انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطان مراد خان ثانی سلطان مراد خان ثانی ۸۰۶ ھ میں پیدا ہوا تھا، اٹھارہ سال کی عمر میں بمقام دارالسلطنت ایڈریانوپل(اورنہ)باقاعدہ تختِ سلطنت پر جلوس کیا اور اراکین سلطنت نے اطاعت وفرماں برداری کی بیعت کی اس نوجوان سلطان کو تخت نشین ہوتے ہی مشکلات وخطرات سے سابقہ پڑا، یعنی قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے سلطان محمد خان کے فوت ہونے کی خبر سنتے ہی اپنے قیدی مصطفیٰ کو اپنے سامنے بُلاکر اُس سے اس بات کا اقرار نامہ لکھا یا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا مالک ہوگیا تو بہت سے مضبوط قلعے اورصوبے (جن کی اقرار نامہ میں تفصیل درج تھی) قیصر قسطنطنیہ کے سپرد کردوں گا اورہمیشہ قیصر کا ہوا خواہ رہوں گا، اس کے بعد قیصر قسطنطنیہ نے اپنے جہازوں میں اُس کے ساتھ ایک فوج سوار کراکر سب کو سلطنت عثمانیہ کے یورپی علاقے میں اُتار دیا تاکہ وہ سلطان مراد کان کے خلاف ملک پر قبضہ کرے ؛چونکہ یہ مصطفیٰ اپنے آپ کو سلطان محمد خان کا بھائی اور بایزید یلدرم کا بیٹا بتاتا تھا اوراُس کے اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب میں ترک متردد تھے لہذا بہت سے عثمانی سپاہی اُس سے آملے اوراُس کی طاقت بہت بڑھ گئی اُس نے شہروں شہر فتح کرنے شروع کردیئے ،مراد خاں نے جو فوج اُس کے مقابلہ کو بھیجی اُس کا اکثر حصہ مصطفی سے آملا اورباقی شکست کھا کر بھاگ آیا، اس کے بعد سلطان مراد نے اپنے سپہ سالار بایزید پاشا کو ایک معقول جمعیت کے ساتھ اس باغی کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا لیکن معرکہ جنگ میں بایزید پاشا مارا گیا اور مراد کی فوج کو شکست فاش حاصل ہوئی اس فتح و فیروزی کے بعد مصطفیٰ کی ہمت بڑھ گئی اوراُس نے یہی مناسب سمجھا کہ میں پہلے تمام ایشائے کوچک پر قابض ہوجاؤں؛کیونکہ یورپی علاقے میں اس کو توقع تھی کہ قیصر قسطنطنیہ اورمغربی حدود کے عیسائی سلاطین سے مجھ کو مراد خاں کے خلاف ضروری امداد ملے گی اورایشیاپرقابض ہونے کے بعد یورپی علاقے سے مراد خان کا بے دخل کرنا بہت آسان ہوگا؛چنانچہ اُس نے آبنائے کو عبور کرکے ایشیائے کوچک میں تاخت وتاراج شروع کردی،مراد خان ثانی نے ان خطرناک حالات کو دیکھ کر تامل کرنا مناسب نہ سمجھ کر بذاتِ :خود مصطفی کا تعاقب کرنا ضروری سمجھا اور فوراً ایشیائے کوچک میں پہنچ کر اُس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا، مراد خان کے میدانِ جنگ میں آتے ہی ترکی سپاہی جن کو اس عرصہ میں مصطفی کے دعوے میں جھوٹ اور افترا کا یقین ہوگیا تھا اُس کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر مرادخان کے پاس آنے لگے،مصطفیٰ اپنی حالت نازک دیکھ کر ایشیائے کوچک سے بھاگا اورگیلی پولی میں آکر تھسلی وغیرہ پر قابض ہوگیا، مراد خان بھی اُس کے پیچھے گیلی پول پہنچا، یہاں معرکہ میں اُس کو شکست فاش دے کر اُس کی طاقت کا کاتمہ کردیا، مصطفی یہاں سے ایڈریا نوپل کی طرف بھاگا تاکہ دارالسلطنت پر قابض ہوجائے مگر ایڈر یا نوپل میں وہ گرفتار کرلیا گیاا ور شہر کے ایک برج میں پھانسی پر لٹکا کر اُس کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان نے جنبیوا کی ریاست سے جو قیصر قسطنطنیہ سے رقابت رکھتی تھی،دوستی کا عہد نامہ کیا اور قسطنطنیہ پر اس لئے چڑھائی کی تیاریاں کیں کہ قیصر قسطنطنیہ نے ہی مصطفیٰ باغی سے یہ فتنہ برپا کرایا تھا،قیصر پلیولوگس والی قسطنطنیہ نے جب یہ سنا کہ سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں کرہا ہے تو اُس کو بہت فکر پیدا ہوئی اور اُس نے اس فوری مصیبت کو ملتوی کرنے کے لئے قسم قسم کی تدابیر سوچیں؟ مینڈھے لڑانے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوتیں براپا کرادینے میں اُس کو بہت کمال حاصل تھا اوراسی تدبیر سے وہ عثمانیہ سلطنت کو مشکلات میں مبتلا رکھ کر اپنی حکومت کو اب تک بچائے ہوئے تھا مگر اس مرتبہ وہ بجز اس کے اورکچھ نہ کرسکا کہ اس نے اپنے سفیر سلطان کی خدمت میں روانہ کئے تاکہ قصور کی معافی طلب کرکے آئندہ صلح نامہ دب کر کرے،لیکن سلطان کی خدمت میں روانہ کئے تاکہ قصور کی معاف طلب کرکے آئندہ صلح نامہ دب کرکرے لیکن سلطان مراد خان نے ان سفیروں کو نہایت حقارت کے ساتھ واپس کردیا اوراپنے دربار میں باریاب نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد شروع جون ۱۴۲۲ء مطابق ۸۲۶ھ میں بیس ہزار انتخابی فوج لے کر سلطان مراد خان ثانی قسطنطنیہ کے سامنے آموجود ہوا،بڑی سختی اورشدت سے شہر کا محاصرہ کیا گیا،خلیج قسطنطنیہ پر لکڑی کا ایک پل تیار کرکے محاصرہ کو مکمل کیا،شہر قسطنطنیہ کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر سلطان مراد کان نے ایسے عزم وہمت سے کام لیا اورمھاصرہ میں سرنگون،منجنیقوں ،دمدموں،متحرک میناروں کو اس طرح کام میں لایا کہ دم بدم فتح کی امید یقین سے تبدیل ہونے لگی،اس دوران محاصرہ میں قیصر بھی بے فکر نہ تھا،اُس نے ایک طرف تو مدافعت میں ہر قسم کی کوشش شروع کی اور دوسری طرف ایشیائے کوچک میں فساد برپا کرانے اورمرادخان ثانی کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہا قسطنطنیہ کے فتح ہونے میں ہفتوں نہیں ؛بلکہ دنوں اورگھنٹوں کی دیر رہ گئی تھی کہ مراد خان ثانی کو محاصرہ اٹھا کر اوراب تک کی تمام کوشش کو بلا نتیجہ چھوڑ کر اسی طرح ایشیائے کوچک کی طرف جانا پڑا جس طرح کہ اُس کا داد بایزید خاں یلدرم عین وقت پر قسطنطنیہ سے محاصرہ اٹھا کر ایشائے کوچک کی طرف تیمور کے مقابلہ کو روانہ ہوگیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلطان محمد خان جب فوت ہوا ہے تو اُس نے چار بیٹے چھوڑے تھے جن میں دو تو بہت ہی کم عمر اور چھوٹے بچے تھے اوردونوجوان کہے جاسکتے تھے جن میں ایک سب سے بڑا مراد خان ثانی تھا جس کی ۱۸ سال کی عمر اور دوسرا مصطفی نامی تھا جس کی عمر باپ کی وفات کے وقت پندرہ سال تھی،مراد خان ثانی نے تخت نشین ہوکر اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو تو بروصہ میں پرورش پانے کے لئے بھیج دیا تھا،جہاں اُن کے لئے تعلیم و تربیت اورراحت وآرام کا ہر ایک سامان موجود کردیا تھا اور تیسرے بھائی مصطفی کو جو مراد ثانی سے تین سال عمر میں چھوٹا تھا ایشیائے کوچک میں بطور عامل یا بطور سپہ سالار عزت کے ساتھ مامور کیا تھا،مراد ثانی جب اپنے فرضی چچا مصطفی کے فتنے کو فرو کرچکا اور مصطفیٰ ایڈریا نوپل میں پھانسی پاچکا تو قیصر پلیولوگس نے اس دوسرے مصطفی پر ڈورے ڈالنے شروع کئے اوراپنے جاسوسوں اورلائق سفیروں کے ذریعہ مراد ثانی کے بھائی مصطفی کو مسلسل یہ توقع دلاتا رہا کہ میں تم کو زیادہ مستحق سلطنت سمجھتا ہوں اوراگر تم سلطنت کے مدعی بن کر کھڑے ہوجاؤ تو تمہاری ہر ایک قسم کی امداد کوموجود ہوں،اُدھر اُس نے ایشیائے کوچک کے سلجوقی سرداروں کو جواب تک قونیہ اور دوسرے شہروں میں سلطنت عثمانیہ کے جاگیر داروں کی حیثیت سے موجود اورخاندانِ سلطنت سے رشتہ داریاں بھی رکھتے تھے،مراد ثانی کے خلاف اورمصطفیٰ خاں برادرِ مراد خان کی اعانت پر آمادہ کرنے کی خفیہ تدبیریں جاری کردی تھیں، آخر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا۔ مصطفیٰ خان نے سلجوقی امیروں کی امداد سے خروج کرکے علم بغاوت بلند کیا اورٹھیک اُس وقت جب کہ ادھر مراد خان قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا تھا،مصطفیٰ خان نے ایشیائے کوچک کے بہت سے شہروں اور ضروری مقاموں پر قبضہ کرکے بروصہ کے حاکم کا بروصہ میں محاصرہ کرلیا ،یہ خبر سُن کر کہ ایشیائے کوچک کی فوج باغی ہوکر مصطفیٰ کے ساتھ شامل ہوگئی ہے اور ایشیائے کوچک قبضہ سے نکلا جاتا ہے،مراد ثانی سر اسیمہ ہوگیا اور فوراً محاصرہ اٹھا کر اورمصطفیٰ کا تدارک ضروری سمجھ کر ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا، مراد خان ثانی کے ایشیائے کوچک میں پہنچتے ہی فوج کے اکثر سپاہی مصطفیٰ خاں کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر مرادخان کے پاس چلے آئے،مراد خان کی فوج نے مصطفیٰ خان کو شکست دے کر قتل کردیا اوراس طرح بہت جلد ایشیائے کوچک کا فتنہ قابو میں آگیا، اس کے بعد قریباً ایک سال تک مراد خان نے ایشیائے کوچک میں مقیم رہ کر وہاں کے تمام سرکش امرا کو قرار واقعی سزائیں دے کر اپنی حکومت وسلطنت کو مضبوط بنایا ۸۲۶ھ میں سلطان مراد خان ثانی ایشیائے کوچک سے یورپ کی طرف آیا تو قیصر قسطنطنیہ سے تیس ہزار ڈاکٹ سالانہ بطور خراج اورکئی اہم مقامات لے کر صلح کرلی اور دوبارہ قسطنطنیہ کا محاصرہ نہیں کیا،اس کے بعد سلطان مراد خان اپنی سلطنت کے اندرونی انتظام اور فلاح وبہبود رعایا کے کاموں میں مصروف رہا اورکسی عیسائی یا غیر عیسائی ریاست کو مطلق نہیں چھیڑا،ہاں اپنے عہد ناموں کی پابند اُن سے ضرور کراتا رہا۔ ۸۳۱ھ میں سرویا کا بادشاہ اسٹیفن جو سلطنت عثمانیہ کا باج گذار اوروفادار تھا فوت ہوا اُس کی جگہ جارج برنیک وچ تخت نشین ہوا،سرویہ کا یہ نیابادشاہ جارج چونکہ اپنے پیش رو کی طرح مآل اندیشی وسنجیدہ مزاج نہ تھا اس لئے قیصر قسطنطنیہ کو اس طرح ریشہ دوانیوں کا موقع مل گیا اوروہ اندر ہی اندر جارج اورہنگری والوں کو سلطان مراد خان کے خلاف برانگیختہ کرنے میں مصروف رہا،ہنگری والے بھی اب چونکہ نکوپولس کی شکست کے تلخ تجربہ کو بھول چلے تھے لہذا وہ بھی عثمانی سلطنت کے خلاف تیاریاں کرنے لگے اورکئی سال تک ان تیاریوں کے سلسلے کو جاری رکھا، سلطان مرادخان ثانی نے ۸۳۴ ھ میں جزیرہ زانٹی اوریونان کا جنوبی حصّہ اورسالونیکا کا علاقہ فتح کرکے وینس والوں کو شکست فاش دی اوروینس کی ریاست نے نہایت ذلیل شرطوں پر دب کر سلطان سے صلح کرلی،وینس چونکہ بادشاہ قسطنطنیہ کا طرف دار تھا اس لئے شاہ قسطنطنیہ کو اوربھی زیادہ ملال ہوا اور وہ اپنے سازشی کاموں میں پہلے سے دُگنی توجہ کے ساتھ مصروف ہوگیا،ادھر سلطان مراد نے بتدریج اپنے مقبوضات کویورپ میں ترقی دینی شروع کی،البانیہ اوربوسینیا والوں نے بھی سرویا اورہنگری کی طرح سلطان کے خلاف عیسائیوں کی سازش میں شرکت اختیار کی،سرویا اوررومانیہ کے شمال میں صوبہ ٹرانسلونیا کے عیسائیوں نے ۸۴۲ھ میں علم مخالفت بلند کیا تو سلطان نے اس طرف حملہ آور ہوکر ستر ہزار عیسائیوں کو میدان جنگ میں قید کیا اوراپنی قوت وسطوت کی دھاک بٹھا کر وہاں سے واپس ہوا وہ ترکوں کا سخت مخالف اوردشمن تھا،اُس کے تخت نشین ہونے سے عیسائیوں کی سازش کو بہت تقویت پہنچی،انہیں ایام میں مغربی یورپ کی بعض لڑائیوں میں شریک رہنے اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد جان ہنی ڈیزیاجان ہنی داس ایک شخص جو جوشاہ سجمنڈ کا ناجائز بیٹا تھا ہنگری کی طرف واپس آیا، اس کا باپ سجمنڈ تھا اوراس کی ماں الزبتھ مارسی نامی ایک حسین اورفاحشہ عورت تھی،ہنی داس نے ہنگری میں آکر فوراًسپہ سالاری کا منصب حاصل کرلیا اورترکوں کے خلاف فوجیں لے کر اٹھ کھڑا ہوا،اُس نے صوبۂ ٹرانسلونیا سے ترکوں کو خارم کردیا،ترکی جرنیل مزید بیگ جو اُس نواح میں عامل ومنتظم تھا،مع اپنے بیٹے کے مارا گیا اور تیس ہزار ترکی فوج میدان میں کھیت رہی، جو ترک زندہ قید ہوئے تھے اُن کے ساتھ ہنی داس نے یہ سلوک کیا کہ جب اس فتح کی خوشی میں ہنگری کے اندر ضیافتیں ہوتی تھیں سلطان کو خط و کتابت کا سلسلہ ہنگری والوں کے ساتھ جاری کرنا پڑا،آخر اسی سلسلۂ خط و کتابت نے یہ صورت اختیار کی کہ سلطان صلح پر آمادہ ہوگیا،سرویا کی آزادی کو سلطان نے تسلیم کرلیا ،وہاں کے بادشاہ جارج کو بادشاہ مان کر اپنے حقوق شہنشاہی اُس پر سے اُٹھا لئے،والیشیا کا صوبہ ہنگری کو