انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سفینہؓ نام ونسب سفینہ کے نام میں بڑا اختلاف ہے، بعض مہران ،بعض رومان اور بعض عبس بتاتے ہیں، ابو عبدالرحمن کنیت اورسفینہ رسول اللہ ﷺ کا عطا کردہ لقب ہے ،نسب کے لیے یہ شرف کافی ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺ کے غلام تھے۔ اسلام سفینہ کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جاسکتا، لیکن قیاس یہ ہے کہ بہت ابتدا میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے، اس لیے کہ باختلافِ روایت حضرت ام سلمہؓ یا آنحضرتﷺ کے غلام تھے اورخود حضور نے بلا شرط یا حضرت ام سلمہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت گذاری کی شرط پر آزاد کردیا تھا۔ (اسد الغابہ:۲/۳۲۴) چنانچہ آزادی کے بعد آنحضرتﷺ کی خدمت گذاری میں رہتے تھے،اس لیے سفر میں بھی مشایعت کا شرف حاصل ہوتا تھا، ایک مرتبہ کسی سفر میں ہمرکاب تھے ،راستہ میں جو جو ہمراہی تھکتے جاتے تھے وہ اپنے اسلحہ ڈھال، تلوار اورنیزہ وغیرہ ان پر لادتے جاتےتھے، اس لیے ان پر بڑا بار لدگیا، آنحضرتﷺنے دیکھ کر فرمایا تم ،سفینہ، کشتی ہو، اس وقت سے سفینہ ان کا لقب ہوگیا یہ بھی اس لقب کو اس قدر محبوب رکھتے تھے کہ اس کے مقابلہ میں اپنا نام چھوڑدیا تھا، اسی لیے انکا صحیح نام متعین نہیں، اگر کوئی نام پوچھتا تو کہتے نہ بتاؤنگا،حضورﷺ نے سفینہ نام رکھا ہے اوریہ میرے لیے بس ہے(اسد الغابہ:۲/۳۲۴،واستیعاب:۲/۶۰۱) حدیث الخلافة في أمتي ثلاثون سنةً ثم ملك بعد ذلك خلافت میری امت میں تیس برس رہے گی، اس کے بعد بادشاہ ہوں گے۔ ان ہی سے مروی ہے،یہ بنی امیہ کے زمانہ تک زندہ تھے،مذکورہ بالا روایت کو پیش نظر رکھ کر حساب لگاتے جاتے تھے، خلافت راشدہ کے اختتام پر یہ مدت پوری ہوجاتی ہے،لیکن بنی امیہ بھی اپنے کو خلیفہ ہی کہتے تھے،سعید بن جمہان نے سفینہ سے کہا کہ بنی امیہ بھی اپنے کو خلیفہ کہتے ہیں، انہوں نے کہا زرقاء کی اولاد جھوٹ کہتی ہے، یہ لوگ بادشاہ اوربُرے بادشاہ ہیں۔ (اسد الغابہ:۲/۳۲۴) وفات حجاج کے زمانہ میں وفات پائی۔ (استیعاب:۲/۶۰۱) فضل وکمال سفینہ حضورﷺ کے غلام تھے ،خدمت کی تقریب سے پیشتر حضوری کا شرف اورآپ کے ارشادات سننے کا موقع ملتا تھا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ ،آپ کے علاوہ حضرت ام سلمہؓ اورحضرت علیؓ سے روایتیں کی ہیں، ان کی روایات کی مجموعی تعداد ۱۴ ہے ،ان میں سے ایک مسلم میں بھی ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۶۲)