انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث واٰثار سے دلائل قرآن پاک کے بعد ہم احادیث پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھاد کے بارے میں ان سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے: ۱۔ (حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میراث کے ایک معاملے میں دو حضرات کا اختلاف ہوا، دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لیکن دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، صرف دعوی ہی دعوی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے دعوے سننے کے بعد فرمایا کہ میں بھی انسان ہوں، اور تم لوگ میرے پاس مقدمہ لیکر آئے ہو، ممکن ہے کہ ایک فریق اپنی چرب زبانی سے دوسرے فریق پر غالب آجائے، اور اس کے بیان پر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اگر واقع میں حق اس کو ملنا نہیں تھا بلکہ اس کے مدمقابل کا حق تھا تو میرے فیصلہ کے باوجود اس کو لینا درست نہیں ہے، اور اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ میں اسے جہنم کی آگ دے رہاہوں۔ یہ سن کر دونوں حضرات رونے لگے اور ہرایک دوسرے کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے کہا کہ جب ہرایک نے دستبرداری اختیار کرلی تو اسے آپس میں تقسیم کرلو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنما أقضِی بَیْنَکُمْ بِرَأْیِی فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ عَلَیَّ فِیہِ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۳۱۱۲) جس امرکے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے منبرپر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "یَاأِیَّہَاالنَّاسُ اِنَّ الرَّأیَ إِنَّمَاکَانَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ مُصِیْبًالِأِنَّ اللّٰہَ کَانَ یُرِیْہِ وَإِنَّمَاہُوَمِنَّاالظَّنَّ وَالتَّکَلَّفُ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۳۱۱۳) اے لوگو! صحیح رائے تو درحقیقت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتی تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو رہنمائی ملتی تھی اور ہم لوگوں کی رائے تو ظن وتخمین اور تکلف پرمبنی ہواکرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی اس وضاحت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتھاد سے کام لیا کرتے تھے۔