انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابو طالب کی خدمت میں قریش کا وفد جب عتبہ کی کوشش ناکام ثابت ہوئی تو عتبہ ،شیبہ،ابوالبختری،اسود،ولید،ابوجہل وغیرہ اشخاص کا ایک وفد ابو طالب کی خدمت میں پہنچا اورشکایت کی کہ تمہارا بھتیجا ہمارے بتوں کو بُرا کہنے سے باز نہیں آنا چاہتا،تم اس کو سمجھاؤ اوراس حرکت سے باز رکھو،ابوطالب نے اس وفد کو معقول جواب دیئے اور ان کو توجہ دلائی کہ تم لوگ بھی ایذا رسانیوں میں حد سے بڑھ جاتے ہو، اُس روز تو یہ لوگ ابو طالب کے پاس سے اُٹھ کر چلے آئے،لیکن دوسرے روز مشورہ کرکے پھر پہنچے،اُن کے آنے پر ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مکان پر اُن کے سامنے بلوایا اورآپ کے مواجہ میں گفتگو شروع ہوگئی، قریش کے سرداروں نے وہی باتیں اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پھر پیش کیں جو اس سے پہلے عتبہ تنہا حاضر ہوکر پیش کرچکا تھا،انہوں نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو اس وقت بعض ضروری باتوں کے لئے بلوایا ہے ،بخدا کوئی شخص اپنی قوم پر اتنی مشکلات نہیں لایا ہوگا جس قدر مشکلات میں تم نے قوم کو مبتلا کردیا ہے،اگر تم اپنے اس نئے دین کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم اتنا مال جمع کئے دیتے ہیں کہ کس دوسرے کے پاس نہ نکلے،اگر شرف وعزت کی خواہش ہے تو ہم ابھی تم کو اپنا سردار تسلیم کئے لیتے ہیں،اگر حکومت و سلطنت کی خواہش ہے تو تم کو ملک عرب کا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں، اگر تم کو کوئی جن یا آسیب دکھائی دیتا ہے اوراُس کے اثر سے تم ایسی باتیں کرتے ہو تو ہم اپنے کاہنوں اور حکیموں کے ذریعہ علاج کرانے کو تیار ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سُن کر جواباً قرآن کریم کی چند آیا ت تلاوت فرمائیں اورکہا کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو تمہاری طرف اپنا رسول بناکر بھیجا ہے،میں نے خدائے تعالیٰ کے احکام تم کو پہنچا دئے ہیں اگر تم میری تعلیمات کو قبول کرلوگے تو تمہارے لئے دین و دنیا کی بہتری کا موجب ہوگا،اگر انکار پر اصرار کرو گے تو میں خدائے تعالیٰ کے حکم کا انتظار کروں گا کہ تمہارے لئے کیا حکم صادرفرماتا ہے،یہ سن کر کفارنے کہا کہ اچھا اگر تم خدا کے رسول ہو تو ان پہاڑوں کو ملکِ عرب سے ہٹادواور ریگستان کو سر سبز بنادو،ہمارے باپ دادا کو زندہ کردو اوراُن میں قصی بن کلاب کو ضرور زندہ کرو،اگر قصی بن کلاب نے زنددہ ہوکر تم کو سچا مان لیا اور تمہاری رسالت کو قبول کرلیا تو ہم بھی تم کو رسول تسلیم کرلیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کاموں کے لئے رسول نہیں بنایا گیا ہوں،میرا کام یہ ہے کہ تم کو خدائے تعالیٰ کے احکام پر جو مجھ پر نازل ہوتے ہیں سنادوں اور اچھی طرح سمجھا دوں،میں اپنے اختیار سے خود کچھ نہیں کرسکتا،اس قسم کی باتیں ہونے کے بعد سرداران قریش ناراض اور برافروختہ ہوکر اُٹھے اورابو طالب کو بھی مقابلہ اور مخالفت کے لئے چیلنج دے کر چل دئے،سردارانِ قریش کے چلے جانے پر ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بھتیجے میں بوڑھا ہوگیا ہوں اوراپنے اندر قریش سے مقابلہ کی طاقت نہیں پاتا،تم مجھے ایسی محنت میں مبتلا نہ کرو جو میری طاقت واستطاعت سے بڑھ کر ہو مناسب یہ ہے کہ تم اپنے دین کا اعلان اوربتوں کی علانییہ برائیاں بیان کر نا ترک کردو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ چچا، اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اپنے کام سے باز نہیں رہ سکتا، ابو طالب کی باتوں سے آپ کی یہ شبہ گذرا کہ اب یہ میری حمایت سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، ابو طالب سردارانِ مکہ میں سب سے زیادہ عزت ووجاہت رکھتے اورقبیلۂ بنی ہاشم کے مسلمہ سردار سمجھے جاتے تھے، ان کی وجہ سے مخالفین حملہ کرتے ہوئے جھجکتے تھے اوران کو خطرہ تھا کہ اگر بنو ہاشم سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد پر اُٹھ کھڑے ہوئے تو معاملہ بہت ہی نازک ہوجائے گا، لہذا ابو طالب کی حمایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت کچھ تقویت حاصل تھی، اب یہ مایوسانہ باتیں سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر ابو طالب کے پاس سے چشم پُر آب اُٹھے اورچل دئے کہ چچا! میں اپنے کام کو اُس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ خدا کا کام پورا نہ ہوجائے یا یہی کام کرتے ہوئے میں ہلاک نہ ہوجاؤں،ابو طالب پر اس کا بہت اثر ہوا اورانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر واپس بلا کر کہا کہ اچھا تم ضرور اپنے کام میں مصروف رہو،جب میرے دم میں دم ہے میں تمہاری حمایت سے باز نہ رہوں گا اورتم کو کبھی دشمنوں کے سپرد نہ کروں گا۔