انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
ربنا لك الحمد پر اضافہ کن نمازوں میں کرنا چاہئے اور کن میں نہیں؟ حضرت رِفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی عیدگاہ میں نماز ادا کررہے تھے، جب حضور ﷺ نے رکوع سے سر اُٹھایا تو فرمایا: سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہْ تو آپ ﷺ کے پیچھے ایک شخص نے کہا: رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمْداً کَثِیْراً طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ کہنے والا کون ہے؟ انہوں نے کہا میں ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تیس سے زائد فرشتوں کودیکھا کہ اس کو لکھنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرنماز میں اس طرح تحمید کے کلمات کہے جائیں تو نماز فاسد نہیں ہوگی؛ البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جو عام معمول تھا؛ وہ یہی کہ جماعت کی نماز میں صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنے پر اکتفاء کرتے، خود رسول اللہ ﷺ کی ہدایت بھی یہی منقول ہے کہ جب امام سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہْ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہو؛ اس لئے احناف اور اکثر فقہاء کی رائے یہی ہے کہ فرض نمازوں میں اتنے ہی پر اکتفاء بہتر ہے؛ البتہ نفل نماز میں تحمید کے وہ کلمات کہے جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے؛ کیونکہ نفل میں بمقابلہ فرض کے گنجائش زیادہ ہے، رہ گیا حضورﷺ کا ارشاد تو اس کا مقصد ان کلمات کی تحسین ہے، نہ کہ عمل کی توثیق، یعنی حضور ﷺ کا یہ مقصود نہیں کہ لوگ اس طرح کلمۂ تحمید کہا کریں؛ اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ ﷺ نے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس طرح کہنے کی ترغیب دی ہوتی؛ بلکہ اس کا مقصد ان حمدیہ کلمات کی تحسین ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۱۸۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)