انوار اسلام |
س کتاب ک |
خطبہ میں خلفاءِ راشدین کے نام لینے کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کا نام نہیں لیا جاتا تھا اور اس وقت ظاہر ہے کہ یہ خضرات خلیفہ بنے بھی نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم بھی نہیں فرمایا؛ اسی لیے خطبہ میں خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کا نام لینا فرض یاواجب نہیں؛ لیکن بہتر ہے اور ایک زمانہ سے علماء اور صالحین کا اس پرعمل رہا ہے؛ چنانچہ علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ کہتے ہیں: وَذَكَرَ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِيْنَ وَالْعَمْيِنَ مُسْتَحْسَنَ بِذَلِكَ جَرَى الْتَوَارِثُ۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی:۲۸۱) خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کے نام لینے کا سلسلہ یوں شروع ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد ہی سے اہلِ سنت والجماعت کے علاوہ دوگروہ پیدا ہوگئے ایک گروہ روافض کا تھا، جوخلفاءِ ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی شان میں بدگوئی کرتا تھا، دوسرا گروہ ناجیہ کا تھا، جوسیدنا حضرت علی رضی للہ عنہ اور اہلش بیت کوبرا بھلا کہتا تھا، اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم قابل احترام ہیں، صحابی رضی اللہ عنہ کی بھی محبت دل میں ہونی چاہئے اور اہلِ بیت بھی ہمارے چشم محبت کا سرمہ ہیں، اس لیے خاص طور پرخطبہ میں خلفاءِ راشدین اور بعض اہلِ بیت کے تذکرہ کا سلسلہ شروع ہوا؛ تاکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی عظمت دل میں قائم ہو اور لوگ سوءِاعتقاد اور فکری آوارگی سے محفوظ رہیں، جب تک یہ دونوں طبقے باقی رہیں گے جوصحابہ رضی اللہ عنہم کی بابت بدگمانی رکھتے ہوں، خلفاء راشدین کا تذکرہ مستحسن رہے گا اور اس کے مستحب ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں خطبہ میں حضراتِ خلفائے راشدین کا ذکرِخیر کیا، ان کی مدح کی اور ان کے لیے دُعائے خیر کی رضی اللہ عنہم۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۵۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ شامی:۷۵۹۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۳۳، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۱۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۴۵، زکریا بکڈپو، دیوبند)