انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عمل انسان کے ذمہ ہے پھر کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین و تعلیم اورآپ کا عمل دو الگ الگ چیزیں تھیں نہیں، ہرگز نہیں یہ دونوں تو ایک دوسرے کی تائید کرنے والے تھے،اور اس طرح ایک دوسرے کی تصدیق کرتی تھیں کہ۔ "اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ"۔ (بخاری، باب فسنیسرہ للعسری، حدیث نمبر:۴۵۶۸) لوگو اپنے اپنے کام کیے جاؤ کہ تم میں سے ہر شخص سے وہی کام صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے کام کرنا انسان کا فرض ہے اوراس کے نتیجہ کے مطابق جزا دینا جو پہلے سے مقدر ہوچکی ہے یہ خدا کا کام ہے۔ نیکوں کو آہستہ آہستہ نیکی کے مزیدراستے دکھانے کا نام توفیق وہدایت ہے اور بروں کو خدا کی طرف سے اس توفیق وہدایت کے نہ ملنے کا نام عدم توفیق وضلالت ہے اوران دونوں میں سے ایک کا اختیار کرنا انسان کی ابتدائی کوشش سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا"۔ (العنکبوت:۶۹) اورجولوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھا دیں گے۔ (ترجمہ تھانویؒ) خدا کی طرف سے توفیق وضلالت کا ملنا،خود انسان کے اچھے یا برے عمل کا لازمی نتیجہ ہے۔ "وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ"۔ (البقرۃ:۲۶) الغرض پہلے فسق،عدمِ اطاعت اورنافرمانی ہوتی ہے پھر اس کے نتیجے کے طورپر خداکی طرف سے ضلالت کا ظہور ہوتا ہے۔ "وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىoوَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰى"۔ (النجم:۳۹) اوریہ کہ انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملیگی اوریہ کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جاویگی۔ (ترجمہ تھانویؒ)