انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۵۳۔عمرو بن مرہؒ نام ونسب عمرونام ،ابو عبداللہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے،عمروبن مرہ بن عبداللہ بن طارق بن الحارث ابن سلمہ بن کعب بن وائل بن جمل بن کنانہ بن ناحیہ بن مراد جملی مرادی۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے کوفہ کے ممتاز علماء میں تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں "کان ثقۃ ثبتا اماما" مسعمر کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں پایا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۸) حدیث حفظِ حدیث کے لیے یہ سند کافی ہے کہ حافظ ذہبی ان کو حافظ کا لقب دیتے ہیں،عبدالرحمن بن مہدی انہیں حفاظ کوفہ میں شمار کرتے تھے (ایضاً)حفص بن غیاث کا بیان ہے کہ میں نے اعمش سے عمرو بن مروہ کے علاوہ کسی کی تعریف نہیں سنی،وہ کہتے تھے کہ ابن مرہ اپنی روایات میں ماموں تھے،شعبہ کہتے تھے کہ تمام راویان حدیث سے حدیثوں میں کچھ نہ کچھ ردوبدل ہوجاتا ہے،صرف ابن عون اورعمروبن مرہ اس سے مستثنیٰ ہیں،مسعر کہتے تھے کہ وہ صدق کی کان ہیں (تہذیب التہذیب:۸/۱۲،۱۳) حدیث میں انہوں نے عبداللہ بن اوفی، ابووائل،مرۃ الطیب،سعید بن مسیب، عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ،عبداللہ بن حارث نجرانی،عمرو بن میمون ادوی،عبداللہ بن سلمہ، حسن بن مسلم، خیثمہ بن عبدالرحمن سعد بن عبیدہ ،سعید بن جبیر اورابراہیم نخعی جیسے علماء سے استفادہ کیا تھا، ابو اسحٰق سبیعی اعمش،منصور،زید بن ابی انیسہ،مسعر،علاء بن مسیب،اوزاعی ،ابن ابی لیلی،ثوری،شعبہ وغیرہ آپ کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۱۰۲) نماز میں اخلاص اس علم کے ساتھ وہ عمل کے زیور سے آراستہ تھے،نماز اس خضوع سے پڑھتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا ،پڑھتے ہی مغفرت ہوجائے گی،شعبہ بیان کرتے ہیں کہ جب جب میں نے عمرو بن مروہ کو نماز پڑھتے دیکھا، ہمیشہ یہی خیال ہوا کہ نماز سے لوٹنے کے قبل ہی ان کی قبولیت ہوجائے گی ۔ (ابن سعد:۶/۲۲۰) وفات ۱۱۶ھ میں وفات پائی،جنازہ میں عبدالملک بن میسرہ کی زبان پر یہ کلمہ تھا کہ وہ خیر البشر تھے۔ (ابن سعد:۶/۲۲۰)