انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابوحنیفہ ؒ نامی شخصیت تاریخ میں متعدد ہیں دنیا میں ایک نام کے متعدد اشخاص کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے؛ بلکہ کبھی کبھی باپ، دادا، پردادا، اوپر تک کے نام ایک ہی رہتے ہیں؛ اسی طرح ایک نسب، ایک لقب اور ایک کنیت کی شخصیات کا متعدد ہونا بھی بعید ازقیاس نہیں، تاریخ اور اسمائے رجال کی کتابوں سے شغف رکھنے والوں کواس سے بارہا سابقہ پڑتا ہے، کبھی ان اسماء، القاب وانساب میں اشتباہ بھی ہوجاتا ہے، اشتباہ کی وجہ سے جرح وتعدیل میں کبھی غلطی سے ثقہ راوی پر جرح اور مجروح کی توثیق بھی ہوجاتی ہے، کچھ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ) کے سلسلے میں بھی ہوا، ابوحنیفہؒ کنیت کی شخصیت متعدد ہیں، ان میں بعض کا شمار جہاں عظیم علمی شخصیتوں میں ہوتا ہے وہیں بعض مجروح ومطعون بھی ہیں اور بعضوں کے توعقائد اہلِ حق سے متصادم ہیں۔ بعض لوگوں کواشتباہ ہوگیا اور انھوں نے امام اعظم ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت کوفی اور دیگر ابوحنیفہ کے درمیان فرق کئے بغیر اسماء الرجال کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مطعون، مجروح، بدعقیدہ، بدباطن ابوحنیفہ کوامام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت سمجھ لیا، جس کی وجہ سے بات کہیں سے کہیں نکل گئی اور مطلب کچھ کا کچھ ہوگیا، بعض لوگوں سے تواشتباہ ہوا؛ لیکن بعض لوگوں نے احناف اور علمائے احناف کودھوکہ دیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی، اس لیے ضرورت ہے کہ "ابوحنیفہؒ" نامی متعدد شخصیات کے درمیان فرق وامتیاز کوسمجھا جائے اور اشتباہ کودور کیا جائے، تاریخ اور اسمائے رجال کی کتابوں میں تقریباً بیس شخصیات ایسی ہیں جن کی یاتوواقعی کنیت ابوحنیفہؒ ہے یااس لفظ سے ان کوشہرت حاصل ہوئی ہے، بعضوں نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ "صغیر" یا "اصغر" یا "ثانی" کا اضافہ کیا ہے اور اکثر مطلق ابوحنیفہؒ ہیں، انھیں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کے نام یاکنیت کے علاوہ اور کسی چیز کا علم نہیں، مجہول ونامعلوم ہیں، ہمارے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ جن کی طرف مسلک حنفی منسوب ہے، بجاطور پرتابعین میں شمار ہوتے ہیں، بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں، ان سے آپ نے روایت بھی کی، حضرت انسؓ سے ملاقات پر قطعی دلائل قائم ہیں اور درجن کے قریب اکابرِامت نے اس کوتسلیم کیا ہے۔ (قواعد فی علوم الحدیث:۳۰۶) اسمائے رجال کے ماہرین نے آپ کوحفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے آپ نے چارہزار اساتذہ سے علمِ حدیث حاصل کیا ہے، آپ کے حالات چونکہ معروف ہیں، اس لیے آپ کے علاوہ دیگر اہم کنیت اشخاص کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (۱)ابوحنیفہ احمد بن داؤد الدینوری آپ کا نام احمد، والد کا نام داؤد اور کنیت ابوحنیفہ ہے، دینوری اور نحوی نسبت ہے، ابن السکیت کے شاگردِ رشید ہیں، آپ بلند پایہ کے عالم اور مختلف فنون کے ماہر تھے، علماء نے آپ کی توثیق "صدوق" جیسے الفاظ سے کی ہے، آپ کے علم وفضل کادائرہ نہایت وسیع تھا، آپ نے نحو، لغت، ہندسہ اور ہیئت وغیرہ میں کتابیں تالیف کی ہیں، آپ کی ایک کتاب "النبات" ہے جوبڑی جامع ہے اور "الانواء" کوکافی شہرت حاصل ہے، بعض علماء نے آپ کوکبار حنفیہ میں شمار کیا ہے، آپ کی وفات حسرت آیات جماد ی الاولیٰ (۲۸۲ھ) کوہوئی۔ (سیراعلام النبلاء:۱۳/۴۲۲۔ تنقیح المقال فی علم الرجال:۱/۶۰۔ البدایہ والنہایہ:۱۱/۷۲) (۲)ابوحنیفہ محمد بن عبداللہ الہندوانی آپ کا نام محمد، والد کا نام عبداللہ اور کنیت ابوجعفر ہے، آپ ابوحنیفہ سے ملقب ہیں اور بلخ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے بلخی کہلاتے تھے اور بلخ ہی کے ایک محلہ "ہندوان" کی طرف بھی آپ کی نسبت کی جاتی ہے، آپ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: ابوجعفر محمد بن عبداللہ بن محمد بن عمر البلخی والہندوانی، آپ کی شہرت اپنے لقب "ابوحنیفہ الصغیر" سے ہوئی، آپ مشائخِ احناف میں سے ہیں، محمد بن عقیل البلخی سے علمِ حدیث اور ابوبکر محمد بن ابی سعید سے علم فقہ حاصل کیا، آپ کی تصانیف میں سے "شرح ادب القاضی لابی یوسف" "الفوائد الفقہیہ" "کشف الغوامض فی الفروع" ہیں آپ کی وفات (۳۶۲ھ) میں بخاریٰ میں ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء:۱۶/۱۳۱۔ ہدیۃ العارفین:۲/۴۷۔ شذرات الذھب:۴/۳۲۹۔ مرأۃ الجنان:۲/۳۷۵) (۳)ابوحنیفہ نعمان بن ابی عبداللہ آپ کا اسمِ گرامی نعمان، والد کا نام محمد اور کنیت ابوحنیفہ ہے، شجرۂ نسب اس طرح ہے: ابوحنیفہ نعمان بن ابی عبداللہ محمد بن منصور بن احمد بن حیون المغربی یاجیون المغربی، مسلکاً مالکی تھے؛ پھرمذہب باطنیہ کواخیار کرلیا اور اس کی تائید میں کتاب بھی تصنیف کی اور دین کوپسِ پشت ڈال دیا، تصانیف درجِ ذیل ہیں: اختلاف الفقہاء، الاختیار فی فقہ الشیعۃ، اصول الحدیث، دعائم الاسلام، الرد علی ابی حنیفۃ الکوفی، الرد علی ابن سریج، الرد علی الشافعی، الرد علی مالک، شرح الاخبار فی فضائل النبی المختار وآلہ المصطفین الاخیار من الائمۃ الاطہار، الفحیۃ منظومۃ فی الفقہ، کتاب المناقب والمثالب۔ حکومتِ عبیدیہ کے زمانے میں مصر کے قاضی بھی رہے، اسلام سے نکل کر بہت دور جاپڑے تھے، حکام کی کسی غیرشرعی بات کی مخالفت نہیں کرتے؛ بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، قاہرہ کے بانی "معزابی تمیم" کے ملازم بھی رہے، علمِ عقلیہ میں کافی مہارت تھی؛ چنانچہ اُن کا علم اُن پر وبالِ جان بن گیا تھا، قاہرہ میں رجب المرجب سنہ۳۶۳ھ کوفات ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء:۱۶/۱۵۰۔ ہدیۃ العارفین:۲/۴۹۵۔ مرأۃ الجنان:۲/۳۷۹۔ لسان المیزان:۶/۱۶۷۔ شذرات الذہب:۴/۳۳۸۔ وفیات الاعیان:۳/۲۹۶) (۴)ابوحنیفہ بکر بن محمد آپ کانام بکر، والد کا نام محمد، کنیت ابوالفضل، لقب شمس الائمہ ہے، شجرۂ نسب اس طرح ہے: شمس الائمۃ ابوالفضل، بکر بن محمد بن علی بن الفضل الانصاری الخزرجی، السلمی، البخاری، الزرنجری۔ آپ اپنے وقت کے بڑے عالم اور مشائخِ احناف میں سے بتائے جاتے ہیں، بخاریٰ کا عہدہ افتاء آپ کے سپرد تھا، آپ شہر بخاریٰ کے ایک گاؤں "زرنجر" کے رہنے والے تھے، آپ کی سن پیدائش سنہ۴۲۷ء یا سنہ۴۲۹ھ ہے، آپ نے علم فقہ شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانی سے حاصل کیا، ان کے استاد ابوعلی نسفی ہیں، جنھوں نے ابوبکر محمدبن الفضل کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جوامام اعظم ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں؛ اِس طرح امام ابوحنیفہؒ تک آپ کی سند پہونچتی ہے؛ گویا آپ اونچی سند والے تھے، لوگوں کے درمیان آپ کا بڑا اونچا مقام تھا، علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ فقہاء وقت کوجب کسی روایت میں کچھ مشکل درپیش آتی توآپ کی طرف رجوع کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی مسئلے کے بارے میں آپ سے دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایاکہ اس موضوع پر چارسو مرتبہ گفتگو کرچکا ہوں، آپ کے شاگردوں میں آپ کے صاحبزادے عماد الدین عمر، شیخ الاسلام برہان الدین اور علی بن ابی بکر فرغانی ہیں، انھیں کے ساتھ عمر بن محمد بن طاھر الفرغانی، ابوجعفر احمد بن محمد الخلمی، محمد بن ابی بکر الواعظ وغیرہم کا تذکرہ بھی شاگردوں کی فہرست میں ملتا ہے، آپ کی وفات بخاریٰ میں ۱۹/شعبان المعظم سنہ۵۱۲ھ بروز پنجشنبہ ہوئی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخِ وفات ۱۹/شعبان سنہ۵۱۷ھ درج فرمائی ہے، قبر شریف "کلاباذ" میں ہے۔ (سیراعلام النبلاء:۱۹/۴۱۵۔ الفوائد البہیہ:۵۶۔ لسان المیزان:۲/۵۴۔ کشف الظنون:۱/۱۶۴۔ شذرات الذہب:۴/۵۵۔ البدایہ والنہایہ:۱۲/۱۸۳) (۵)ابوحنیفہ محمدبن عبداللہ خطیبی آپ کا اسم گرامی محمد، والد کا نام عبداللہ اور کنیت ابوحنیفہ ہے، شجرۂ نسب اس طرح ہے: ابوحنیفہ محمد بن عبداللہ بن علی الاصبہان الخطیب۔ آپ اصبھان کے باشندے اور فقہ حنفی کے پیروکار تھے، آپ کوفقہ میں اچھی خاصی مہارت حاصل تھی، آپ نے تحصیلِ علم حدیث کے لیے اصبھان، مکہ مکرمہ اور بغداد کا سفر کیا، آپ کے اساتذہ میں حمد بن صدقہ، ابومطیع الصحاف، ابوالفتح الحداد، ابومحمدالدونی وغیرھم ہیں، آپ اپنے شرکاء مجلس کواملاء کرواتے تھے، آپ کے تلامذہ میں ابوطالب بن عبدالسمیع، امام موفق بن بن قدامہ، ابن الاخضر، ابوالقاسم ابن صصری وغیرہم ہیں، آپ کی وفات اصبھان میں سنہ۵۷۱ھ میں ہوئی اور آپ نے کل تراسی سال کی عمر پائی۔ (سیراعلام النبلاء:۲۱/۴۷) (۶)ابوحنیفہ عبیداللہ بن ابراہیم آپ کا نام عبیداللہ، والد کا نام ابراہیم، لقب جمال الدین اور کنیت اگرچہ ابوالفضل تھی؛ لیکن "ابوحنیفہ ثانی" سے مشہور تھے، آپ کا شجرۂ نسبت اس طرح ہے: عبیداللہ بن ابراہیم بن احمد بن عبدالملک بن عمر بن عبدالعزیز بن محمد بن جعفر بن ہارون بن محمد بن احمد بن محبوب بن الولید بن عبادۃ بن الصامت الانصاری العبادی المحبوبی البخاری الحنفی۔ آپ علم وعمل دونوں میں یکتائے روزگار تھے، آپ کا شمار مشائخِ احناف میں ہوتا ہے، بخاریٰ کے رہنے والے ہیں، آپ کی ولادت باسعادت ۵/جمادی الاولیٰ سنہ۵۴۶ھ کوہوئی، آپ کے اساتذہ میں امام زادہ محمدبن ابی بکرصاحب شرعۃ الاسلام، شمس الائمہ عماد الدین عمر بن بکر زرنجری، شمس الائمہ سرخسی، شمس الائمہ حلوائی، حسین بن الخضر نسفی، فخرالدین حسن بن منصور قاضی خاں وغیرھم کے اسمائے گرامی آتے ہیں، آپ نے اپنے فیوض کوخوب عام کیا، آپ کی زیرِتربیت