انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سنہ۵۸ھ میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فوت ہوکر جنت البقیع میں مدفون ہوئیں، آپ مروان کی مخالفت کیا کرتی تھیں؛ کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہ تھے، مروان نے ایک روز دھوکے سے دعوت کے بہانے سے بلاکر ایک گڑھے میں جس میں ننگی تلواریں اور خنجروغیرہ رکھ دیئے تھے، آپ کوگرادیا تھا، آپ بہت ضعیف اور بوڑھی تھیں، زخمی ہوئیں اور انھیں زخموں کے صدمہ سے فوت ہوگئیں۔ سنہ۵۹ھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ الہٰی میں لڑکوں کی حکومت اور سنہ۶۰ھ سے پناہ مانگتا ہوں، ان کی یہ دُعا قبول ہوئی اور وہ سنہ۶۰ھ سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔ شروع ماہِ رجب سنہ۶۰ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اس بیماری میں جب ان کویقین ہونے لگا کہ اب آخری وقت قریب آگیا ہے توانھوں نے یزید کوبلوایا، یزید اس وقت دمشق سے باہر شکار میں یاکسی مہم پرگیا ہوا تھا، فوراً قاصد روانہ ہوا اور یزید کوبلاکر لایا، یزید حاضر ہوا توانھوں نے اس کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ: اے بیٹے! میری وصیت کوتوجہ سے سن اور میرے سوالوں کا جواب دے، اب خدائے تعالیٰ کا فرمان یعنی میری موت کا وقت قریب آچکا ہے توبتا کہ میرے بعد مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہتا ہے؟ یزید نے جواب دیا کہ: میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کروں گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سنتِ صدیقی پربھی عامل ہونا چاہیے کہ انھوں نے مرتدین سے جنگ کی اور اس حالت میں فوت ہوئے کہ اُمت ان سے خوش تھی۔ یزید نے کہا: نہیں! صرف کتاب اللہ اور سنت رسول کی پیروی کافی ہے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے پھرکہا:اے بیٹے! سیرت عمر کی پیروی کرکہ انھوں نے شہروں کوآباد کیا اور فوج کوقوی کیا اور مالِ غنیمت فوج پرتقسیم کیا۔ یزید نے جواب دیا کہ: نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کافی ہے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: اے بیٹے! سیرتِ عثمان غنی پرعامل ہونا کہ انہوں نے لوگوں کوزندگی میں فائدہ پہنچایا اور سخاوت کی۔ یزید نے کہا کہ: نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہی میرے لیئے کافی ہے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرفرمایا کہ: اے بیٹے! تیری ان باتوں سے مجھ کویقین ہوگیا ہے کہ تومیری باتوں پرعمل درآمد نہ کرےگا، میری وصیت اور نصیحت کے خلاف ہی کرے گا، اے یزید تواس بات پرمغرور نہ ہونا کہ میں نے تجھ کواپنا ولی عہد بنادیا ہے اور تمام مخلوق نے تیری فرمانبرداری کا اقرار کرلیا ہے، عبداللہ بن عمر کی طرف سے توزیادہ اندیشہ نہیں ہے؛ کیونکہ وہ دنیا سے بیزار ہیں، حسین بن علی کواہل عراق ضرور تیرے مقابلے کے لیئے میدان میں نکالیں گے، تواگراُن پرفتح پائے تواُن کوہرگز قتل نہ کرنا اور قرابت ورشتہ داری کا پاس ولحاظ رکھنا، عبداللہ بن زبیر بھی روباہ باز شخص ہیں ان پراگرتوقابوپائے تواُن کوقتل کردینا، مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پرہمیشہ احسان کرنا اور اہل عراق اگرہرروز عامل کے تبدیل کرنے کی فرمائش کریں توہرروز عامل کواُن کی خوشی کے لیئے تبدیل کرتے رہنا، اہلِ شام کوہمیشہ اپنا مددگار سمجھنا اور اُن کی دوستی پربھروسہ کرنا۔ اس کے بعد یزید پھرشکار میں چلاگیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی حالت دم بدم نازک ہوتی گئی، آخرروز جمعرات بتاریخ ۲۲/رجب سنہ۶۰ھ کواس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کی جانب رخصت ہوئے، سترسال کی عمر پائی۔ ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اور ناخن تھے، مرتے وقت انھوں نے وصیت کی تھی کہ یہ بال اور ناخن میرے منھ اور آنکھوں میں رکھ دینا، ضحاک بن قیس نے جنازہ کی نماز پڑھائی، دمشق میں باب جابیہ اور باب صغیر کے درمیان مدفون ہوئے۔