دے دیا اور ساٹھ ہزار ڈاکٹ زرفدیہ بھیج کر محمد چلپی کو قید سے آزاد کرایا،یہ عہد نامہ ہنگری اورترکی دونوں زبانوں میں لکھا گیا،سلطان مرادخان ثانی اورلیڈ سلاس بادشاہ ہنگری کے اُس پر دستخط ہوئے اور دونوں بادشاہوں نے قسمیں کھائیں کہ اس عہد نامہ کی پابندی کو احکام مذہبی کی طرح ضروری سمجھیں گے،دریائے ڈینوب اس عہد نامہ کے بموجب سلطان کی عمل داری کی حد مقرر کیا گیا،اس طرح ۱۲ جولائی ۱۴۴۴ ء مطابق ۸۴۸ھ کو دس برس کے لئے سلطان مرادخان ثانی اور عیسائیوں کے درمیان صلح قرار پاگئی،اس صلح نامہ کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہی سلطان مراد خان نے یہ سمجھ کر کہ اب دس سال کے لئے امن وامان قائم رہے گا، نیز اپنے بیٹے کی وفات کے سبب افسرد خاطر ہوکر سلطنت کو چھوڑدینے پر آمادہ ہوگیا؛چنانچہ اُس نے اپنے دوسرے بیٹے محمد خان کو ایڈر یانوپل میں تخت نشین کیا، محمد خان چونکہ بہت ہی نو عمر تھا، اس لئے تجربہ کار اوربہادر وزیروں اور سپہ سالاروں کو اُس کا مشیر بنایا اورخود ایشیائے کوچک میں جاکر درویشوں اورزاہدوں کی مجلس میں شیرک ہوا اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے لگا۔ سلطان مراد خان ثانی کی تختِ سلطنت سے دست برداری اورایک نو عمر شاہزادے محمد خان کی تخت نشینی کا حال سُن کر عیسائیوں کے دہان حرص میں پانی بھر آیا اوراُنہوں نے اس موقع کو بہت ہی مناسب اورغنیمت سمجھ کر عہد شکنی پر آمادگی ظاہر کی اور ارادہ کیا کہ ترکوں کی نسلوں کو اس وقت یورپ سے نیست و نابود کردیا جائے،ہنگری کا بادشاہ لیڈ سلاس جس نے ابھی چند روز ہوئے قسم کھائی تھی اورعہد نامہ پر دستخط کرکے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اس کی پابندی مذہبی احکام کی طرح کروں گا، عہد شکنی میں متامل تھا، لیکن پوپ اوراُس کے نائب کارڈنل جولین نے اس کو یقین دلا کر مسلمانوں کے ساتھ عہد وپیمان کو نباہنا گناہ ہے اور عہد شکنی موجب ثواب ہوگی اُس کو آمادہ کرلیا، اُدھر ہنی داس سپہ سالار ہنگری بھی اس قدر جلد عہد نامہ کے توڑنے کو موجب رُسوائی سمجھتا تھا لیکن اُس کو دربار ہنگری کی طرف سے لالچ دیا گیا کہ بلگیریا کو فتح کرکے تم کو وہاں کا بادشاہ بنادیا جائے گا؛چنانچہ وہ بھی رضا مند ہوگیا، ابھی صلح نامہ کو لکھے ہوئے ایک مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ اُس کے توڑنے پر عیسائی متفق ہوگئے،سرویا سے ترک سپاہی عہد نامہ کی شرائط کے موافق جارہے تھے اورسرویا کا تمام علاقہ ترکی سپاہ سے خالی ہورہا تھا، اس تخلیہ کا چند روز انتظار کیا گیا اورعہد نامہ کی تحریر سے پورے پچاس دن کے بعد یکم ستمبر ۱۴۴۴ء مطابق ۸۴۸ھ کو ہنگری کی فوج نے بڑھ کر بے خبر ترکی سرحدی چوکیوں کی فوج پر حملہ کیا اور بلگیریا کے راستے بحر اسود کے کنارے پہنچ کر وہاں سے جنوب کی جانب متوجہ ہوکر شہر دارنا کا محاصرہ کرلیا اوربالآخر دارنا کو ہنی داس نے فتح کرلیا، اس سے پہلے راستے میں جس قدر ترکی فوجیں سدّ راہ ہوئیں مقتول و مغلوب ہوتی رہیں اور تمام علاقے میں عیسائیوں نے بڑی بے رحمی اور سفاکی مسلمانوں کے قتل عام میں دکھائی،عیسائیوں کی اس فوج کشی اور عہد شکنی کا حال فوراً ایشیائے کوچک میں سلطان مراد ثانی سے جو ترک سلطنت کے بعد گوشہ نشین ہوچکا تھا جاکر بیان کیا گیا اور اُس سے استدعا کی گئی کہ آپ گوشۂ عزلت سے قدم باہر نکالیں اور سلطنت عثمانیہ کو بچائیں؛چنانچہ مراد خان ثانی بلا تامل ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے دارنا کی طرف روانہ ہوا، عیسائی فتح مند لشکر دارنا کے قریب میدان میں خیمہ زن تھا اوراپنی فتح مقصدوری کا اُس کو کامل یقین تھا کہ ہنی داس کے مخبروں نے آکر اس کو خبر سُنائی کہ سلطان مراد خان گوشۂ عزلت سے نکل کر اورچالیس ہزار بہادر سپاہیوں کو لے کر خود مقابلہ پر آپہنچا ہے اوریہاں سے چار میل کے فاصلہ پر آکر