انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت علوی کے اہم واقعات بیعت خلافت حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ھ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں بیعت عام ہوئی ،شہادتِ عثمانی کے بعد مدینہ منورہ میں قاتلین عثمانؓ کا ہی زور تھا،انہوں نے اول اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخابِ خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا،بلوائیوں میں زیادہ تعداد حضرت علیؓ کی جانب مائل تھی اہل مدینہ کی بھی حضرت علیؓ کے متعلق کثرت آرا تھی،لوگ جب حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوربیعت کے لئے عرض کیا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ تو مجھ کو خلیفہ انتخاب کرتے ہو ؛لیکن تم لوگوں کے انتخاب کرنے سے کیا ہوتا ہے جب تک کہ اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ تسلیم نہ کریں، یہ سن کر لوگ اصحاب بدر کی طرف گئے اورجہاں تک ممکن ہوا ان کو جمع کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں لائے،سب سے پہلے مالک اشتر نے بیعت کی اس کے بعد اورلوگوں نے ہاتھ بڑھائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ طلحہؓ اورزبیرؓ کی نیت بھی معلوم ہونی چاہیے ؛چنانچہ مالک اشتر طلحہؓ کی جانب اورحکیم بن جبلہ زبیرؓ کی جانب روانہ ہوئے اور دونوں حضرات کو زبردستی پکڑ کر حضرت علیؓ کے سامنے لائے،حضرت علیؓ نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ آپ میں سے جو شخص خلافت کا خواہش مند ہو،میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں،ان دونوں نے انکار کیا،پھر ان دونوں سےکہا گیا کہ اگر تم خود خلیفہ بننا نہیں چاہتے ہو تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کرو، یہ دونوں کچھ سوچنے لگے تو مالک اشتر نے تلوار کھینچ کر حضرت طلحہؓ سے کہا کہ ابھی آپ کا قصہ پاک کردیا جائے گا،حضرت طلحہؓ نے یہ حالات دیکھ کر حضرت علیؓ سے کہا کہ میں اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حکم دیں اور حدودِ شرعی جاری کریں یعنی قاتلانِ عثمانؓ سے قصاص لیں،حضرت علیؓ نے ان باتوں کا اقرار کیا،حضرت طلحہؓ نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا جو کٹا ہوا تھا( جنگ احد میں ان کا ہاتھ زخموں کی کثرت سے بیکار ہوگیا تھا) بعض لوگوں نے اس مجلس میں سب سے پہلے حضرت طلحہ ؓ کے کٹے ہوئے ہاتھ کا بیعت کے لئے بڑھتے ہوئے دیکھ کر بد فالی سمجھی،اس کے بعد حضرت زبیرؓ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اورانہوں نے بھی حضرت طلحہؓ والی شرطیں پیش کرکے بیعت کی،حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی بیعت کے لئے کہا گیا ،انہوں نے اپنا دروازہ بند کرلیا اورکہا کہ جب سب لوگ بیعت کرلیں گے اس کے بعد میں بھی بیعت کروں گا اوراس بات کا بھی وعدہ کیا کہ میری طرف سے کسی قسم کا اندیشہ نہ کرو، ان کو حضرت علیؓ نے ان کے حال پر چھوڑدیا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی طرح بیعت میں تامل کیا،ان سے لوگوں نے ضامن طلب کیا۔ مالک اشتر نے تلوار نکال کر کہا کہ ان کو قتل کئے دیتا ہوں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مالک اشتر کو روکا اورکہا کہ عبداللہ بن عمرؓ کا ضامن میں ہوں،اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓ عمرے کے ارادے سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے،اس کا حال حضرت علیؓ کو معلوم ہوا اورلوگوں نے اُن سے کہا کہ وہ آپ کے خلاف ارادے لے کر روانہ ہوئے ہیں ،حضرت علیؓ نے فوراً ان کی گرفتاری کے لئے لوگوں کو روا کرنا چاہا، اتنے میں حضرت علیؓ کی صاحبزادی ام کلثومؓ جو حضرت عمر فاروقؓ کی زوجہ تھیں آئیں اورانہوں نے حضرت علیؓ کو یقین دلایا کہ عبداللہ بن عمرؓ آپ ؓ کے خلاف کوئی حرکت نہیں کریں گے، وہ صرف عمرہ ادا کرنے کے لئے روانہ ہوئے ہیں،تب حضرت علیؓ کو اطمینان ہوا،ان کے علاوہ محمد بن مسلم، اسامہ بن زیدؓ، حسان بن ثابتؓ، کعب بن مالکؓ، ابو سعید خدریؓ، نعمان بن بشیرؓ، زید بن ثابتؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، عبداللہ بن سلام وغیرہ جلیل القدر حضرات نے بھی بیعت نہیں کی بہت سے اشخاص،بالخصوص بنوامیہ بیعت میں شامل نہ ہونے کے لئے مدینہ سے شام کی طرف فوراً روانہ ہوگئے،بعض حضرات اسی غرض سے مکہ کی طرف چل دیئے جو صحابہ مدینہ منورہ میں موجود تھے اور پھر بھی انہوں نے بیعت نہیں کی ان کو حضرت علیؓ نے طلب کرکے وجہ پوچھی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ ابھی مسلمانوں میں خونریزی کے اسباب موجود ہیں اور فتنہ کا بکلی انسداد نہیں ہوا اس لئے ہم ابھی رکے ہوئے ہیں اور بالکل غیر جانب دار رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے مروان بن الحکم کو طلب کیا مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا،حضرت نائلہ زوجۂ حضرت عثمانؓ سے قاتلوں کا نام دریافت کیا تو انہوں نے دو شخص کا صرف حلیہ بتایا اور نام نہ بتاسکیں،محمد بن ابی بکرؓ کی نسبت ان سے پوچھا کہ یہ بھی قاتلوں میں ہیں تو انہوں نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے قتل ہونے سے پہلے یہ دروازے سے باہر واپس جاچکے تھے،بنو امیہ کے بعض افراد زوجۂ عثمانؓ حضرت نائلہ ؓ کی کٹی ہوئی انگلیاں اورخون آلود کرتہ لے کر ملکِ شام کی طرف حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان کے پاس گئے۔