انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصعب اور مختار کا مقابلہ اور مختار کا قتل اس درخواست پر مصعب نے اپنے مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صغرہ کو جو خارجیوں کے مقابلہ میں بر سرپیکار تھا بلا کر مختار سے مقابلہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں، مختار کو اس کا علم ہوا تو اس نے احمد بن سلیط کو ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لئے مذار روانہ کیا، مصعب بھی اپنی فوجیں لئے ہوئے بڑھے،مذار میں دونوں کا مقابلہ ہوا، مختار کی فوج شکست کھا کر کوفہ کی طرف بھاگ نکلی مصعب نے ہر طرف سے گھیر کر قتل کرنا شروع کیا اور تعاقب کرتے ہوئےکوفہ تک پہنچ گئے، اس وقت مختار اپنی فوج لیکر خود آگے بڑھا، نہر بصرین کے پاس دونوں میں مقابلہ ہوا، اس معرکہ میں بھی مختار کو شکست ہوئی اوراس کے بیشمار آدمی مارے گئے اورمختار شکست کھاکر کوفہ میں داخل ہوگیا، مصعب بھی تعاقب میں پہلے گئے، مختار دارالامارۃ میں قلعہ بند ہوگیا، مصعب نے دار الامارہ کو گھیر لیا، اور چالیس دن تک نہایت سختی کے ساتھ محاصرہ قائم رہا مسلسل دو شکستوں سے مختار کی قوت بہت کمزور پڑچکی تھی اس لئے وہ محاصرہ کی تاب نہ لاسکا جب اس کے سامنے ہلاکت کے سوا مفر کی صورت باقی نہ رہی اس وقت اس نے حمایت اہل بیت کی نقاب الٹ دی اوراپنے اصل رنگ میں نمایاں ہوگیا اوراپنے مقرب خاص سائب بن مالک اشعری سے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ساتھ نکلو، اوردین کے لئے نہیں ؛بلکہ حسب کے لئے آخری مقابلہ ہوجائے سائب نے یہ غیر متوقع کلمات سن کر انا للہ پڑھا، اورپوچھا ابو اسحق !ہم لوگ اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ تم مذہب کے لئے جانبازی دکھا رہے ہو، مختار نے نہایت صفائی کہ ساتھ جواب دیا، نہیں اپنی عمر کی قسم ہر گز نہیں، یہ تمام لڑائیاں صرف دنیا طلبی کے لئے تھیں میں نے دیکھا کہ شام پر عبدالملک کا قبضہ ہے، حجاز پر عبداللہ بن زبیرؓ قابض ہیں، بصرہ مصعب کے ہاتھوں میں ہے، عروض پر نجدہ خروری کا تسلط ہے، خراسان عبداللہ بن خازم کے زیر فرمان ہے اور میرے حصہ میں کچھ بھی نہیں اس لئے مجھ میں بھی قسمت آزمائی کا جذبہ پیدا ہوا، لیکن حسینؓ کے خون کے انتقام کی دعوت کے بغیر مجھ کو کامیابی نہیں ہوسکتی تھی ،اس لئے اس کو آڑ بنایا۔ اس تقریر کے بعد گھوڑا تیار کرایا، ذرہ منگائی اوراپنے خاص حفاظتی دستہ کو لیکر آخری مقابلہ کے لئے نکلا اوربڑی بہادری کے ساتھ لڑتا رہا ،لیکن اس کی قوت کمزور پڑچکی تھی، ساتھیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے عین میدان جنگ میں ساتھ چھوڑ دیا اورمختار کو مجبور ہوکر پھر قصرامارۃ کی جانب پسپا ہوجانا پڑا، اس پسپائی میں اس کے چھ ہزار آدمی قصر میں داخل ہوگئے مگر وہ خود تین سو سواروں کی قلیل جماعت کے ساتھ قصر کے باہر ہی رہ گیا ،مصعب کے ساتھیوں نے اس کا راستہ روک دیا، لیکن اس وقت بھی مختار قصر کی دیوار کی آڑ لیکر مقابلہ کرتا رہا اس مقابلہ میں بنی حنفیہ کے دو آدمیوں نے تلواروں سے زخمی کرکے گرادیا اور سر قلم کرکے مصعب کے سامنے پیش کیا گیا،مصعب نے اس صلہ میں تیس ہزار انعام دیا اورمختاری فتنہ کا خاتمہ ہوگیا۔