خیمہ زن ہوا ہے یہ سنتے ہی ہنی داس اورشاہ ہنگری نے مجلسِ مشورت منعقد کی اوراس کے بعد صفوفِ جنگ کی آراستگی میں مصروف ہوگئے،عیسائیوں کی فوج کے میسرہ میں والیشیا کی فوج تھی ہنگری کے انتخابی سپاہی میمنہ پر مامور کئے گئے،کارڈنل جولین کے زیر اہتمام عیسائی مجاہدین کا ایک لشکرِ عظیم تھا،بادشاہ ہنگری اپنے ملک کے سرداروں اور بہادر سواروں کے ساتھ محلب لشکر میں تھا، پولینڈ کی فوج سب سے پیچھے ایک مشہور بشپ کے زیر کمان تھی،ہنی داس اس تمام لشکر عظیم کا سپہ سالار اعظم تھا، سلطان مراد خان ثانی نے بھی اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کیا اوراُس صؒح نامہ کی نقل کرکے نیزہ کی نوک پر رکھ کر اپنا علم بنایا جو شاہِ ہنگری نے لکھ کر سلطان مراد خان کو دیا تھا، ۱۰ نومبر کو دارنا کے میدان میں یہ لڑائی شروع ہوئی جب کہ دو مہینے اور دس روز عیسائیوں کو عہد نامہ توڑے اورسلطنت عثمانیہ کے شہروں کو برباد کرتے ہوئے گزرچکے تھے، ہنی داس نے داہنی طرف سے عثمانی فوج کے ایشیائی دستوں پر اس زور وشور کا حملہ کیا کہ ترکی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے،دوسری طرف والیشیا والوں نے بھی اسی طرح پر جوش حملہ کیا اور عثمانی فوج کا دوسرا بازو بھی قائم نہ رہ سکا، سلطان مراد خان ثانی تو ضیافت کے موقع پر ان ترک قیدیوں کی ایک تعداد لے جاکر ان لوگوں کے سامنے قتل کی جاتی تھی جو اس خوشی کی تقریب میں شریک ہوتے تھے، اس طرح گویا خوشی کے جلسوں میں ان ترک قیدیوں کا قتل کرنا ایک دلچسپ سامان تفریح سمجھا گیا تھا،سلطان مرادخان کے پاس ادھر اس مذکورہ شکست کی خبر پہنچی اُدھر ایشیائے کوچک سے خبر آئی کہ قونیہ میں بغاوت کا جھنڈا بلند ہوگیا ہے جو سلطان کے لئے بے حد موجب خطر ہے ،سلطان مراد کان نے ہنی داس اورہنگریوں سے بدلہ لینے کے لئے اسی ہزار فوج دے کر اپنے ایک سپہ سالار کو روانہ کیا اورخود ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا، یہ واقعہ ۸۴۷ھ کا ہے۔ ترکوں کی اس فوج کو شکست دینے اور ترکوں کو برا عظم یورپ سے نکالنے کے لئے یورپ میں اب کی مرتبہ ایسا جوش پیدا ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا، ہنگری کا بادشاہ لیڈ سلاس اورہنگری کا سپہ سالار ہنی داس اس قدر مشہور ہوگئے تھے اوراُن کی بہادری کے افسانے اس طرح یورپ میں ہر جگہ پہنچ گئے تھے کہ ہر ایک ملک کے عیسائی نے اُن کی فوج میں شامل ہونے اور مجاہد کہلانے کا شوق ظاہر کیا، روما کے پوپ جان اوراُس کے سفیروں کا رڈنیل جولین نے مجاہدین کے تیار کرنے اوراپنے وعظوں سے عیسائیوں کو اس لڑائی میں شریک کرنے کی بے حد ترغیب دی،ہنگری ،سرویا،والیشیا، پولینڈ،جرمنی،اٹلی، فرانس،آسٹریا،بوسینیا،البانیہ وغیرہ کی فوجیں ہنی داس کے جھنڈے کے نیچے آکر جمع ہوگئیں عثمانیوں کی فوج سے جب مقابلہ ہوا تو عیسائیوں کی اس بے شمار فوج نے ترکی فوج کو شکست دی،چار ہزار ترک گرفتار اور بہت سے شہید ہوئے،ہنی داس نے تعاقب کرکے شہر صوفیہ پر قبضہ کرلیا اورتمام رومیلیا کو تاخت و تاراج کرکے اور بے شمار مال غنیمت اور قیدی لے کر اپنے ملک کو واپس ہوا؛حالانکہ اس کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ آگے بڑھ کر ایڈریا نوپل پر قبضہ کرلیتا مگر ایڈریا نوپل پر حملہ آور ہونے کی اُس کو جرأت نہ ہوئی، سلطان مراد خان ثانی نے اس شکست اوراپنے علاقوں کی تباہی کا حال ایشیائے کوچک میں سُنا وہ بہت جلد ۸۴۷ھ میں ایشیائے کوچک کی بغاوت فرو کرنے کے بعد ایڈریا نوپل میں آیا اور عیسائیوں سے انتقام لینے کی تدبیر سوچنے لگا، انہیں ایام میں سلطان کا بڑا بیٹا علاؤ الدین فوت ہوا جس سے سلطان کو سخت صدمہ پہنچا اوراُس کا دل سلطنت وحکومت سے برداستہ ہوگیا ،گذشتہ جنگ میں سلطان کا بہنوئی محمد چلپی ہنی ڈیز (ہنی داس) کی لڑائی میں گرفتار ہوگیا تھا لہذا اُس کی بہن اوردوسرے عزیزوں