انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۹۲۔ابو العالیہؒ ریاحی نام ونسب رفیع نام،ابو العالیہ کنیت،کنیت ہی سے وہ زیادہ مشہور ہیں،والد کا نام مہران تھا،قبیلہ بنی ریاح کی ایک عورت کے غلام تھے،اس نسبت سے ریاحی کہلاتے ہیں۔ اسلام انہوں نے جاہلیت اوراسلام دونوں کا زمانہ پایا،لیکن عہد نبوی میں شرفِ اسلام سے محروم رہے،آنحضرت ﷺ کی وفات کے دو سال بعد اسلام لائے۔ (ابن سعد:۵/۱۱۵،۱۱۶) آزادی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد عرصہ تک غلامی میں رہے، پھر ان کی مالکہ نے انہیں آزاد کردیا، ان کی آزادی کا واقعہ جس کے متعلق خود ان کا بیان یہ ہے کہ میں ایک عورت کا غلام تھا،جب اس نے مجھے آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے چچیرے بھائیوں نے روکا کہ اگر اس کو آزاد کردوگی تو وہ کوفہ جاکر بالکل مفقود االخبر ہو جائے گا؛ لیکن وہ آزاد کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی،اس لیے ایک جمعہ کو میرے پاس آئی اور مجھ سے پوچھ کر جامع مسجد کی طرف چلی میں بھی ساتھ ہولیا،مسجد پہنچنے کے بعد امام نے ہم کو منبر پر کھڑا کردیا،عورت نے میرا ہاتھ پکڑ کر ان الفاظ میں میری آزادی کا اعلان کیا،خدایا میں تیرے پاس اس کو (آخرت کے لیے ) جمع کرتی ہوں، مسجد والوگواہ رہنا، یہ غلام خدا کے لیے آزاد ہے،آیندہ حقِ معرفت کے علاوہ اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے یہ کہہ کر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی، اس کے بعد پھر وہ نہیں دکھائی دی۔ (ابن سعد،ج ۷، ق اول،ص ۸۱،آزادی کا واقعہ دور روایتوں میں ہے، ہم نے دونوں کا خلاصہ لے لیا ہے) فضل وکمال علمی اعتبار سے ممتاز تابعین میں تھے، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ کبار تابعین میں تھے،ابوالقاسم طبری کا بیان ہے کہ ان کی توثیق پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۲۵۱) قرآن ان کا خاص موضوع کتاب اللہ تھا، قرآن کی تعلیم انہوں نے مشہور عالم قرآن حضرت ابی بن کعبؓ سے حاصل کی تھی،اس کا آغاز غلامی ہی کے زمانہ سے ہوگیا تھا،ان کا خود بیان ہے کہ میں غلام تھا، اپنے اہل کی خدمت کرتا تھا اورقرآن اور عربی کی کتاب سیکھتا تھا۔(ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص۸۲)لیکن باضابطہ تعلیم قبول اسلام کے ساتھ آٹھ سال کےبعد جب کہ وہ بڑی عمر کو پہنچ گئے تھے شروع کی تھی (ایضاً:۸۱) اوراس شوق اورمحنت سے حاصل کی کہ جماعتِ تابعین میں قرآن کے سب سے بڑے عالم بن گئے، ابوبکر ابن داؤد کا بیان ہے کہ صحابہ کے بعدان سے بڑھ کر عالمِ قرآن کوئی نہ تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۳)ابن عماد حنبلی ان کو مفسر لکھتے ہیں۔ (شذرات الذہب:۱/۱۰۲) حدیث حدیث میں علامہ ابن سعد انہیں کثیر الحدیث لکھتے ہیں (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۸۵)حضرت علیؓ،عبداللہ بن مسعودؓ،ابو موسیٰ اشعریؓ،ابوایوب انصاریؓ،ابی بن کعبؓ،ثوبانؓ،حذیفہؓ،ابن عباسؓ، ابن عمرؓ، رافع بن خدیجؓ،ابو سعید خدریؓ، ابوہریرہؓ، ابوبردہؓ،انس بن مالکؓ،ابوذر غفاریؓ جیسے اکابر صحابہ سے انہوں نے حدیث میں فیض اٹھایا تھا۔ (ابن سعد،۷،ق اول،ص۸۲) اخذ حدیث میں احتیاط حدیث لینے میں وہ بڑے محتاط تھے،جب تک اصل راوی کی زبان سے سُن نہ لیتے تھے،اس وقت تک کسی دوسرے کے بیان پر اعتماد نہ کرتے تھے؛چنانچہ کہتے تھے کہ ہم لوگ بصرہ میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی روایات سنتےتھے، مگر اس وقت تک ان پر اعتماد نہ کرتے تھے،جب تک مدینہ جاکر خود ان کی زبان سے نہ سُن لیتے تھے۔ (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۸۲) تلامذہ ان سے فیض اٹھانے والوں میں خالد الخداء،داؤد بن ابی ہند محمد بن ابی ہند محمد بن سیرین یوسف بن عبداللہ،ربیع بن انس، بکر المزنی،ثابت النبانی،حمید بن ہلال،قتادہ اورمنصور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۳/۲۸۴) فقہ گو فقہ میں ان کا کوئی خاص پایہ نہ تھا تاہم بصرہ کے فقہاء میں ان کا شمار تھا حافظ ذہبی انہیں فقیہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۳) صحابہ میں منزلت اگرچہ ابوالعالیہ غلام رہ چکے تھے،لیکن ان کےعلمی کمالات کی بنا پر بڑے بڑے صحابہ ان کی عزت کرتے تھے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اتنی عزت کرتے تھے کہ ابو العالیہ جب ان کے پاس جاتے تو ابن عباسؓ ان کو اونچے مقام پر بٹھا تے اور معززین قریش ان کے نیچے ہوتے، اس اعزاز سےبٹھانے کے بعد فرماتے علم اسی طرح شریف کے شرف میں اضافہ کرتا ہے اور ملوک کو تخت پر بٹھاتا ہے۔ (ایضاً) ایک مرتبہ وہ ابن عباسؓ کی ولایتِ بصرہ کے زمانہ میں ان کے پاس گئے، ابن عباسؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا،یہ عزت افزائی دیکھ کر ایک تمیمی سے نہ رہا گیا،وہ بول اٹھا یہ غلام ہیں ۔ (ابن سعد،ج ۷،ق اول،ص۸۲) عبادت ابوالعالیہ میں اس علم کے ساتھ اسی درجہ کا عمل بھی تھا،بڑے خوش اوقات اور عبادت گزار تھے،شب بیداری اورتلاوت قرآن کا خاص ذوق تھا،ایک زمانہ میں وہ رات بھر نمازیں پڑھتے تھے اورایک شب میں پورا قرآن ختم کردیتے تھے،لیکن اس عبادتِ شاقہ پر مداومت نہ کرسکے، ان کا بیان ہے کہ ہم چند غلام تھے،ان میں سے بعض ٹیکس ادا کرتے تھے اوربعض خدمت کرتے تھے،ہم سب رات بھر جاگ کر ایک شب میں پورا قرآن ختم کرتے لیکن جب یہ گراں گزرنے لگا،تو پھر دوراتوں میں ختم کرنے لگے،جب یہ بھی نہ نبھ سکا تو تین راتوں میں ختم کرنے لگے، لیکن اتنا بھی نہ ہوسکا، اورایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے تو ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے ملے، انہوں نے کہا ایک ہفتہ میں ختم کیا کرو،ان کی ہدایت کے بعد ہم لوگ نمازیں پڑھنے کے ساتھ سونے بھی لگے،اس وقت وہ بار جاتا رہا۔ (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۸۱) رہبانیت سے اجتناب لیکن اس عبادت وریاضت کے ساتھ رہبانیت سے اتنا احتراز تھا کہ راہبانہ لباس تک پسند نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ ابو امیہ عبدالکریم ان سے ملنے کے لیے آئے ابو امیہ کے بدن پر صوف کے کپڑے تھے،ان کو دیکھ کر ابو العالیہ نے کہا یہ راہبوں کا لباس وطریقہ ہے،مسلمان جب آپس میں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تو اچھے لباس میں جاتے ہیں۔ (ایضاً:۸۳) ریاء سے احتراض عمل خیر کا اظہار نہایت بُرا سمجھتے تھے اورایسے شخص کو ریا کار سمجھتے تھے ابو مخلد کا بیان ہے کہ ابو العالیہ کہتے تھے کہ جب تم کسی شخص کو یہ کہتے سنو کہ میں خدا کے لیے دوستی اورخدا کے لیے دشمنی کرتا ہوں تو اس کی تقلید نہ کرو۔ (ایضاً) انفاق فی سبیل اللہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بڑے فیاض تھے،انہوں نے اپنا کل مال یا اس کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں امورِ خیر کے لیے وقف کردیا تھا،ابن سعد کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں "فاوصی ابوالعالیۃ یما لہ کلہ" (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص ۸۱) دوسری روایت میں ہے کہ ابو العالیہ نے کہا کہ میں نے سونے اور چاندی میں جو کچھ بھی چھوڑا ہے،اس کا ایک تہائی خدا کی راہ کے لیے ہے، ایک تہائی اہل بیت رسول اللہ ﷺ کے لیے اورایک تہائی غریب مسلمانوں کے لیے ،البتہ اس میں سے میری بیوی کا حق تم لوگ دینا۔ (ایضا) غلاموں کی آزادی غلاموں کو لوجہ اللہ آزاد کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک غلام کو آزاد کیا اس کی آزادی نامے پر یہ الفاظ تھے، ایک مسلمان نے ایک جوان غلام کو بطور رسائبہ کے لوجہ اللہ آزادکیا، نیک کام لینے کے علاوہ اس پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ (ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۸۲) زکوٰۃ وصدقات زکوٰۃ نہایت پابندی سے ادا کرتے تھے اوراس کو تقسیم کرنے کے لیے مدینہ پہنچتے تھے،ابو خلدہ کا بیان ہے کہ ابو العالیہ اپنے مال کی زکوٰۃ اس کے مصارف میں صرف کرنے کے لیے اہل بیت نبویﷺ کے پاس مدینہ بھیجتےتھے۔ (ایضاً:۸۴) خانہ جنگی سے اجتناب ابو العالیہ بڑے بہادر اورجنگ آزماتھے،لیکن ان کی بہادری مسلمانوں کے مقابلہ میں نہ صرف ہوتی تھی،ان کے زمانہ میں صفین وغیرہ کی بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں جن سے بہت کم مسلمان بچ سکے یہ بھی زورآزمائی کے شوق میں نکلے،لیکن پھر میدان جنگ سے پلٹ آئے،ابوخلدہ کا بیان ہے کہ ابو العالیہ کہتے تھے کہ علیؓ اور معاویہؓ کی جنگ کے زمانہ میں میں جوان تھا،جنگ میرے لیے لذیذ کھانوں سے زیادہ مرغوب تھی اس لیے میں بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچا اورایسی عظیم الشان فوجیں دیکھیں جن کے سر نظر نہ آتے تھے،ان میں سے جب ایک فریق تکبیر وتہلیل کرتا تھا، تو دوسرا بھی کرتا تھا میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ میں کس فریق کو مومن سمجھوں اورکس کو کافر اورکس کا ساتھ دوں،کسی نے مجھے مجبور توکیا نہیں ہے ،یہ سوچنے کے بعد شا م بھی نہ ہونے پائی تھی کہ لوٹ آیا۔ (ایضاً) مشتبہات سے اجتناب مشتبہ چیزوں سے اتنی احتیاط کرتے تھے کہ ان پیشہ وروں اورعہدہ داروں کے یہاں جن کی کمائی میں کچھ بھی مشتبہ مال کا احتمال ہوتا تھا پانی تک نہ پیتے تھے ؛چنانچہ صراف اورعشار (عشر وصول کرنے والے) کے یہاں پانی نہ پیتے تھے، ابو خلدہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں ابو العالیہ کے پاس گیا، وہ کھانا لائے،اس میں ترکاری بھی تھی،اس کے متعلق انہوں نے کہا یہ وہ ترکاری نہیں ہے،جس میں کسی شے کا احتمال ہو،یہ میرے بھائی انس بن مالکؓ نے اپنے باغ سے بھیجی ہے،میں نے کہا ترکاری میں کیا ہوتا ہے،فرمایا وہ ہمیشہ گندے اوربرے مقامات پر اگتی ہے،جہاں پیشاب اورنجس چتھڑے ہوتے ہیں۔ (ابن سعد،جلد۷،ق اول،ص۸۲) بے تکلفی طبعاً نہایت سادہ مزاج اوربے تکلف تھے،اپنے لیے کسی قسم کا اہتمام پسند نہ تھا،جہاں جاتے تھے صاحب خانہ سےپہلے ہی کہہ دیتے تھے کہ گھر میں جو کچھ موجود ہے وہی لانا بازار وغیرہ سے کوئی شے نہ خریدنا۔ (ایضاً) وفات بروایت صحیح ۵۳ھ میں وفات پائی۔ (شذرات الذہب:۱/۱۰۲)