انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عدی بن حاتم نام ونسب عدی نام، ابوطریف کنیت، نسب نامہ یہ ہے: عدی بن حاتم، عبداللہ بن سعد بن مشرج بن امراء القیس ابن عدی بن ربیعہ بن جزول بن ثعل بن عمروبن یغوث بن طے بن اود بن زید بن کہلان، عدی مشہور حاتم طائی کے جن کی فیاضیاں ضرب المثل ہیں بیٹے ہیں، عقیدہ کے اعتبار سے عیسائیوں کے رکوسی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عدی کا خاندان مدت سے قبیلہ طے پرحکمران چلا آتا تھا اور ظہورِ اسلام کے وقت وہ خود تخت فرماروائی پرتھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومسلسل فتوحات حاصل ہوئیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کا اثرواقتدار اور اسلام کادائرہ وسیع ہونے لگا اور عدی کونظر آیا کہ کچھ دنوں میں ان کوبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سراطاعت خم کیے بغیر چارۂ کار نہیں رہ جائے گا تودوسرے فرمانرواؤں کی طرح ان کی نخوت کوبھی ایک قریشی کی ماتحتی اور حکومت گوارا نہ ہوئی؛ لیکن ایک طرف اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا روکنا ان کے بس سے باہر تھا، دوسری طرف حکمرانی کا غرور اسلام کے سامنے سرجھکانے کی اجازت نہ دیتا تھا، اس لیے انھو ں نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا اور سامانِ سفر درست کرکے اسلامی فوجوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے کہ ادھر وہ ان کی حدود کی طرف بڑھیں اُدھر یہ اپنا وطن چھوڑ کرنکل جائیں، جب اسلامی شہ سوار قبیلہ طے میں پہنچے توعدی اپنے اہل وعیال کولے کراپنی عیسائی برادری کے پاس شام چلے گئے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۸) اتفاق سے عدی کی ایک عزیزہ چھوٹ گئی تھیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ آئیں اور عام قیدیوں کے ساتھ ایک مقام پرمنتقل کردی گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گذر ہوا، توان خاتون نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باپ مرچکے ہیں، چھڑانے والا اس وقت موجود نہیں ہے، مجھ پراحسان کیجئے، خدا آپ پراحسان کرے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا چھڑانے والا کون ہے؟ عرض کیا عدی بن حاتم، فرمایا وہی عدی جس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرار اختیار کیا، یہ کہہ کرچلے گئے، دوسرے دن پھرگذرے اسیرخاتون نے پھروہی درخواست کی اور پھروہی جواب ملا تیسری مرتبہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے درخواست کی، اس مرتبہ درخواست قبول ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رہا فرمادیا؛ لیکن چونکہ بڑے گھر کی عورت تھیں اس لیے ان کے رتبہ اور اعزاز کا لحاظ کرکے ارشاد ہوا کہ ابھی جانے میں جلدی نہ کرو، جب تمہارے قبیلہ کا کوئی معتبر آدمی مل جائے تومجھے خبر کرو، چند دنوں کے بعد قبیلہ بلی اور قضاعہ کے کچھ لوگ مل گئے، طائی خاتون نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع دی، آپ نے ان کے شایانِ شان سواری، لباس اور اخراجات سفر کا انتظام کرکے بحفاظت تمام روانہ کردیا؛ یہاں سے یہ خاتون براہِ راست عدی کے پاس شام پہنچیں اور ان کی نہایت بری طرح خبر لی کہ تم سے زیادہ قاطع رحم کون ہوگا؟ اپنے اہل وعیال کولے آئے اور مجھ کوتنہا چھوڑدیا، عدی نے ندامت اور شرمساری کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا، چند دنوں کے بعد عدی نے ان سے پوچھا، تم ہوشیار اور عاقلہ ہو تم نے اس شخص (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق کیا رائے قائم کی؛ انھوں نے کہا کہ میری یہ رائے ہے کہ جس قدر جلدی ہوسکے تم ان سے ملو اوراگروہ نبی ہیں توان سے ملنے میں سبقت کرنا شرف وسعادت ہے اور اگربادشاہ ہیں توبھی یمن کا ایک باعزت فرمانروا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۶۹،۳۷۰) یہ معقول بات عدی کی سمجھ میں آگئی؛ چنانچہ وہ شام سے مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، آپ نے ان کا نام پوچھا اور ان کولے کرکاشانۂ اقدس کی طرف چلے، راستہ میں ایک بوڑھی عورت ملی، اس نے آپ کوروک لیا، آپ دیرتک اس سے باتیں کرتے رہے، اس کاعدی کے دل پرخاص اثر ہوا اور انھوں نے کہا کہ یہ طرز دُنیاوی بادشاہ کا نہیں ہوسکتا، گھرپہنچ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار عدی کوایک گدّے پربٹھایا اور خود زمین پربیٹھے، اس اخلاق کا عدی کے دل پراور اثرہوا اور انھیں یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح دنیاوی بادشاہ نہیں ہوسکتے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی کے سامنے اسلام پیش کیا؛ انھوں نے کہا کہ میں توایک مذہب کا پیرو ہوں آپ نے فرمایا میں تمہارے مذہب سے تم سے زیادہ واقف ہوں، عدی نے متعجبانہ پوچھا آپ میرے مذہب سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں؟ فرمایا بیشک، کیا تم رکوسی نہیں ہو؟ (رکوی، عیسائی مذہب کا ایک فرقہ ہے) اور مالِ غنیمت کا چوتھائی حصہ نہیں لیتے ہو؟ عدی نے اقرار کیا، ان کے اقرار کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتراضاً فرمایا کہ یہ توتمہارے مذہب میں جائز نہیں ہے، یہ حقیقت سن کرعدی کمزور پڑگئے؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ کیا چیز تمہارے اسلام قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے، اسلام کے متعلق تمہارا خیال ہوگا کہ اس کے پیرو کمزور اور ناتواں لوگ ہیں جن کے پاس نہ کوئی طاقت ہے اور نہ ان کا کوئی پرسانِ حال؛ پھرپوچھا، تم حیرہ کوجانتے ہو، عدی نے کہا دیکھا تونہیں ہے؛ لیکن نام سنا ہے، آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک دن خدا اسلام کوتکمیل کے درجہ تک پہنچائے گا اور (اس کی برکت سے) ایک تنہا عورت بلاکسی حفاظت کے حیرہ سے آکرکعبہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کا خزانہ فتح ہوگا، عدی نے استعجاباً پوچھا کسریٰ ابن ہرمز! فرمایا ہاں، کسریٰ بن ہرمز اور مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ لوگوں کودیا جائے گا اور وہ لینے سے انکار کریں گے، اس گفتگو کے بعد عدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پرست پرمسلمان ہوگئے۔ (مسنداحمد بن حنبل:۴/۴۵۷، مسند میں یہ حالات جستہ جستہ ہیں، ہم نے انھیں جمع کرکے ایک سلسلہ میں لکھ دیا ہے) امارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرنئے مسلمان سے اس کے رتبہ کے مطابق کام لیتے تھےاور اسلام سے پہلے جن کا جورتبہ تھا اس کواسلام کے بعد برقرار رکھتے تھے، عدی رضی اللہ عنہ قبیلہ طے کے حکمران تھے اس لیے اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوطے کی امارت پرممتاز فرمایا۔ (سیرت ابنِ ہشام:۲/۳۸۷) عہدِ صدیقی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب ارتداد کا فتنہ اُٹھا توبہت سے عرب قبائل نےزکوٰۃ دینی بند کردی، اس موقع پرعدی رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے ان کا قبیلہ اس فتنہ سے محفوظ رہا اور عدی رضی اللہ عنہ برابر زکوٰۃ وصول کرکے دربارِ خلافت میں پہنچاتے رہے۔ (استیعاب:۲/۵۱۶) عہدِ فاروقی سنہ۱۳ھ میں جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عراق کی فتوحات کی تکمیل کے لیے تمام ممالک محروسہ سے فوجیں طلب کیں توعدی بھی اپنے قبیلہ کے آدمیوں کولے کرشرکت جہاد کے لیے پہنچے اور امیرالعسکر مثنیٰ کے ساتھ حیرہ کے معرکہ میں شریک ہوئے اس معرکہ میں مسلمانوں کوکامیابی ہوئی اور ایرانیوں نے شکست کھائی، اس کے بعد نہرمثنیٰ پرصف آرائی ہوئی، اس میں بھی عدی رضی اللہ عنہ شریک تھے اور ایرانی ناکام رہے (ابن اثیر:۲/۲۴۱) اس کے بعد جسر کے معرکہ میں شرکت کی، اس میں مثنیٰ کی غلطی سے مسلمانوں کوشکست ہوئی (اسدالغابہ:۳/۱۲۹۳) اس سلسلہ کی سب سے بڑی جنگ قادسیہ میں بھی عدی نے دادشجاعت دی (اسدالغابہ:۳/۳۹۳) سب سے آخر میں کوثی اور مدائن پرفوج کشی ہوئی عدی اس میں بھی شریک ہوئے اور مدائن کے فاتحین میں تھے، ان کے سامنے کسریٰ کا خزانہ مسلمانو ں کے قبضے میں آیا اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوتی ہوئی دیکھ لی (مسنداحمد بن حنبل:۴/۲۵۷) ان لڑائیوں کے علاوہ تستر اور نہاوند کے معرکوں میں بھی شریک تھے (ابن اثیر:۲/۲۴۱) شام کی بعض جنگوں میں بھی وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے؛ غرض اس عہد کی اکثرلڑائیوں میں انہوں نے شرکت کی سعادت اور فتوحات حاصل کیں۔ (اخبارالطوال:۱۵۵) عہدِ مرتضیٰ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل سے عدی رضی اللہ عنہ کواختلاف تھا اس لیے ان کے زمانے میں بالکل خاموش رہے، اُن کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اختلاف ہوا توعدی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نہایت پرجوش حمایت کی؛ چنانچہ جنگ جمل میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، بصرہ کے قریب جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کومرتب کیا توقبیلہ طے کا علم عدی رضی اللہ عنہ کوعنایت کیا، وہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں نہایت جانبازی کے ساتھ لڑے جس میں ان کی ایک آنکھ کام آگئی (اخبارالطوال:۱۵۵) جنگ جمل کے بعد صفین میں بھی وہ اسی جوش وخروش کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں نکلے، اس جنگ میں بنوقضاعہ کی کمان حضرت عدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھی (اخبار الطوال:۱۸۳) صفین کا معرکہ مدتوں جاری رہا، شروع میں فریقین کے بہادر ایک ایک دستہ لے کرمیدان میں اُترتے تھے، ایک دن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے شامیوں کی جانب سے میدان میں اُترے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے حضرت عدی رضی اللہ عنہ ان کے مقابلہ کونکلے اور صبح سے شام تک مقابلہ کرتے رہے۔ (اخبار الطوال:۱۹۸) ایک دن جب کہ گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی اور عراقی فوجیں پراگندہ ہورہی تھیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ علیحدہ ایک دستہ کولیے صف آرا تھے، عدی رضی اللہ عنہ کوحضرت علی رضی اللہ عنہ نظر نہ آئے توآپ کی تلاش میں نکلے اور ڈھونڈکر عرض کیا کہ اگرآپ صحیح وسالم ہیں تومعرکہ سرکرلینا کچھ دشوار نہیں ہے، میں آپ کی تلاش میں لاشوں کوروندتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں، اس دن سب سے زیادہ ثابت قدمی عدی رضی اللہ عنہ نے دکھائی تھی، ان کا ماتحت دستہ ربیعہ اس بہادری سے لڑاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوکہنا پڑا کہ ربیعہ میری زرہ اور تلوار ہیں۔ (اخبارالطوال:۱۹۸) صفین کے بعد نہروان کا معرکہ گرم ہوا، اس میں بھی عدی رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دستِ راست تھے؛ غرض شروع سے آخر تک وہ برابر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جاں نثارانہ شریک رہے۔ (استیعاب:۲/۵۱۷) وفات مختار ثقفی کے خروج تک عدی رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے، اس اعتبار سے وہ جنگ صفین کے بعد ۳۰/سال تک زندہ رہے؛ مگراس تیس سالہ زندگی کے واقعات پردۂ خفا میں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فدائیوں میں تھے اور آپ کے بعد انھوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی، ابن سعد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوفہ میں عزت کی زندگی بسر کرتے تھے اور یہیں سنہ۶۷ھ میں وفات پائی۔ (اخبارالطوال:۱۹۸) فضل وکمال عدی رضی اللہ عنہ گوآخری زمانہ میں مشرف بااسلام ہوئے؛ تاہم چونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین رضی اللہ عنہما کے پاس برابر آتے جاتے رہتے تھے، خصوصاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے تعلقات بہت زیادہ تھے، اس لیے وہ مذہبی علوم سے بھی واقف تھے؛ چنانچہ ان کی ۶۶/روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ان میں سے چھ متفق علیہ ہیں اور تین میں امام بخاری رحمہ اللہ اور دومیں امام مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۲۶۳) ان کے تلامذہ میں عمروبن حریث، عبداللہ بن معقل، تمیم بن طرفہ، خیثمہ بن عبدالرحمن، محل بن خلیفہ طائی، عامرالشعبی، عبداللہ بن عمرو، ہلال بن منذر، سعید بن جبیر، قاسم بن عبدالرحمن، عبادہ بن جیش، وغیرہ قابل ذکر ہیں (تہذیب التہذیب:۷/۱۶۷) علامہ ابن عبدالبر نے ان کے کمالات کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے: وَكَانَ سَيداً شَرِيْفاً فِي قَوْمِهِ خَطِيْباً حَاضِر الجَوَاب، فَاضِلاً كَرِيْماً۔ (الإستيعاب في معرفة الأصحاب:۱/۳۲۵، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:وہ اپنی قوم کے معززین میں تھے، خطیب حاضر جواب، فاضل اور کریم تھے۔ مذہبی زندگی یوں توعدی رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی خالص مذہبی زندگی تھی؛ لیکن نماز اور روزوں کے ساتھ خاص شغف تھا، نماز کے لیے یہ اہتمام تھا کہ ہروقت باوضو رہتے تھے، کبھی اقامت کے وقت وضو کی ضرورت نہیں پڑی (اصابہ:۳/۲۲۸) ہروقت نماز میں دل لگا رہتا تھا اورنہایت اشتیاق سے نماز کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے (استیعاب:۲/۵۱۶) روزہ کے شرائط کی اسی سختی سے پابندی کرتے تھے کہ جب یہ آیت حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ۔ (البقرۃ:۱۸۷) ترجمہ:یہاں تک کہ ظاہر ہوجائے تمہارے لیے سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے۔ نازل ہوئی توسوتے وقت سفید وسیاہ عقال تکیہ کے نیچے رکھ لیتے تھے اور اس سے سحری کے وقت کا اختتام کا اندازہ لگاتے تھے؛ لیکن سیاہی اور سفیدی میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا؛ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا توآپ نے ہنس کرفرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہے، اسودوابیض سے مراد رات دن ہیں۔ (ابوداؤد، کتاب الصوم، باب وقت السحور) فیاضی سخاوت وفیاضی وراثتا ملی تھی، ان کا دروازہ ہروقت ہرشخص کے لیے کھلا رہتا تھا، ایک مرتبہ اشعث بن قیس نے دیگیں مانگ بھیجیں، حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے انھیں بھرواکر بھیجا، اشعث نے کہلا بھیجا کہ میں نے توخالی مانگی تھیں، جواب میں کہلا بھیجا کہ میں عاریۃً بھی خالی دیگ نہیں دیتا۔ (اسدالغابہ:۳/۳۹۳) ایک مرتبہ ایک شاعر سالم بن عارہ نے آکر کہا میں نے آپ کی مدح میں اشعار کہے ہیں، حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے کہا رُک جاؤ میں ذرا اپنے مال واسباب کی تفصیل توتمھیں بتلادوں اس کے بعد سُنانا، میرے پاس ایک ہزار بچے والے مویشی، دوہزار درہم، ۳/غلام اور ایک گھوڑا ہے، اس کے بعد شاعر نے مدحیہ قصیدہ سنایا (استیعاب:۲/۵۱۶) جوشخص ان کے رتبہ سے کم سوال کرتا اسے نہ دیتے تھے، صحیح مسلم میں بروایت صحیح مروی ہے کہ ایک شخص نے سودرہم کا سوال کیا، اتنی کم رقم سن کربولے میں حاتم کا بیٹا ہوں اور تم مجھ سے صرف سودرہم مانگتے ہو، اللہ کی قسم ہرگز نہ دونگا۔ (مسلم:۲/۲۲، مطبوعہ:مصر) ان کی فیاضی سے انسان توانسان حیوان تک مستفید ہوتے تھے، چیونٹیوں کی غذا مقرر تھی، ان کے لیے روٹیاں توڑ کرڈالتے تھے، کہتے تھے کہ یہ بھی حقدار ہیں۔ (اسدالغابہ:۲/۳۹۳) بارگاہِ نبوی میں عزت عدی اپنے ذاتی اور خاندانی فضائل کی وجہ سے بڑی عزت ووقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے توآپ ان کے لیے جگہ خالی کردیتے (استیعاب:۲/۵۱۷) خلفا کے یہاں بھی یہی وقعت قائم تھی، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مدینہ آئے اور ان سے مل کرپوچھا، آپ نے مجھے پہچانا، فرمایا: پہچانتا کیوں نہیں؟ تم اس وقت ایمان لائے جب لوگ کفر میں مبتلا تھے، تم نے اس وقت حق کوجانا جب لوگ حق کے منکر تھے اور تم نے اس وقت وفا کی جب لوگ دھوکا دے رہے تھے اور تم اس وقت آئے جب لوگ پیٹھ پھیر رہے تھے، سب سے پہلا صدقہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں کوبشاش کیا وہ تمہارے قبیلہ طے کا تھا۔ (اصابہ:۴/۲۲۹، خفیف تغیر کے ساتھ یہ روایت بخاری، کتاب المغازی میں بھی ہے)