انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابن ابی ذئبؒ نام ونسب ابو حارث کنیت اورنام محمد تھا (تاریخ بغداد:۲/۲۹۷) نسب کے اعتبار سے خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے تھے (تاریخ ابن خلکان:۲/۲۲۷) اسی بنا پر قریشی اورمدنی کہلاتے ہیں، ان کا نام اگرچہ محمد تھا،لیکن جدِ امجد کی نسبت سے ابن ابی ذئب کے نام سے مشہور ہوئے۔ ولادت اورنشو ونما محرم ۸۰ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اس سال مکہ میں بہت ہی ہولناک سیلاب آیا تھا،جن میں بڑی تعداد میں انسان وحیوان غرق آب ہوگئے،بیان کیا جاتا ہے کہ پانی کی سطح اس حد تک بلند ہوگئی تھی کہ کعبہ مقدسہ کے ڈوب جانے کا خطرہ ہوگیا تھا؛چونکہ یہ سیلاب ہرچیز کو بہالے گیا تھا،اس لئے اسے سیلِ حجاف کہتے ہیں اوراس سال کا نام عام حجاف پڑگیا۔ (البدایہ والنہایہ لابن کثیر :۹/۳۱) ابن ابی ذئب نے زندگی کی بیشتر بہاریں اپنے مولد مدینہ طیبہ ہی میں گزاریں،خوش قسمتی سے انہوں نے وہ مبارک زمانہ پایا جب تابعین عظام کی مسندِ علم وفضل آراستہ تھی اوران کے انوار کمال سے ایک عالم منور تھا،ابن ابی ذئب کو ایسے جلیل المرتبت تابعین سے اکتساب فیض کی سعادت حاصل ہوئی جن کی نظیر زمرۂ اتباعِ تابعین میں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ حدیث انہوں نے بکثرت علماء سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی جن میں عکرمہ،نافع،عبداللہ ابن سائب ابن یزید،عجلان،صالح،سعید المقبری،اسحاق بن یزید،جبیر بن ابی صالح عبدالرحمن ابن عطا محمد بن المکندر،شعبہ،محمد بن قیس وغیر ہم داخل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۴،تاریخ بغداد:۲/۲۹۶،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۲) ابن ابی ذئب کو امام مالک کی ہم درسی کا شرف بھی حاصل تھا،ابنِ خلکان رقمطراز ہیں کہ:کانت بینھما الفۃ کبیدۃ ومودۃ صحیحۃ۔(ابن خلکان :۲/۲۲۷)ان دونوں (امام مالک اور ابن ابی ذئب) میں غایت درجہ مودت وانسیت تھی۔ فقہ حدیثِ رسولﷺ میں امتیاز کے ساتھ انہیں فقہ میں بھی خصوصی درک حاصل تھا،مدینہ اور کوفہ میں عرصہ تک افتاء کی خدمات بھی انجام دیتے رہے، بغدادی نے ان کے ورع وصلاح کے ساتھ،ان کے تفقہ کا بھی اعتراف کیاہے اور تصریح کی ہے کہ وہ اپنے شہر میں مفتی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے (تاریخ بغداد:۲/۳۰۵) مصعب الزبیری اورابنِ حبان اُنہیں مدینہ کے فقہاء اورعبادت گزاروں میں شمار کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۲/۲۰۶) تلامذہ درس وتحدیث کے لئے مدینہ سے باہر شاذ ونادر ہی گئے خطیب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار ایام حج میں خلیفہ مہدی جب مدینہ گیا تو وہاں ابن ابی ذئب کے علم و فضل سے اتنا متاثر ہوا کہ انہیں اپنے ہمراہ بغداد لیتا آیا،جہاں انہوں نے کچھ عرصہ تک حدیث کا در س دیا(تاریخ بغداد:۲/۲۹۶) لیکن سفر سے اجتناب کے باوجود ان کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ان