نے سلطان کو مجبور کیا کہ جس طرح ہو محمد چلپی کو آزاد کرایا جائے ؛چنانچہ جو اپنی رکابی فوج کے ساتھ پشت لشکر پر کھڑا ہوا یہ رنگ دیکھ رہا تھا،سخت مضطرب ہوا، اسی اثنا میں ہنگری کا بادشاہ لیڈسلاس نے قلب عثمانی پر نہایت سخت حملہ کیا اورصفوں کو چیرتا ہوا اُس مقام تک پہنچ گیا جہاں سلطان مراد خاں ابھی تک اپنی جگہ پر قائم اور اپنی فوج کے دستوں کی ہزیمت اورعیسائیوں کے زبردست حملوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا تھا، سلطان کو اپنی شکست فاش کا کامل یقین ہوچکا تھا اوروہ یہ سوچ رہا تھا کہ گھوڑابھگا کر میدانِ جنگ سے اپنی جان بچا کر لے بھاگے یا دشمنوں کے لشکر پر حملہ آور ہوکر جامِ شہادت نوش کرے کہ سامنے سے لیڈ سلاس شاہ ہنگری سلطان کو بڑے کبر و نحوت کے ساتھ للکارتا ہو انمودار ہوا، سلطان نے فوراً کمان میں ایک تیر جوڑ کر مارا جس سے شاہ ہنگری کا گھوڑا زخمی ہوکر گر پڑا اورینگ چری فوج کے ایک بوڑھے سپہ سالار خواجہ خیری نے آگے بڑھ کر لیڈ سلاس کا سرکاٹ لیا اورایک نیزہ کی انی پر رکھ کر اس عہد نامہ کے ساتھ ہی بلند کردیا،شاہ ہنگری کے اس کٹے ہوئےسر کو دیکھ کر عیسائی لشکر میں ابتری اورہل چل پیدا ہوگئی اور وہ ترک جو پسپا ہوتے چلے جارہے تھے اب ہمت کرکے آگے بڑھنے لگے،ہنی داس نے اس سر کو دیکھ کر اس کے چھیننے کی کوشش میں کئی زبردست حملے سلطانی لشکر کے اس حصے پر کئے جہاں شاہ ہنگری کا وہ سر نیزہ پر رکھا ہوا تھا مگر اُس کو ہر مرتبہ شکست ہوئی اوردیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے عیسائیوں سے میدان خالی کرالیا، اس لڑائی میں کارڈ نل جولین بھی جو پوپ کا نائب اور عیسائی مجاہدین کا سپہ سالار اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا مارا گیا، بشپ اوردوسرے تمام سردار بھی اس لڑائی میں مقتول ہوئے، صرف ایک ہنی داس اپنی جان بچا کر میدان سے بھاگا،ہنگری کی تمام فوج ترکوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئی۔ اس فتح مبین کے بعد عثمانی فوج نے سرویا کو فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کیا اسی طرح بوسینیا بھی ممفتوح اور وہاں کا شاہی خاندان نیست و نابود ہوکر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوا،عیسائیوں کی اس عہد شکنی کا بعض عیسائی کاندانوں پر یہ اثر پڑا کہ سرویا اوربوسینیا میں بہت سے عیسائی خود بخود مسلمان ہوگئے،سلطان مراد خاں نے اپنی طرف سے مذہب کے معاملے میں کسی کو مجبور نہیں کیا تھا ؛بلکہ اُس نے اپنی تمام تر عیسائی رعایا کو مثل دوسرے سلاطین عثمانی کے دہی آزادانہ حقوق دے رکھے تھے جو مسلمانو ں کو حاصل تھے۔ چند مہینے کی کوشش کے بعد سلطان مراد ثانی نے عیسائی باغیوں کو قرارواقعی سزائیں دے کر حدود سلطنت کو پہلے سے زیادہ وسیع اورمضبوط کرکے دوبارہ خلوت نشینی اورزہد وعبادت اختیار کرکے اپنے بیٹے محمد خان کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا،محمد خان کے دوبارہ تخت نشین ہونے کے بعد ینگ چری فوج نے اپنی تنخواہوں اور وظیفوں کا مطالبہ کیا اور جب اُن کے اس نامناسب مطالبہ کو پورا کرنے میں پس و پیش ہوا تو انہوں نے بغاوت کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور لوٹ مار پر اُتر آئے، اس طرح فوج کے خود سر ہونے سے سلطنت عثمانیہ میں دوبارہ سخت خطرناک اورنہایت پیچیدہ حالات پیدا ہوگئے ،اراکینِ سلطنت نے یہ رنگ دیکھ کر دوبارہ سلطان مراد خاں کی خدمت میں حاضر ہوکر التجا کی کہ بغیر آپ کی توجہ کے حالات درست نہ ہوں گے ؛چنانچہ سلطان مراد خاں کومجبوراً پھر اپنے خلوت خانے سے نکلنا اور ایشیائے کوچک سے ایڈریا نوپل آنا پڑا، یہ ۸۴۹ ھ کا واقعہ ہے،جب سلطان مراد ثانی ایڈریا نوپل پہنچا تو فوج اوررعایا نے اس کا نہایت شان دار اور پر تپاک خیر مقدم کیا،اس مرتبہ تختِ سلطنت پر جلوس کرنے کے بعد سلطان