متعدد فقہاء تیار ہوئے، آپ کے شاگردوں میں سے چند نمایاں شخصیات یہ ہیں، آپ کے لڑکے احمد تاج الشریعہ صاحب وقایہ کے والد، علامہ حافظ الدین محمدبن محمد بن نصر بخاری اور ابوالمظفر ابن سمعانی، آپ کی تصانیف میں "شرح الجامع الصغیر" اور "کتاب الفروق" کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپ کی تاریخ وفات سنہ۶۳۰ھ یا سنہ۶۸۰ھ ہے، علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے کی توثیق کی ہے۔ (سیراعلام النبلاء:۲۲/۳۴۵۔ الفوائد البہیہ:۱۰۸۔ شذرات الذہب:۷/۲۴۱) (۷)ابوحنیفہ محمد بن حنیفہ آپ کا اسم شریف محمد، والد کا حنیفہ او رکنیت ابوحنیفہ ہے، شجرۂ نسب اس طرح ہے: محمد بن حنیفہ بن محمد بن ماہان ابوحنیفہ القصبی الواسطی۔ آپ شہر بغداد میں سکونت پذیر تھے، آپ نے شہربغداد ہی میں اپنے چچا احمد بن محمد بن ماہان اور مقدم بن محمد بن یحییٰ المقدمی، خالدبن یوسف السمنی اور حسن بن حبلۃ الشیرازی وغیرھم سے علم حدیث حاصل کیا اور آپ کے شاگردوں میں محمد بن مخلد، ابوبکر الشافعی، محمد بن الحسن بن مقسم، اسماعیل بن علی الخطیبی، مخلد بن جعفر، الدقاق، وغیرھم ہیں۔ (تاریخ بغداد:۲/۲۹۶۔ تاریخ بغداد:۵/۲۳۱) (۸)ابوحنیفہ محمدبن یوسف آپ کا اسم گرامی محمد، والد کا نام یوسف ہے، ابوحنیفہ سے شہرت تھی، آپ کے شاگردوں میں ابوحرۃ عبداللہ بن عافیہ بخاری کا نام آتا ہے۔& (الاکمال:۲/۴۱۳) (۹)ابوحنیفہ کثیر بن الوالید آپ نضر بن جزوّر کے شاگرد ہیں، کنیت ابوحنیفہ ہے۔ (الاکمال:۲/۴۶۳) (۱۰)ابوحنیفہ محمدبن حنیفہ الواسطی آپ کا نام محمد، والد کا نام حنیفہ اور کنیت ابوحنیفہ ہے، آپ نے خالد سمنی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کوقوی روایوں میں شمار کیا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء:۲/۱۸۸۔ الاکمال:۳/۱۰) (۱۱)ابوحنیفہ یہ وہ ہیں جوجبیربن مطعم کے جنازہ میں شریک ہوئے اور اُن سے مغیرہ بن مقسم روایت کرتے ہیں، ان کے سلسلے میں اور زیادہ وضاحت نہیں ملتی، علمائے جرح وتعدیل نے ان کو مجہول لکھا ہے۔ (میزان الاعدال:۴/۷۳۶۔ المغنی فی الضعفاء:۲/۴۶۳) (۱۲)ابوحنیفہ یہ سلمان بن صرد کے شاگرد ہیں، ان سے ان کے بیٹے عبدالاکرم روایت کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال:۴/۵۱۸۔ تقریب التہذیب:۶۳۵) اس سے زیادہ ان کے سلسلے میں معلومات نہ ہوسکی۔ اِن مذکورہ بالا شخصیات کے علاوہ تراجم ورجال کی کتابوں میں چنداور بھی افراد ایسے نظر آتے ہیں؛ جنھوں نے اپنی کنیت "ابوحنیفہ" رکھی یا "ابوحنیفہ" سے جانے گئے، صاحب کشف الغمہ حضرت مولانا مفتی مہدی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مزید ۸/نام، احمد المصدق ابن محمد نیشاپوری نے مزید ۱۳/نام، جعفر بن احمد نے مزید ۱۴/نام، عبدالمؤمن نے مزید۱۵/نام، علی بن نصر نے مزید ۱۶/نام، قیس بن احرام نے مزید۱۷/نام، ابوالفتح محمدبن ابی حنیفہ نے مزید ۱۸/نام، عبدالکریم زیلعی نے مزید ۱۹/نام، امام طحاوی کے استاذ کے استاذ الاستاذ خوارزمی نے مزید ۲۰/نام گنوائے ہیں۔ (کشف الغمہ بسراج الاُمہ) اِن سب کی تحقیق سے احقر قاصر رہا، ان کے سلسلے میں کتابیں نہ ہوسکیں "لَعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا"۔