انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ریحانہ نام ونسب ریحانہ نام، باپ کا نام شمعون یازید تھا (میرے خیال میں ریحانہ بنتِ شمعون ہی آپ کا صحیح سلسلۂ نسب ہے، اس لیے کہ ان کے والد کا شمار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ہے، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں آپ کا سلسلۂ نسب شمعون بن زید لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے؛ اسی لیے جس سلسلہ میں شمعون کا نام کئی ناموں کے بعد ہے، وہ صحیح نہیں ہے) باختلافِ روایت سلسلۂ نسب یہ ہے: ریحانہ بنتِ شمعون بنتِ زید، بعض روایتوں میں ریحانہ بنت زید بن عمر بن جنافہ بن شمعون ابن زید ہے، قبیلہ بنوقریظہ سے تھیں (بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ بنونضیر سے تھیں؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے؛ جیسا کہ حضرت شمعون رضی اللہ عنہ کے حالات میں تفصیل آچکی ہے، حافظ ابن عبدالبر نے شمعون کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ قرظی تھے اور انصار، خزرج کے حلیف تھے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ اسی طرح بنونضیر سے بھی ان کے عزیزانہ تعلقات رہے ہوں)۔ نکاح پہلے بنوقریظہ کے ایک شخص حکم سے نکاح ہوا تھا، غزوۂ بنوقریظہ کے دن دوسرے یہودیوں کے ساتھ حکم بھی قتل کردیا گیا، اس روز جوعورتیں اور بچے اسیر ہوکر آتے تھے ان ہی میں حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہابھی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بڑی احتیاط کے ساتھ ام المنذر بنتِ قیس کے گھر میں ٹھہرایا۔ (ابنِ سعد) اسلام ان سے فرمایا تمھیں اختیار ہے چاہے اسلام قبول کرلو یااپنے مذہب (یہودیت) پرقائم رہو؛ انھوں نے اپنے قدیم دین پررہنا پسند کیا؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواُن کے اسلام نہ لانے کا بڑا رنج ہوا اور دوبارہ فرمایا: اگرتم اسلام قبول کرلو تومیں تمھیں اپنے پاس رکھوں گا؛ لیکن انھوں نے پھرانکار کیا، یہ مزاجِ اقدس پراور زیادہ گراں گزرا اور خاموشی اختیار فرمالی گئی، ایک دن آپ مجلس میں تشریف فرماتھے کہ یکا یک ایک شخص کے پیر کی چاپ سنائی دی، آپ نے فرطِ مسرت سے تمام حاضرین سے فرمایا کہ یہ ثعلبہ بن سعید ہیں، جوریحانہ کے اسلام لانے کی خوشخبری لے کرآرہے ہیں (ان کے اسلام کے سلسلہ میں پہلی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ ثعلبہ بن سعید کے ذکر میں تمام اہلِ رجال نے اس روایت کا ذکر کیا ہے)۔ (ابنِ سعد:۸/۹۳) دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے اُن سے فرمایا اگرتم اللہ اور رسول (اسلام) کواختیار کرتی ہوتو میں تمھیں اپنے لیے خاص کرلونگا، اس پرحضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں! میں اللہ اور اس کے رسول کواختیار کرتی ہوں۔ (ابن سعد:۸/۹۳) ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں انھوں نے اسلام قبول کرنا اپنی قدیم دینی اور قومی حمیت کے خلاف سمجھا ہو اور بعد میں جب اس کی خوبیوں سے واقف ہوگئی توقبول کرلیا ہو، قبولِ اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک میں رکھا اور بعض روایتوں کے مطابق آپ نے انھیں آزاد کرکے اپنے حبالۂ عقد میں لے لیا اور وہ ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں۔ (ابن سعد:۸/۹۳) ابن سعد اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے انھیں ازواجِ مطہرات میں اور اکثر اہلِ سیر اور اہلِ رجال نے انھیں سراری میں شمار کیا ہے؛ لیکن ابنِ اسحاق کی ایک روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان سے نکاح نہیں کیا تھا؛ بلکہ انھیں یہ اختیار بخشا تھا کہ اگروہ چاہیں توآپ ان سے نکاح فرمالیں اور انھیں ازواجِ مطہرات میں شامل کرلیں؛ لیکن انھوں نے فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ اپنی ملک ہی میں رکھیں تومیرے اور آپ دونوں کے لیے آسانی ہو؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک ہی میں رکھا۔ (اصابہ:۴/۳۰۹) وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے چند مہینے پہلے ہی اس دارِ فانی کوچھوڑ کرداربقاء میں پہنچ گئیں (بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کی وفات کے چھ مہینے پہلے آپ کا انتقال ہوا اوربعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد آپ کی وفات ہوئی)۔ (اصابہ:۴/۳۰۹) تدفین جنۃ البقیع میں سپردِ خاک کی گئیں۔ (اصابہ:۴/۳۰۹) حلیہ خدائے تعالیٰ نے حسنِ صورت اور حسنِ سیرت دونوں سے نوازا تھا۔ (ابن سعد:۸/۹۳) قیام گاہ ابتداء میں ام المنذر کے مکان میں ٹھہرائی گئیں، اس کے بعد غالباً دارِقیس بن فہد مستقل قیام گاہ رہی اور وہیں وفات پائی۔ (اصابہ:۴/۳۰۹) فضائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے بڑی محبت تھی، جب وہ کوئی فرمائش کرتی تھیں توآپ ضرور پوری کرتے تھے، ابنِ سعد میں ہے کہ ازواجِ مطہرات کی طرح ان کی بھی باری کا دن مقرر تھا اور باپردہ رہتی تھیں۔ (ابن سعد:۸/۹۳)