سے شرفِ تلمذ رکھنے والوں میں حسبِ ذیل آئمہ وفضلاء خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں،سفیان ثوری،معمر،سعد بن ابراہیم،ولید بن مسلم،عبداللہ بن مبارک ،حجاج بن محمد،شبابہ بن سوار، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک،یحییٰ بن سعید القطان،محمد بن ابراہیم بن دینار،محمد بن عمرالواقدی،عبداللہ بن وہب،معن بن عیسیٰ،اسحاق بن محمد الفردی،آدم بن ابی ایاس،ابو عاصم،ابو نعیم (تہذیب التہذیب:۹/۳۴) فضل وکمال علمی اعتبار سے ابن ابی ذئب بلند اتباعِ تابعین میں تھے،انہوں نے کثیر التعداد تابعین سے استفادہ کیا تھا، اس لئے حدیث وفقہ میں کامل الفن بن کر نکلے،امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ کیا اپنے ملک میں ابن ابی ذئب علم وفضل کے اعتبار سے کوئی ہمسر رکھتے تھے، فرمایا نہ صرف اپنے ملک میں ؛بلکہ دیگر ممالک میں بھی ان کی نظیر مفقود تھی(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۲)امام شافعیؒ بایں ہمہ جلالتِ شان اکثر بڑی حسرت کےساتھ فرمایا کرتے تھے: مافاتنی احد فاسفت علیہ ما اسفت علی اللیث وابن ابی ذئب (تاریخ بغداد:۲/۳۰۱) مجھے کسی اورامام سے مستفید نہ ہونے کا اتنا افسوس نہیں جتنا اس بات کا رنج اورافسوس ہے کہ مجھے لیث بن سعد اورابن ابی ذئب سے کسب فیض کی سعادت نصیب نہ ہوسکی۔ حافظ ابن حجر نے امام احمد کا یہ قول بروایت ابی داؤد نقل کیا ہے کہ ابن ابی ذئب اپنے علم وفضل میں شہرہ آفاق تابعی سعید بن المسیب سے مشابہ تھے۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۴) بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار امام مالک خلیفہ منصور کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا "مدینہ میں اس وقت کون کون اساتذہ علم وفن ہیں" فرمایا "امیر المومنین!وہاں ابن ابی ذئب ،ابن ابی سلمہ اورابن ابی سبرہ جیسے یکتا ئے روزگار شیوخ ہیں (وفیات الاعیان :۲/۲۲۷)امام احمد انہیں علم وفضل کے اعتبار سے امام مالک سے افضل قرار دیتے تھے،سوائے اس کے کہ امام مالک رجال کی تحقیق میں نسبتاً زیادہ سخت تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۲) قوتِ حافظہ جمیع اتباع تابعین کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے سے ایک چیز ان میں قدر مشترک کے طورپر نظرآتی ہے وہ ان کی غیر معمولی قوتِ حافظہ ہے،اس کا سبب دراصل طہارتِ اخلاق اور کبائر ومعاصی سے کلی اجتناب ہے،امامِ وکیع اپنے تلامذہ کو برابر اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے کہ اگر قوتِ حافظہ بڑھانا ہو تو معاصی سے پرہیز کرو اورظاہر ہے کہ اتباعِ تابعین سے زیادہ پاک وصاف زندگی کس کی ہوسکتی ہے،اس لئے ان کے دوسرے مناقب کے ساتھ ذہانت وفطانت اور حفظ وضبط بھی ان کے صحیفہ کمال کے درخشاں ابواب ہیں۔ چنانچہ ابن ابی ذئب کو بھی مبداء فیض سے ذہانت وفطانت کا وافر حصہ نصیب ہوا تھا؛بلاشبہ ان کے علم وفضل میں مشاہیر شیوخ کے فیضِ صحبت کے ساتھ ان کی طبعی ذہانت اورفطری استعداد کو بھی بڑا دخل تھا،خود ان کے بھائی کا بیان ہے کہ ان کے پاس کتاب نہیں تھی وہ حدیث یاد کرلیا کرتے تھے (شذرات الذہب:۱/۳۴۵)واقدی نے بھی یہی لکھا ہے کہ: وکان یحفظ حدیثہ لم یکن لہ کتاب ولا شئی ینظرفیہ (تاریخ بغداد:۲/۳۰۳) وہ اس طرح حدیث یاد کرتے تھے کہ نہ تو ان کے پاس کوئی کتاب ہوتی اورنہ کوئی اورہی چیز جس میں دیکھ سکیں۔ ثقاہت وعدالت ابن ابی ذئب کی ثقاہت وعدالت پر ائمہ اورماہرین فن متفق ہیں، ابن حبان نے کتاب الثقات میں نمایاں طور پر ان کا ذکر کیا ہے، علامہ ذہبی لکھتے ہیں: احد الاعلام الثقات متفق علیٰ عدالتہ (میزان الاعتدال:۱/۹۰) وہ ثقۃ کبار ائمہ میں سے تھے، ان کی عدالت پر اتفاق ہے۔ امام نسائی،یعقوب بن شیبہ اورامام احمد نے بتصریح ان کی توثیق کی ہے،یحییٰ بن معین کا قول ہے: ابن ابی ذئب مدنی ثقۃ (تاریخ بغداد:۲/۳۰۳) ابن ابی ذئب مدنی ثقۃ ہیں۔ ابوجابر بیاضی کے علاوہ ابن ابی ذئب کے تمام شیوخ بھی ثقۃ اورصدوق تھے،بیاضی کی عدالت میں کلام کیا گیا ہے؛چنانچہ احمد بن صالح اوریحییٰ بن معین کا بیان ہے کہ : شیوخ ابن ابی ذئب کلھم ثقات الاباجابر البیاضی (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۵) ابن ابی ذئب کے شیوخ ثقہ ہیں،صرف ابو جابر بیاضی کے بارے میں کلام ہے۔ ان کی ثقاہت کا ایک اورثبوت یہ بھی ہے کہ امام بخاری اورمسلم نے صحیحین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال) قدری ہونے کا الزام بعض لوگ ان پر قدری ہونے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں،فرقہ قدریہ کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان تمام کام اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے،خدا کے ارادہ کو ا س میں کوئی دخل نہیں ہوتا،لیکن مورخین نے اس کی پر زور تردید کی ہے۔ (میزان الاعتدال:۱/۹۰) اس میں الزام کی حقیقت پر سب سے زیادہ وضاحت سے واقدی نے روشنی ڈالی ہے وہ رقمطراز ہے: ما كان قدرياً لقد كان ينفى قولهم ويعيبه ولكنه كان رجلاً كريماً يجلس إليه كل أحد ويغشاه فلا يطرده ولا يقول له شيئاً وإن هو مرض عاده فكانوا يتهمونه بالقدر لهذا وشبه (تاریخ بغداد:۲/۳۰۱) وہ قدری نہیں تھے ؛بلکہ وہ تو اہل قدر کو اور ان کی باتوں کو ناپسند کرتے تھے، بات یہ ہے کہ وہ شریف انسان تھے،ہر قسم کے اشخاص ان کے پاس بیٹھتے اورجمع ہوجاتے وہ فرطِ شرافت میں اس کو کچھ بھی نہیں کہتے ؛بلکہ اگر وہ بیمار ہوجاتا تو اس کی عیادت کو بھی جاتے اسی بنا پر لوگ ان پر قدری ہونے کا الزام لگانے لگے۔ ایک دفعہ احمد بن علی الابار نے شیخ وقت مصعب الزبیری سے دریافت کیا کہ کچھ لوگ ابن ابی ذئب پر قدری ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں،اس کی حقیقت کیا ہے؟