انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت کعب ؓ بن زہیر نام ونسب کعب نام، باپ کا نام زبیر تھا، نسب نامہ یہ ہے، کعب بن زبیر بن ابی سلمیٰ بن رباح بن قرط بن حارث بن مازن بن حلاوہ بن ثعلبہ بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان ابن عمرو بن ادبن طانجہ مزنی اسلام کعب دو بھائی تھے، کعب اور بجیر ان کے باپ زبیر جاہلیت کے مشاہیر شعراء میں تھے، اس لیے شاعری ان دونوں کو وراثۃ ملی تھی۔ ظہور اسلام کے بعد آنحضرتﷺ کا شہرہ سن کر دونوں کو آپ سے ملنے اورآپ کی باتیں سننے کی خواہش ہوئی؛چنانچہ دونوں بھائی ملنے کے لیے چلے، مقام ابرق الغراف پہنچ کر بجیر نے کعب سے کہا تم بکریاں لیے ہوئے یہیں ٹھہرے رہو، میں اس شخص کے پاس جاکر سنوں کیا کہتا ہے؟ چنانچہ کعب کو چھوڑ کر خود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اسلام پیش کیا ،دل میں عناد و سرکشی کا مادہ نہ تھا، اسی وقت مشرف باسلام ہوگئے، کعب کو ان کے اسلام کی خبر ہوئی تو انہوں نے جوشِ انتقام میں آنحضرتﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کی شان میں گستاخانہ اشعار کہہ ڈالے،آنحضرتﷺ نے یہ اشعار سنے تو آپ کو بڑی تکلیف پہنچی اورآپ نے اعلان کردیا کہ کعب جہاں ملے اس کا کام تمام کردیا جائے۔ بجیر اس اعلان سے بہت گھبرائے اورکعب کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہارا خون ہدر کردیا ہے،اب تمہارے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ تم اسلام قبول کرلو، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو شخص بھی آکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہدیتا ہے آپ اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں، اس لیے میرا خط پاتے ہی تم بلاتا خیر مشرف باسلام ہوجاؤ، کعب کو بھی اس کے سوا بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی، اس لیے وہ خط پاتے ہی سیدھے مدینہ پہنچے اورمسجدنبوی میں داخل ہوئے، اس وقت رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے حلقہ میں تشریف فرما ان سے گفتگو فرمارہے تھے کعب نے آپ کو دیکھا نہ تھا، قیاس وقرینہ سے پہچان کر آپ کے پاس آکر بیٹھ گئے اوراشہدان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ کہہ کر امان کے طالب ہوئے،آپ نے پوچھا تم کون ہو،عرض کیا کعب بن زہیر،فرمایا تم ہی نے وہ اشعار کہے تھے،پھر حضرت ابوبکرؓ سے استفسار فرمایا،ابوبکر وہ کون اشعار ہیں،حضرت ابوبکرؓ نے سنایا: سقاک ابوبکر بکاس رویۃ وانھلک المامور منھا وعلکا تم کو ابوبکرؓ نے ایک لبریز پیالہ پلایا اوراس میں سب سے زیادہ لبریز پیالہ سے بار بار سیراب کیا کعب نے کہا یا رسول اللہ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا،فرمایا پھر کس طرح انہوں نے "مامور" کے لفظ کو "مامون" کے لفظ سے بدل کر سنادیا،رحمتِ عالمﷺ کے دربار میں اس قدر اظہار ندامت کافی تھا، آپ نے کعب کی گذشتہ خطاؤں سے درگذر فرمایا اور ارشاد ہوا ،تم مامون ہو،پھر کعب نے اپنا مشہور و معروف قصیدہ بانت سعاد سنایا،جو اسی وقت کے لیے کہہ کر لائے تھے۔ یہ قصیدہ بہت طویل ہے،مطلع اور تشبیب کے بعض اشعار یہ ہیں: بانت سعاد فقلبی الیوم مبتول ستیم اثرھا لم یفریکبول ترجمہ: سعاد نے داغ فارقت دیا، جس سے میرا دل اس کے جانے کے بعد پریشان اوراسیر ہے ما سعاد عذاۃ البین اذ ظمعنوا الا اغن عضیض الطرف کمحول ترجمہ: جب وہ مسکراتی ہے تو تاریک رات کے بادلوں کو چھانٹ دیتی ہے،گویا اس کے لب دندان ایک چشمہ ہیں،جو شراب کے پیالہ سے لبریز ہیں۔ قصیدہ سناتے سناتے جب ان اشعار پر پہنچے ان الرسول،لیف لیتضاربہ مہند من سیوف اللہ مسلول ترجمہ: رسول اللہ اللہ کی ایسی کھینچی ہوئی ہندی تلوار ہیں،جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ انبٔت ان رسول اللہ اوعدنی والعقو عندرسول اللہ امول ترجمہ: مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ نے مجھے دھمکی دی ہے درآنحالیکہ رسول اللہ کے پاس عفو کی امید کیجاتی ہے۔ فی تیتر من قریش قال قائلھم ببطن مکتہ لما اسلموان ولوا ترجمہ:وہ قریش کے ایسے جوانوں میں ہیں کہ بطن مکہ میں جبکہ لوگ اسلام لائے تو ان کے کہنے والوں نے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کرام کو توجہ سے سننے کے لیے اشارہ فرمایا اس حسنِ تلافی سے کعب نے رضائے نبویﷺ اورشہرتِ دوام کا خلعت حاصل کیا،آنحضرتﷺ نے خوش ہوکر ردائے مبارک عطا فرمائی،امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں یہ چادر کعب کی اولاد سے بیش قرار رقم پر خریدی ،اسی چادر کو خلفاء عید میں اوڑھ کر نکلتے تھے۔ (اصابہ:۵/۳۰۲)