انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پہلی مثال "مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ"۔ (مسلم،باب ذکرکونہ صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:۴۲۳۹) "(وفی روایۃ)فَجَعَلَ النَّاسُ يُطِيفُونَ بِهِ يَقُولُونَ مَارَأَيْنَا بُنْيَانًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِلَّا هَذِهِ اللَّبِنَةَ فَكُنْتُ أَنَاتِلْكَ اللَّبِنَةَ"۔ (مسلم،باب ذکر کونہﷺ :حدیث نمبر:۴۲۳۷) ترجمہ: میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اوراس کو بہت آراستہ و پیراستہ کیا؛مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی لوگ اسے دیکھنے آتے رہے اور خوش ہوتے رہے اور کہتے کہ یہ اینٹ کی جگہ کیوں خالی رہی، آپؐ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں (جس سے اس قصرنبوت کی تکمیل ہوئی) اورمیں ہوں نبیوں کو ختم کرنے والا (خاتم النبیین)۔ اس مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر نبوت کے دو مرحلے ذکر فرمائے ۔ (۱)بنی بنیانا (اس کی تعمیر) (۲)فاحسنہ واجملہ (اس کی تحسین وتجمیل)۔ عمارات انہی دو مرحلوں سے گزرتی ہیں،پہلے مکان بناتا ہے پھر اس کی تحسین و تجمیل Decorationہوتی ہے،یہ وال پیپر کی صورت میں ہو یا سفیدی کی صورت میں، یہ مرحلہ مکان بننے کے بعد عمل میں آتا ہےاور اسی پر مکان کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس مثال میں واضح ہے کہ قصر نبوت کی ہر پہلو سے تکمیل ہوئی ہے،تشریعی پہلو سے بھی اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور غیر تشریعی نبوتوں کی تحسین و تجمیل ہوچکی، نبوت کا محل ما سوائے ایک اینٹ کے ہر پہلو سے مکمل تھا، خالی اینٹ کی جگہ آپ نے پرکی، فرمایا: ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی وہ میرے آنے سے پر ہوگئی، یہ آخری اینٹ اپنی ذات میں ہر پہلو سے کامل اور مکمل ہے؛ کسی مزید تجمیل کی محتاج نہیں اورحضورﷺ قصر نبوت کے کامل طورپر مکمل (اسے تکمیل بخشنے والے) ہیں،آپ نے جس مثال سے اپنے پر نبوت کاختم ہونا بیان کیا ہے،یہ ہر نبوت کے ختم کا بیان ہے۔ جو نبوتیں نئی شریعت لاتی ہیں ان سے قصر نبوت کی تعمیر ہوتی ہے اور جو غیر تشریعی انبیاء ان شرائع پر لوگوں کو چلاتے ہیں،ان سے ان شرائع کی تحسین و تجمیل ہوتی ہے، وہ سابقہ تشریعی نبوت کا آلہ کار ہوتے ہیں،ان کے وجود سے اس سابقہ نبوت کا فیضان آگے پھیلتا ہے،آنحضرتﷺ نے اس مثال میں نبوت کے دونوں سلسلوں کو لپیٹ لیاکہ اب آپ کے بعد کوئی تشریعی نبی یا غیر تشریعی نبی جو پچھلے فیضان کو آگے لے کر چلے ہرگز پیدا نہ ہوگا۔ آپ خاتم النبین ہیں اور آپ پرہر پہلو سے نبوت ختم ہوچکی،آپ یہاں بندوں پر خدا کی آخری حجت ہیں، آپﷺ کے بعد کسی سلسلہ وحی کا آغاز نہیں۔ غیر تشریعی نبی بھی اپنے وقت میں خداکی حجت ہوتا ہے اوراس پر وحی بھی آتی ہے، جب یہ حجت ہی ختم ہوگئی، حضورﷺ ہی اللہ کے بندوں پر آخری حجت ٹھہرے اورسلسلہ وحی ہی منقطع ہوگیا تو اس یقین سے چارہ نہیں کہ اب آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی کبھی پیدا نہ ہوگا، آنحضرتﷺ نے اس مثال میں ختم نبوت کو کس وضاحت سے پیش کیا ہے؟اسے مشہور محدث قاضی ابو محمد الحسن (۳۶۰ھ) کے الفاظ میں سنیے: "قال أبو محمد هذا مثل نبوته صلى الله عليه و سلم وأنه خاتم الأنبياء وبه تتم حجة الله عز و جل على خلقه ومثل ذلك بالبنيان الذي يشد بعضه بعضا وهو ناقص الكمال بنقصان بعضه فأكمل الله به دینه وختم به وحيه"۔ (امثال الحدیث، باب اول الکتاب:۱/۱۰) ترجمہ: میں کہتا ہوں یہ آپﷺ کی مثال ہے اورآپﷺ بے شک خاتم النبیین ہیں اورآپﷺ کی ذات سے اللہ عزوجل کی حجت بندوں پر تمام ہوئی (آپﷺ کے بعد کوئی حجۃ اللہ نہیں) اورمثال اسے ایک تعمیر سے دی گئی ہے، جس کے اجزاء ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں کچھ بھی کمی ہو تو اس تعمیر کی تکمیل نہیں ہوتی، اللہ نے آپﷺ کے ذریعہ اپنے دین کو مکمل کیا اورآپﷺ پر سلسلہ وحی ہی ختم کردیا۔