انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کی علمی راہ حضورﷺ کے صحابہ نے فقہ و اجتہاد کی راہ سے اسلامی تعلیمات کے دریا بہائے اور اجتہاد کے اسی چشمہ صافی سے لاکھوں کو سیراب کیا، ہر پیش آمدہ ضرورت پر ان کے اہل الرائے حضرات نے اپنی رائے پیش کی، سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) نے ہدایت فرمائی۔ "فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ"۔ (سنن نسائی،باب الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۵۳۰۲) ترجمہ: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آئے تو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے؛ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اگر وہ فیصلہ کتاب و سنت میں نہ ملے تو پھر بزرگوں (اکابر صحابہ کرامؓ) کے فیصلوں کو لیا جائے اور اگر کوئی ایسا معاملہ آجائے جو ان بزرگوں کے فیصلوں میں بھی نہ ملے تو (اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا) اپنی علمی رائے سے اجتہاد کرے۔ چنانچہ ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ (۶۸ھ) قرآن و حدیث کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فیصلوں سے ہی فتویٰ دیتے تھے (منہاج السنۃ:۳/۲۱۳) اگر وہاں بھی نہ ملتا پھر اجتہاد کرتے (سنن دارمی :۳۴) اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کی جامعیت امور کلیہ میں ہیں اور انہی کلیات میں سے ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازمی کی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کلیدی احادیث آئندہ رہنمائی کے لیے صحابہ کو پیش کرتی ہیں اور ضرورت آمدہ پر اجتہاد کی راہیں کھولتی ہیں اور یہ ساری شاہراہ قرآن پاک کے چشمہ فیض سے ہی مستفیض اوراسی منبع نور سے مستنیر ہے،حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) فرماتے ہیں: "انزل اللہ کتابہ وترک فیہ موضعا لسنۃ نبیہ وسن نبیہ السنن وترک فیہ موضعا للرای والقیاس"۔ ترجمہ: اللہ تعالی نے قرآن نازل فرمایا اوراس میں اپنے نبی کی سنت کے لیے جگہ رہنے دی اور حضور نے سنن قائم کیں اوران میں رائے اور اجتہاد کے لیے گنجائش رکھی۔ امام مالکؒ کے ساتھ ساتھ امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کی رائے بھی سن لیجئے: "جمیع ما تقول الائمۃ شرح للسنۃ و جمیع السنۃ شرح للقران"۔ (الاتقان للسیوطی، النوع الخامس والستون، فی علوم المستنبطۃ:۴/۲۸) ترجمہ: ائمہ کرام جو کچھ کہتے ہیں وہ سنت کا بیان ہے اور ساری سنت قرآن پاک کی تشریح ہے۔ جامعیت قرآن کے سلسلے میں یہ ایک سوال کا جواب تھا، اصل موضوع زیر بحث نہ تھا کہ قرآن پاک کے احکامات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جب تک قرآن پاک کے ساتھ کوئی اور جزو لازم اور علم کا ماخذآگے نہ لایا جائے ان احکامات پر عمل نہیں ہوسکتا۔