مراد خان نے اپنے بیٹے محمد خان کوجو سال بھر کے اندر دو مرتبہ تخت نشین ہوچکا تھا ایشیائے کوچک میں اس لئے بھیج دیا کہ وہ وہاں رہ کر سلطنت کے متعلق زیادہ تجربہ حاصل کرے،تخت پر جلوس فرمانے کے بعد سلطان مراد خان نے بغاوت وسرکشی کے اماموں کو خوب سزائیں دیں اور ملک کے نظم ونسق میں مصروف ہوکر اب تیسری مرتبہ تخت کا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، مراد ثانی نے اس مرتبہ عنان سلطنت ہاتھ میں لے کر عیسائیوں کو پھر سر اُٹھانے کا موقع نہیں دیا لیکن بلاوجہ اُس نے کسی کو ستایا بھی نہیں،شاہ قسطنطنیہ اگرچہ اپنی شرارتوں اورفساد انگیزیوں کے سبب عثمانیوں کا سب سے بڑا دشمن اورسب سے زیادہ منبع فساد تھا اور ساتھ ہی اُس کا قلع قمع کردینا بھی مراد کے لئے کچھ زیادہ دشوار نہ تھا،لیکن اُس نے اُس کے حال پررہنے دیا اور کوئی تعرض نہیں کیا، ۸۵۲ھ میں ہنی داس مذکور نے عیسائی فوجیں فراہمکرکے ترکوں کے استیصال کی تیاریاں کیں اوراُسی طرح عیسائی فوجیں فراہم ہوئیں جیسے کہ اس سے پہلے کئی مرتبہ ترکوں کے خلاف جمع ہوچکی تھیں،اس مرتبہ مقام کسودا میں معرکہ عظیم برپا ہوا اور سلطان مراد ثانی نے اپنے اس پرانے حریف کو تین دن کی لڑائی کے بعد شکستِ فاش دے کر بہت سے علاقے پر قبضہ کرلیا اورسلطنت عثمانیہ کی وسعت میں اور اضافہ ہوا۔ اس کے بعد سلطان مراد خان ثانی کا بہت سا وقت البانیہ کا فساد مٹانے میں صرف ہوا لیکن وہ اپنی وفات یعنی ۸۵۵ھ تک اس فساد کا بکلی استیصال نہ کرسکا، البانیہ کے اس فساد کا حال اس طرح ہے کہ صوبہ البانیہ کو اگرچہ ترکوں نے بہت عرصہ پہلے فتح کرلیا تھا مگر اس صوبہ پر وہیں کا قدیم فرماں روا خاندان حکومت کرتا تھا جو ترکوں کا خراج گذار اورہر طرح ماتحت تھا،جان کسٹرائٹ والی البانیہ نے سلطان مراد خان ثانی کے تخت سلطنت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے آپ کو موردِ الطاف سلطانی بنانے کے لئے اپنے چار خوردسال بیٹے سلطان کی خدمت میں اس لئے بھیج دیئے تھے کہ وہ بطور یرغمال سلطان کے پاس رہیں اورسلطان اُن کو اپنی ینگ چری فوج میں داخل کرنے کے لئے تربیت دے،ایڈریانوپل کی تربیت گاہ میں اتفاقا تین چھوٹے لڑکے بیمار ہوکر مرگئے،یہ خبر سُن کر جان کسٹرائٹ والی البانیہ نے اپنے بیٹوں کے اس طرح فوت ہونے کو شبہ کی نظر سے دیکھا اورسلطان کو لکھا کہ میرے بیٹوں کو ممکن ہے کہ کسی میرے دشمن نے زہر دیا ہو،سلطان مراد خان ثانی کو بھی ملال ہوا اورچوتھے لڑکے کو جو سب سے بڑا تھا اورجس کا نام جارج کسٹرائٹ تھا بہ نظر احتیاط کاص اپنے سلطانی محل میں پرورش دینے لگا، سُلطان کو اُس کا بہت خیال رہتا تھا؛چنانچہ اُس کو بطور ایک اسلامی میں پرورش دینے لگا،سُلطان کو اُس کا بہت خیال رہتا تھا؛چنانچہ اُس کو بطور ایک اسلامی بچہ کے شہزادوں کی طرح تربیت دی گئی،جب یہ لڑکا جارج کسٹرائٹ اٹھارہ سال کا ہوگیا تو سلطان نے اس کو ایک فوجی دستہ کی سرداری سپرد کی،اُس نے نہایت ہوشیاری اور خوبی کے ساتھ اپنی مفوضہ خدمات کو انجام دیا، اب وہ ایک پرجوش مسلمان سردار تھا۔ سلطان نے اُس کا نام سکندر بیگ رکھا اور وہ سکندر بیگ اورلارڈ سکندر بے کے نام سے مشہور ہوا،۸۳۶ھ میں اس کے باپ جان کسٹرائٹ کا البانیہ میں انتقال ہوا اُس وقت سکندر بیگ سلطانی خدمات اوربعض اضلاع کی حکومت پر مامور تھا،سلطان نے اس کو باپ کی جگہ فرماں روائے البانیہ مقرر کرنا مناسب نہ سمجھا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ البانیہ کے حاکم کی حیثیت سے بہت زیادہ اطھی ھالت میں تھا،سُلطان کی طرف سے مامور رہتا تھا،سلطان مراد خان ثانی کو کبھی بھول کر بھی اس بات کا خیال نہ آتا تھا کہ سکندر بیگ کسی وقت بغاوت وسرکشی پر بھی آمادہ ہوسکتا ہے،لیکن ۸۴۷ھ میں ترکی فوج کو جب ہنی داس کے مقابلے میں شکست حاصل ہوئی تو سکندر بیگ نے اپنے آبائی ملک البانیہ پر بزور قبضہ کرلینے کا مصمم ارادہ کیا اوریکایک سلطانی میر منشی کے خیمے میں گھس گیا اور اُس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے زبردستی البانیہ کے صوبہ دار کے نام اس مضمون کا فرمان لکھا یا کہ تم سکندر بیگ کو جو سلطان کی طرف سے بطور وائسرائے تمہارے پاس پہنچتا ہے،البانیہ کے دارلسلطنت اورتمام علاقے کا چارج دے دو یہ فرمان لکھا کر اورمہر سلطانی سے بھی مزین کراکر اُس میر منشی کو قتل کردیا اور وہاں سے نکل کر سیدھا البانیہ کے دار السلطنت کی طرف چل دیا تو وہاں کے صوبہ دار نے بلا تامل اُس کو البانیہ کی حکومت سُپرد کردی اور رعایا نے اطاعت قبول کرلی،البانیہ پر اس طرح قابض ہونے کے بعد اُس نے باشندگانِ البانیہ میں اعلان کیا کہ میں دینِ اسلام سے مرتد ہوکر دین عیسیو قبول کرتا ہوں اور آئندہ تمام ترکوشش اس امر میں صرف کروں گا کہ اپنے ملک کو ترکوں کی ماتحتی سے آزاد رکھوں ،اس اعلان کے سنتے ہی عیسائیوں میں عید ہوگئی اور البانیہ کے اندر ترکوں کا قتل عام شروع ہوگیا،جس قدر ترک وہاں موجود تھے عیسائیوں نے سب کو قتل کرڈالا اورسکندر بیگ البانیہ کا خود مختار فرماں روا بن گیا، سکندر بیگ نے چونکہ خاص سلطانی محل میں رہ کر اعلیٰ سے اعلیٰ جنگی تربیت حاصل کی تھی اور سلطانی قرب نے اس کو ذی حوصلہ اور باہمت بنادیا تھا شہزادوں کی طرح رہنے کے سبب وہ ترکوں کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا،خود نہایت ذہین و ذکی اور جری بھی تھا،نیز البانیہ کے پہاڑی ملک ہونے کے سبب وہاں کے راستے بھی چونکہ سخت دشوار گذار تھے اورحملہ آور فوج کا اس ملک میں داخل ہونا آسان کام نہ تھا، ان سب وجوہات نے جمع ہوکر سکندر بیگ کو البانیہ میں فرماں روا بنادیا اُدھر سلطان مرادخان ثانی کو دوسری مصروفیات سے ایسی فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنی مکمل توجہ کے ساتھ اُس کے استیصال پر آمادہ ہوتا، کئی مرتبہ البانیہ پر چڑھائیاں ہوئیں،لیکن سکندر بیگ کی غیر معمولی بہادری اور غیر معمولی قابلیت جنگی کے سبب سلطانی فوجوں کو ناکام واپس آنا پڑا، سکندر بیگ نے البانیہ میں سلطانی فوج کے مقابلے میں ایسی ایسی حیرت انگیز بہادریاں دکھائیں اوراپنے آپ کو ایسا قابل جرنیل ثابت کیا کہ خود ترکوں کی بہادر قوم نے اُس کی بہادری وقابلیتِ جنگی کا اعتراف کیا، سلطان مرادخان ثانی کے عہد حکومت میں وہ مغلوب و اسیر نہ ہوسکا اورالبانیہ کے پہاڑوں نے اُس کی خوب امداد واعانت کی لیکن جب ۸۷۲ھ میں وہ وینس کے علاقے میں جاکر مرگیا تو تُرکی سپاہیوں نے اُس کی قبر کھود کر اس کی ہڈیوں کے ٹکڑوں کو محض اس لئے تلاش کیا کہ اُن کو بطور تعویذ گلے میں ڈالا جائے،تاکہ ویسی ہی بہادری اورجنگی قابلیت اُس کی ہڈیوں کے اثر سے ہم میں پیدا ہوسکے، سلطان مراد نے چونکہ اُس کو بیٹوں کی طرح پرورش کیا تھا اس لئے وہ سکندر بیگ کا قتل یا بربادی نہیں چاہتا تھا اورسلطان کی وفات کے بعد جب سلطان محمد خان ثانی تخت نشین ہوا؛چونکہ وہ بھی سکندر بیگ کو بھائیوں کی طرح عزیز رکھتا تھا، ا س لئےاُس نے سکندر بیگ سے صلح کرکے اُس کو البانیہ کا حاکم تسلیم کرلیا تھا،لیکن سکندر بیگ نے جب پھر بھی بغاوت اختیار کی تو سلطان محمد خان ثانی نے حملہ آور ہوکر البانیہ کو فتح کرلیا اورسکندر ریاست وینس کے علاقے میں چلا گیا جہاں اُس کا ۸۷۲ھ میں انتقال ہوا،اس کے بعد البانیہ سلطنت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ سکندر بیگ کا چونکہ ذکر آگیا تھا اس لئے اُس کو یہیں ختم کردیا گیا،سلطان مراد خان ثانی نے ۸۵۵ھ میں وفات پائی اورلاش بروصہ میں لے جاکر دفن کی گئی،اس سلطان نے تیس سال حکومت کی،اس سلطان کے عہدِ حکومت میں بھی بڑے بڑے عظیمالشان واقعات رونما ہوئے اوربحیثیت مجموعی سلطنت عثمانیہ کی بنیادیں پہلے سے زیادہ استوار ہوگئیں، یہ سلطان بہت نیک دل ،خدا پرست اوررحم دل تھا۔