انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمر کا احتجاج حضرت عمرؓ جیسے صائب الرائے اور صاحب فراست انسان بھی معاہدہ کی اس شرط پر تلملا اٹھے اور حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی یا رسول اﷲ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے، حضرت عمرؓ نے کہاکہ پھر ہم دین کے بارے میں ذلت آمیز رویہ کیوں اختیار کریں؟ اور جب تک کہ ہمارے اور ان کے درمیان میں اﷲ فیصلہ نہ فرمادے ہم کیوں (اس سال) واپس ہوں، اس پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ: اے ابن خطاب: میں اﷲ کا رسول ہوں ، اﷲ مجھ کو برباد نہ کرے گا، حضرت عمرؓ چونکہ (غیرت ایمانی کے باعث) سرتاسر غیظ ہی غیظ تھے صبر کی تاب نہ تھی، حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے اور وہی دونوں سوال کئے اور حضرت ابو بکر ؓ نے وہی دونوں جواب دئیے کہ وہ اﷲ کے رسول ہیں اور اﷲ ان کو ضائع نہیں کرے گا، اس کے بعد (واپسی میں) سورۂ فتح کی آیات نازل ہوئیں اور آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو سنائیں تو حضرت عمر ؓ نے پوچھا … یا رسول اﷲ : کیا یہ واقعی فتح ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ! ہاں ، تب ان کا دل مطمئن ہوا اور لوٹ آئے۔ ( مسلم شریف باب صلح حُدیبیہ ، پیغمبر عالم) صلح حُدیبیہ کا اثر کیا ہوا اور اسلام کے حق میں یہ کھلی ہوئی فتح کیوں کر ثابت ہوئی امام نووی نے اس کے متعلق لکھا ہے : " جب صلح حُدیبیہ ہو گئی اور کفا ر کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط ہوا اور وہ لوگ مدینہ منورہ آئے اور مسلمان مکہ معظمہ گئے اور اپنے اعزہ اور اپنے احباب اور اپنے خیر خواہ لوگوں کے پاس قیام کیا اور ان لوگوں نے رسول اﷲ ﷺ کی جزوی جزوی باتوں کو، آپﷺ کے معجزات کو ، آپﷺ کی نبوت کی کھلی نشانیوں کو ان لوگوں کی زبانی سنا اور آپﷺ کے حسن سیرت اور آپﷺ کے معاملہ کی اچھائی اور بہتری کو معلوم کیا اور بہت سی باتوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ان کے دل ایمان کی طرف مائل ہوگئے اور ان کی ایک خلقت فتح مکہ سے پہلے اسلام کی طرف دوڑ پڑی اور ان لوگوں نے صلح حُدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام قبول کرلیا اور دوسرے لوگوں میں بھی اسلام کی جانب میلان بڑھ چڑھ کر پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب فتح مکہ کا واقعہ ہوا تو سب کے سب اسلام لے آئے، پھر وہ غیر قریشی جو بدویانہ زندگی گزارتے تھے اور اپنے اسلام لانے کے لئے قریش کے اسلام لانے کا انتظار کررہے تھے جب قریش نے اسلام قبول کرلیا تو ان عربوں نے اپنی جگہ پر اپنے بادیہ میں اسلام کا اعلان کردیا۔