انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فرقہ راوندیہ فرقہ راوندیہ کوشیعوں کے فرقوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ درحقیقت ایران وخراسان کے جاہل لوگوں کا ایک گروہ تھا، جوعلاقہ راوند میں رہتا اور اُن لوگوں میں سے نکلا تھا، جن کوابومسلم خراسانی نے اپنے ساتھ شامل کیا تھا، ابومسلم نے جوجماعت تیار کی تھی، اس کومذہب سے کوئی تعلق نہ تھا؛ بلکہ جس طرح ممکن ہوتا تھا ان کوسیاسی اغراض کے لیے آمادہ ومستعد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، یہ گروہ جس کوراوندیہ کہا جاتا ہے، تناسخ اور حلول کا قائل تھا، ان کا عقیدہ تھا کہ خدائے تعالیٰ نے منصور میں حلول کیا ہے؛ چنانچہ یہ لوگ خلیفہ منصور کوخدا سمجھ کر اس کی زیارت کرتے تھے اور منصور کے درشن کرنے کوعبادت جانتے تھے، ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ آدم کی روح نے عثمان بن نہیک میں اور جبرئیل نے ہیثم بن معاویہ میں حلول کیا ہے، یہ لوگ دارالخلافہ میں آکر اپنے اعمال وعقائد ناشدنی کا اعلان کرنے لگے تومنصور نے ان میں سے دوسوآدمیوں کوپکڑ کرقید کردیا، ان کی پانچ چھ سو کی تعداد اور موجود تھی ان کواپنے ہم عقیدہ لوگوں کی اس گرفتار سے اشتعال پیدا ہوا اور قید خانہ پرحملہ کرکے اپنے بھائیوں کوقید سے چھڑالیا اور پھرمنصور کے محل کا محاصرہ کرلیا، تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ منصور کوخدا کہتے تھے اور پھراس خدا کی مرضی کے خلاف آمادۂ جنگ تھے، اس موقع پریہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید بن ہبیرہ کے ساتھیوں میں معن بن زائدہ بھی تھا اور جب ابن ہبیرہ کی لڑائیاں عباسیوں سے ہوئی ہیں تومعن بن زائدہ ابن ہبیرہ نامور قبرداروں میں سے ایک تھا، معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے بعد دارالخلافہ ہاشمیہ میں آکرروپوش تھا اور منصور اس کی تلاش وجستجو میں تھا کہ معن بن زائدہ کوگرفتار کراکرقتل کرے، ان بدمذہب راوندیوں نے جب منصور کے محل کا محاصرہ کیا تومنصور پیادہ پا اپنے محل سے نکل آیا اور بلوائیوں کومارنے اور ہٹانے لگا، منصور کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اور حقیقت یہ تھی کہ اس وقت دارالخلافہ میں کوئی جمعیت اور طاقت ایسی موجود نہ تھی کہ ان بلوائیوں کی طاقت کا مقابلہ کرسکتی، منصور کے لیے یہ وقت نہایت ہی نازک تھا اور قریب تھا کہ دارالخلافہ اس کے ساتھ ہی خلافت اور اپنی جان منصور کے ہاتھ سے جائے اور راوندیوں کا قبضہ ہوجائے، اس خطرناک حالت سے فائدہ اُٹھانے میں معن بن زائدہ نے کوتاہی نہیں کی وہ فوراً منصور کے پاس پہنچ گیا اور جاتے ہی بلوائیوں کومارنے اور ہٹانے میں مصروف ہوگیا، اتنے میں اور لوگ بھی آآکرمنصور کے گرد جمع ہونے لگے؛ لیکن معن بن زائدہ کے حملے بہت ہی زبردست اور کارگرثابت ہورہے تھے اور منصور اپنی آنکھ سے اس اجنبی شخص کی حیرت انگیز بہادری دیکھ رہا تھا، آخر معن بن زائدہ نے اس لڑائی میں سپہ سالاری کے فرائض خود بخود ادا کرنے شروع کردیئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سخت وشدید زور آزمائی ومعرکہ آرائی کے بعد ان بلوائیوں کوشکست ہوئی، شہر کے آدمی بھی سب اُٹھ کھڑے ہوئے، تمام بلوائیوں کوقتل کرکے رکھ دیا، اس ہنگامے کے فرو ہونے کے بعد منصور نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے؟ جس نے اپنی پامردی وبہادری کے ذریعہ اس فتنہ کوفرو کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے، تب اس کومعلوم ہوا کہ یہ معن بن زائدہ ہے، منصور نے اس کوامان دی اور اس کے سابقہ جرموں کومعاف کرکے اس کی عمت ومرتبہ کوبڑھایا۔ ابوداؤد خالد بن ابراہیم ذہلی بلخ کا عامل اور آج کل خراسان کا گورنرتھا اسی عرصہ یعنی سنہ۱۴۰ھ میں اس کے لشکر میں بغاوت پھوٹی اور اہلِ لشکر نے اس کے مکان کا محاصرہ کرلیا، ابوداؤد مکان کی چھت پر ان باغیوں کے دیکھنے کے لیے چڑھا، اتفاق سے پاؤں پھسل کرگرپڑا اور اسی دن مرگیا، اس کے بعد اس کے سپہ سالار حصام نے اس بغاوت کوفروکیا اور خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے کرمنصور کواطلاع دی، منصور نے عبدالجبار بن عبدالرحمن کوگورنرخراسان بناکر بھیجا۔