فرمایا خدا کی پناہ اس الزام کے تار وپود صرف اس واقعہ سے تیار کئے گئے ہیں کہ خلیفہ مہدی کے زمانہ میں کچھ اہل قدر (فرقہ قدریہ کے لوگ)مدینہ آئے،کچھ مقامی لوگوں نے پکڑ کر انہیں مارنا شروع کردیا، اسی دوران مضروبین میں سے کچھ لوگ بھاگ کر ابن ابی ذئب کے پاس جا بیٹھے تاکہ مار سے محفوظ رہیں،بس کل اتنی سی بات تھی جس میں افسانہ کی رنگ آمیز کرکے کہا گیا کہ وہ لوگ ابن ابی ذئب کے پاس اس لئے بیٹھے کہ وہ عقیدہ قدر کے قائل تھے (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۵) اس کے بعد مصعب الزہری کہتے ہیں مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ قدر ین مار کے ڈر سے ابن ابی ذئب کی پناہ میں جاکر بیٹھ گئے،تاہم شیخ نے ان سے گفتگو بالکل نہیں کی۔ (تاریخ بغداد:۲/۳۰۱) ائمہ کا اعتراف بیشتر علماء وائمہ نے ابن ابی ذئب کے گوناگوں کمالات کو خراج تحسین پیش کیا ہے،امام شافعی کا یہ پُر حسرت قول اُوپر گذرچکا کہ مجھے زندگی بھر اس کا غم رہے گا کہ ابن ابی ذئب سے استفادہ نہ کرسکا،امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ آپ ابن عجلان اورابن ابی ذئب میں سے کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟ فرمایا "دونوں ہی ثقہ ہیں" حماد بن ابی خالد کا بیان ہے کہ خصائل وکمالات میں ابن ابی ذئب اپنے زمانہ کے سعید بن المسیب تھے وہ ثقہ،صدوق اورصالح تھے۔ حق گوئی اور بے باکی ابن ابی ذئب کے صحیفہ کمال کا سب سے درخشاں باب جو انہیں بہت سے دوسرے ائمہ سے ممتاز کرتا ہے ان کی جرأت حق گوئی اوربیباکی ہے انہوں نے حق بات کہنے میں کبھی بھی اُمراء اوراعیان سلطنت کا لحاظ نہیں کیا۔ اس معاملہ میں وہ بسا اوقات اتنی شدت سے کام لیتے تھے کہ ان کے عقید تمندوں کو تشویش پیدا ہوجاتی تھی،مگر انہوں نے اس آئینِ جوانمردی میں کبھی فرق نہیں آنے دیا ان کی اس خصوصیت کا ذکر تمام ائمہ محققین نے کیا ہے ؛چنانچہ ابن حبا ن لکھتے ہیں: کان من اقول اھل زمانہ للحق اپنے زمانہ میں وہ سب سے بڑے حق گو تھے۔ واقدی کا بیان ہے، وہ مردِ حق گو تھے (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۶) امام احمد کا قول ہے: ابن ابی ذئب اقوم بالحق من مالک عند السلاطین (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال) ابن ابی ذئب سلاطین کے سامنے امام مالک سے کہیں زیادہ حق گو ثابت ہوتے تھے۔ ان کی جرأت وبے باکی کے متعدد واقعات ملتے ہیں،جن میں سے نمونہ کے طور پر دو ایک یہاں ذکر کئے جاتے ہیں: محمد بن القاسم بن خلاد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زمانہ حج میں خلیفہ مہدی مسجد نبوی (علیٰ صاحبہ الف الف تحیۃ وسلام)میں داخل ہوا تو تمام حاضرین نے دو رویہ کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا، اتفاق سے ابن ابی ذئب بھی وہاں موجود تھے مگر وہ حسب سابق بیٹھے رہے،مسیب بن زہیر نے جب ان سے کہا کھڑے ہوجائیے،امیر المومنین آئے ہیں تو بڑے پرسکون اورطمانیت کے ساتھ فرمایا: انما یقوم الناس لرب العالمین صرف پروردگارِ عالم کے لئے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ شاہانہ تمکنت کے خلاف یہ جواب سُن کر مقربین کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں،لیکن صورتِ حال کی نزاکت کا خیال کرکے فوراً ہی مہدی نے کہا چھوڑ وچھوڑجانے دو ۔ (تاریخ بغداد:۲/۲۲۷) اس طرح کا ایک دوسرا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس جا کر بہت سخت الفاظ میں ظلم وجور سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے، منصورنے سب کچھ سُن لینے کے بعد گردن جھکالی اورپھر محمد بن ابراہیم سے کہا کہ ھنا الشیخ خیر اھل الحجاز (مراۃ الجنان :۱/۳۴۰) ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے اُن سے پوچھا کہ میرے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے پہلے تو کچھ کہنے سے انکار کرتے رہے،پھر جب اس نے قسم دلا کر پوچھا تو فرمایا: اللھم لا اعلمک الا ظالماً وجائزاً بخدا میں تجھے محض ظالم اورجابر خیال کرتا ہوں عسرت ابن ابی ذئب نے پوری زندگی نہایت تنگدستی اورعسرت کے عالم میں گذاردی،اعیانِ سلطنت ہزاروں دینار دینا چاہتے تھے،مگر ان کی شانِ استغناء اسے قبول نہ کرنے دیتی،آخر عمر میں بصد اصرار ایک ہزار دینار اس شرط پر قبول کئے کہ انہیں اپنے استعمال میں نہ لائیں گے ؛بلکہ مستحقین میں تقسیم کردیں گے۔ یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب تنگدست تھے، واقدی بھی ان کی مالی حالت حد درجہ سقیم بتاتے ہیں،صرف روغن زیتون اورروٹی ان کی مستقل خوراک تھی،ان کے پاس صرف ایک چادر اورایک کرتا تھا،جاڑے اورگرمی دونوں میں اسی کو استعمال کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۲/۳۰۴) عبادت وریاضت وہ اپنے زمانہ کے بہت عابد اورصاحب تقویٰ بزرگ تھے ہر وقت خشیت الہیٰ سے لرزاں رہتے،تمام رات نماز پڑھتے رہتے تھے،ابن سعد کا بیان ہےابن ابی ذئب کی کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ اگر ان سے کہہ دیا جاتا کہ کل قیامت ہوگی تو اس کے لئے انہیں کسی تیاری کی ضرورت نہ تھی (مراۃ الجنان:۱/۳۴۰،وشذرات الذہب:۱/۳۴۵) بغدادی نے ان کے بھائی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ابن ابی ذئب نے ایک زمانہ تک صوم داؤدی کو معمول بنائے رکھا،ایک روز روزہ رکھتے اورایک روز ناغہ کرتے ،پھر آخر عمر میں مسلسل روزہ رکھنے لگے۔ (تاریخ بغداد:۲/۳۰۱) ورع وتقویٰ اس کے ساتھ وہ تقویٰ اورپرہیز گاری کا بھی بہترین نمونہ تھے،ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ کان من اورع الناس وافضلھم (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۵) وہ لوگوں میں سب سے زیادہ متقی اور افضل تھے۔ وفات رحلت سے چند سال قبل خلیفہ مہدی انہیں اپنے ہمراہ مدینہ سے بغداد لے آیا تھا،جہاں وہ کچھ عرصہ تک حدیث کا درس دیتے رہے اور ۱۵۸ ھ میں وفات ہوگئی، کوفہ ہی میں تدفین عمل میں آئی، اس وقت ۷۹ سال تھی (تاریخ بغداد:۲/۳۰۵)یہ ابن ابی فدیک کی روایت ہے لیکن ابو نعیم کا بیان ہے کہ ۱۵۹ ھ میں وفات پائی (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۴)ابن عماد حنبلی اور یافعی وغیرہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ (شذرات الذہب :۱/۳۴۵ ومراۃ الجنان :۱/۳۴۰)