انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** واقعہ افک غزوہ بنو مصطلق سے واپسی کے وقت منافقین نے ایک اہم فتنہ سر کھڑا کردیا جس کی وجہ سے رسول اﷲﷺ کو سخت اذیت ہوئی ،یہ واقعہ افک کہلاتا ہے، افک کے معنی ہیں جھوٹ بنانا، ، کذب و بہتان ، دروغ کامل، کسی چیز کو الٹ دینااور اس کی جہت پھیر دینا، واقعہ صرف اتنا تھا کہ اس غزوہ میں حضرت عائشہؓ بھی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علحٰدہ تھا، جب کسی منزل پر اترتے تو حمال ان کا ہَودہ جس پر پردے تنے ہوئے تھے اتار کر نیچے رکھ دیتے اور جب کوچ ہوتا تو اسے اٹھا کر اونٹ پر کس دیتے ، حضرت عائشہ ؓ ہودہ کے اندر ہی رہتیں،مریسیع سے واپسی میں ایک منزل پر قیام ہوا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہؓ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئیں، وہاں اتفاقاً ان کے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا اور انہیں اسے تلاش کرنے میں دیر لگ گئی، اِدھر لشکر کی روانگی کا حکم ہوا حمالوں نے حسب معمول حضرت عائشہ ؓ کے ہَود ج کو اونٹ پر کس دیا اور قافلہ روانہ ہو گیا، حضرت عائشہ ہلکی پھلکی تھیں اس لئے حمالوں کو یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ ہودج میں نہیں ہیں، ادھر حضرت عائشہ صدیقہ جب پڑاؤ پر واپس آئیں تو وہاں میدان صاف تھا ، لشکر کوچ کر چکا تھا ، سخت حیران اور پریشان ہوئیں ، آخر یہ سوچ کر کہ مجھے کوئی نہ کوئی لینے آئے گا بڑی ہمت و استقلال کے ساتھ وہیں منہ لپیٹ کر لیٹ گئیں، ایک صحابی حضرت صفوان ؓ بن معطل سلمی گر ے پڑے کی خبر گیری کے لئے قافلہ کے پیچھے چلا کرتے تھے، تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے گزرے ، صبح کے دھندلکے میں انھوں نے دیکھا کہ کوئی پڑا سو رہا ہے ، قریب آئے تو پہچان لیا کہ حضرت عائشہؓ ہیں کیونکہ انھوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی انھیں دیکھا تھا، حیران رہ گئے اور بلند آوازسے ، "اِ نَّا للّٰہ و اِنَّا ا ِلیہ راجِعون" کہا ان کی آواز سن کر حضرت عائشہ ؓ کی آنکھ کھل گئی، انھوں نے فوراً چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا ، حضرت صفوان ؓ نے اپنا اونٹ ان کے پاس لا کر بٹھا دیا اور خود ایک طرف ہو گئے، حضرت عائشہ ؓ اسی طرح چادر میں لپٹی ہوئی سوار ہو گئیں ، اب حضرت صفوان ؓ نے اونٹ کی لگام تھام کر تیزی کے ساتھ اسے دوڑایا اور دوپہر تک اپنی منزل پر لشکر سے جا ملے ، سردار منافقین عبداللہ بن اُبی کو ایک موقع اپنی بد باطنی کے اظہار کا ہاتھ لگااور وہ اپنی مجلس میں حضرت عائشہ ؓ پر کیچڑ اچھالنے لگا، مدینہ منورہ پہنچ کر بھی اُس نے اُن خرافات کا سلسلہ جاری رکھا ، کچھ کچّے کانو ں کے مسلمان بھی اس کی باتوں میں آگئے اور ان کے دل میں بھی کھٹک پیدا ہو گئی، آنحضرت ﷺکے کانوں تک بھی یہ افواہیں پہنچیں ، آپﷺ سخت مضطرب اور دلگیر ہوئے مگر ضبط و صبر سے کام لیااور خاموش رہے، ایک ماہ بعد حضرت عائشہ ؓ کوبھی ان اتہامات کی خبر ہوئی ، دل تھام کر رہ گئیں اور روتے روتے آنکھیں سوج گئیں، آخر بیمار پڑ گئیں اور اجازت لے کر اپنے والدین کے ہاں آگئیں، ماں باپ نے ان کی بہت تسلّی و تشفی کی مگر حضرت عائشہ ؓکے آنسو نہ تھمتے تھے، آخر وہ اس غم میں سوکھ کر کانٹا ہو گئیں اور چار پائی سے لگ گئیں، آنحضرت ﷺسے زیادہ ان کی حرم محترم کی عفت و عصمت سے کون واقف ہو سکتا تھا مگر چونکہ یہ حضورﷺکا اپنے گھر کا معاملہ تھا اس لئے اپنی صفائی خود پیش کرنی مناسب نہ سمجھی اور وحیِ الٰہی کے منتظر رہے،آخر جب حضرت عائشہؓ کے صبر و ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا اور رحمتِ خداوندی کا دریا جوش میں آیا، ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت ابو بکرؓ کے مکان پر حضرت عائشہؓ کی عیادت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے کہ چہرہ مبارک پر وحی کے آثار نمودار ہوئے اور سورۂ نور کی یہ آیات اتریں جن سے منافقین کے کذب و افترا کے پردے چاک ہوگئے، فرمایا گیا: " جو لوگ یہ بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے تم اس کے لئے برا نہ سمجھوبلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے، ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے" (سورۂ نور : ۱۱ ) " اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے " (سورۂ نور : ۱۲) اس کے بعد بڑے زور و شور کے ساتھ ان مسلمانوں کو جو منافقین کے پروپگنڈے سے متاثر ہوگئے تھے تنبیہ کی گئی کہ ان کو خانوادٔہ نبوت کے متعلق ایسی لغو یات زبان سے نکالنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ منافقین کی زبان سے ایسی بیہودہ بات سنتے ہی انہیں کہدینا چاہئیے تھا کہ ہم ان لغویات سے زبان کو گندہ نہیں کرسکتے ،یہ بہتان عظیم ہے ، مسلمانوں کو اگر ان کے دل میں ایمان ہے تو آئندہ ایسی لغویات سے پوری احتیاط کرنی چاہئیے ، جو لوگ ایسی شرمناک باتوں کا چرچا کرتے ہیں وہ درد ناک عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچ نہیں سکتے اور اگر اللہ تعالیٰ فضل و رحمت اور مہربانی و شفقت سے کام نہ لیتا تو خدا جانے کیسا عذاب نازل ہوجاتا، ایک اور روایت کے مطابق جب حضرت عائشہؓ اپنے والد محترم حضرت ابو بکر ؓ کے مکان تشریف لے گئیں تو روتے روتے بیہوش ہو گئیں ، پھر لرزہ کا بخار چڑھا ، رات دن رونے دھونے میں گزرنے لگے، اسی کرب و اضطراب میں ایک مہینہ گزر گیا کہ ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لائے اور حضرت عائشہ ؓ کا حال دریافت کیا ، ان کی والدہ نے بتایا کہ جاڑا بخار آرہا ہے ، آپﷺ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کو واقعہ کا علم ہو گیا ہے ، پھر حمد و ثنا ء کے بعد فرمایا : ائے عائشہ ! تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے ، اگر تم بری ہو تو اللہ تعالیٰ عنقریب تم کو بری فرمائے گا ، اگر تم نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کرو ، بندہ جب گناہ کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے تو وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر میرے آنسویکایک خشک ہو گئے ، میں نے اپنے باپ کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپؓ جواب دیں لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کی، ماں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا جواب دوں ، اب میں نے ہمت کر کے خود ہی زبان کھولی اور کہا ، جو کچھ آپﷺ نے سنا ہے وہ آپﷺ کے دل میں اتر گیا ہے، میں اپنے آپ کو بے گناہ کہوں تو کسی کو یقین نہ آئے گا اور اقبال کروں ، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ میں پاک دامن ہوں تو سب کو یقین آجائے گا ،اس لئے وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا: " بس صبر اچھا ہے اورجو حال تم بیان کرتے ہو اللہ ہی مدد کرے" (سورہ ٔیوسف، ۱۸) یہ کہنے کے بعد حضرت عائشہؓ رخ پلٹ کر بستر پر لیٹ گئیں ، اسی اثناء میں حضور اکرم ﷺ پروحی نازل ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عائشہؓ سنو: اللہ تعالیٰ نے تم کو اس تہمت سے بری فرما دیا، تمہارے پاک ہونے کی گواہی دی اورتمہاری شان میں وحی نازل ہوئی ، حضرت عائشہؓ کی والدہ نے کہا : عائشہ اٹھو اور کھڑی ہو کر شکریہ ادا کرو ، حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا ، اللہ کی قسم ! میں کسی کی طرف اٹھ کر نہ جاؤں گی اور نہ اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا کروں گی ، حضرت عائشہؓ کو یہ امید نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ان کی عفت کی تصدیق کرے گا اورقیامت تک اہل ایمان اس کی تلاوت کریں گے، اس موقع پر سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں ، آیت نمبر ۲۶ میں فرمایا گیا : " ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں ، ناپاک مرد ناپاک عورتیں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیئے ہیں اورپاک مرد پاک عورتوں کے لئے ، یہ ( پاک لوگ ) ان ( بد گوئیوں) کی باتوں سے بری ہیں اور ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے " ( سورہ ٔ نور:۲۶) تہمت لگانے والوں کو یعنی مسطح بن اثاثہ ، حسانؓ بن ثابت ، حمنہ بنت جحش ؓ کو اسّی اسّی کوڑوں کی سزا دی گئی لیکن راس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو سزا نہیں دی گئی حالانکہ تہمت لگانے والوں میں وہی سرفہرست تھا ، اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پر حدود قائم کردی جاتی ہیں وہ ان کے لئے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور عبداﷲ بن اُبی کو اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرمایاتھا یا پھر وہی مصلحت کارفرماتھی جس کی وجہ سے اسے قتل نہیں کیاگیا۔ (صحیح بخاری - ابن ہشام) مولانا عبدالحق دہلوی نے " مدارج النبوت" میں لکھا ہے کہ اُس کو بھی سزا دی گئی تھی ، افسوس کہ شاعر دربارِ رسول حضرت حسّان ؓ بن ثابت بھی اس فتنہ میں مبتلاء ہو گئے ؛چنانچہ وہ بھی سزا یاب ہو گئے مگر بعد میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی مدح میں ایک قصیدہ کہہ کر اپنا دل صاف کر لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی ان کو معاف کر دیا،ان کے قصیدہ کا ایک شعر ہے: " وہ ایسی خاتون ہیں جو عقل و ثبات کی مالک ہیں، شک و شبہ سے ان کو متہم نہیں کیا جا سکتا، وہ عیب سے بالکل محفوظ ہیں" حضرت عائشہ ؓ نے اس شعر کو سن کر فرمایا؛ لیکن ائے حسّان تم تو ایسے نہیں ، تم نے تو غیبت کی اور ایسی کی کہ اس جیسی نہیں ہو سکتی ، حضرت حسانؓ کو اپنی لغزش پر بے حد افسوس رہا ،پہلے حضرت حسان ؓ نے حضرت صفوانؓ بن معطل کی ہجو میں شعر کہے ، انہیں سن کر وہ تلوار لے کر پہنچے اور کہا مجھے شعر کہنا نہیں آتا البتہ تلوار کے وار سے بدلہ لے سکتا ہوں ، لوگ صفوان ؓ کو پکڑ کر حضور ﷺ کی خدمت میں لائے، آپﷺ نے حضرت حسان ؓ کو طلب کر کے فرمایا : تم نے انہیں برا فروختہ کر دیا ، اب نیکی کرو اور معاف کر دو ، اس کے بدلے حضور ﷺ نے انہیں جاگیر اور ایک قبطی کنیز شیریں نامی عطا فرمائی۔ قرآنِ مجید نے اس موقع پر بہت زور بیان سے کام لیا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہؓ کی عصمت و عفت ہی کا نہ تھا بلکہ اس خیرالبشر کی عزت و حرمت کا تھا جو ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق بن کر آیا تھا اور جس نے کل جہاں کو نیک عملی اور پاک بازی کے آداب سکھائے تھے۔ فتنہ افک میں مبتلا ہونے والوں میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی تھے جو حضرت ابو بکرؓ کی خالہ زاد بہن کے یتیم لڑکے تھے اور حضرت ابو بکرؓ کی کفالت میں تھے ، ان کی امداد سے زندگی گذارتے تھے، اس واقعہ کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے ان کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا اور قسم کھالی کہ مسطح کی مدد نہ کریں گے ، اس پر سورۂ نور کی ۲۲ ویں آیت نازل ہوئی: " اور جو لوگ تم میں ( دینی)فضیلت والے او ر ( دنیوی) وسعت والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں پر کچھ خرچ نہیں کریں گے؛ بلکہ(چاہیے کہ)ان کا قصور بخش دیں اور در گزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تم کو بخش دے اور اللہ بخشنے والا(اور )مہربان ہے" ( سورۂ نور: ۲۲) اس آیت کے نازل ہونے کے بعدحضرت ابو بکر ؓنے فوراً اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اورحضرت مسطح کو پہلے سے دوگنی امدادجاری کر دی، یہ آیت حضرت ابو بکرؓ کی منقبت میں ہے ، اس میں ان کو " بڑے درجہ والا" قرار دیا گیا،قرآن مجید نے واقعہ افک کو بہتان عظیم قرار دیا ہے اس لئے اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت نہیں ؛البتہ اس واقعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محض جھوٹ اور بیہودہ خبر بھی کس طرح پھیل جاتی ہے،یہ خبر در اصل منافقین نے مشہور کی تھی؛ لیکن بعض مسلمان بھی دھوکے میں آگئے جن کو تہمت لگانے کی سزا دی گئی، صحیح مسلم میں اس کا ذکر موجود ہے۔