة على القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد"۔ (اعلام الموقعین عن رب العالمین، كلام التابعين في الرأي:۷/۵) ترجمہ:سوضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوقیاس اور رائے پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہی قول امام احمد کا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی سے جوفقہ مرتب ہوئی اللہ تعالیٰ اسے بڑی قبولیت سے نوازتے رہے ہیں، تاریخ اسلامی میں حکومتی سطح پر زیادہ تردوہی فقہ نافذ العمل رہی ہیں، فقہ حنفی اور فقہ حنبلی، دورِ اوّل میں قاضی القضاۃ حضرت امام ابویوسفؒ تھے، اِس دَور میں سعودی عرب کواللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ انہوں نے اللہ کی حدود قائم کیں اور فقہ حنبلی کے مطابق فیصلے کیئے، جن حضرات کا ہم نے یہاں تذکرہ کیا ہے، وہ سب ائمہ حدیث تھے، ائمہ حدیث میں صرف وہی حضرات شامل نہیں ہوتے جوکہ صرف روایات کواسانید اور مختلف طرق سے بیان کرسکیں؛ بلکہ وہ بھی ائمہ حدیث ہوتے ہیں جوحدیث کی کسی بھی نوع کی خدمت کریں؛ خواہ اسناد بیان کریں؛ خواہ مسائل کا استنباط کریں اور علماء کا اِس پر اجماع ہے، صاحب کنزالعمال لکھتے ہیں: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوکوئی مسئلہ پیش آتا تواہل الرائے اور اہل الفقہ کومشورہ کے لیئے بلاتے، مہاجرینؓ وانصارؓ میں سے اہلِ علم کوبلاتے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کوبلاتے،یہی لوگ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں فتوےٰ دیا کرتے تھے،پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے وہ بھی انہی حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتویٰ کا مدار انہی حضرات پر تھا۔ (کنز العمال:۳/۱۳۴) اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ علماء حدیث سب صحابہ کرام تھے،مگر اہل الرائے اور اہل الفقہ صرف فقہاء صحابہؓ ہی تھے،فقہ حدیث سے جدا کوئی چیز نہ تھی،یہ حدیث کی ہی تفسیر ہوتی تھی،اسے محض رائے سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہے،سو ید بن نصرؒ جو کہ امام ترمذیؒ اورامام نسائیؒ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: "لاتقولو ارای ابو حنیفۃ ولکن قولوا تفسیر الحدیث"۔ (کتاب المناقب للموفق:۲/۵۱) ترجمہ:یہ نہ کہا کرو ابو حنیفہ کی رائے بلکہ کہو یہ حدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔ فقہ حدیث سے الگ کوئی چیز نہیں فقہ کے خلاف ذہن بنانا خود حدیث سے بدگمان کرنا ہے، لفظ رای یہ فقہی استنباط کا ہی دوسرانام ہے،اجتہاد رائے سے ہی تو ہوتا ہے،حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا: "فَاخْتَرْ أَىَّ الأَمْرَيْنِ شِئْتَ : إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ"۔ (سنن الدارمی،باب الفتیاوما فیہ من الشدۃ،حدیث نمبر:۱۶۹) ترجمہ ان دوکاموں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے چاہے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرلینا۔ حضرت زید بن ثابت نے اس کے ساتھ دوسرے مجتہدین سے معلوم کرلینے کی بھی تعلیم دی ہے۔ "فَادْعُ أَهْلَ الرَّأْىِ ثُمَّ اجْتَهِدْ وَاخْتَرْ لِنَفْسِكَ وَلاَحَرَجَ"۔ (سنن دارمی:۱/۶۰۔سنن کبری بیہقی:۱۰/۱۱۵) دوسرے اہل الرائے سے بھی پوچھ لینا پھر اجتہاد کرنا اوراپنا موقف اختیار کرنا اوراس میں کوئی حرج نہیں۔ صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ (مستدرک حاکم:۴/۳۴۰) حضرت عمرؓ (میزان کبریٰ للشعرانی:۱/۴۹) حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ (شرح فقہ اکبر:۷۹)حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابوالدردا، حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ عباس (سنن دارمی:۱/۵۹۔ مستدرک:۱/۱۲۷۔ سنن بیہقی:۱۰/۱۱۵) اور مغیرہ بن شعبہ(مستدرک حاکم:۳/۴۴۷) سب اہل الرائے تھے۔