انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسماعیل بن عیاش العنسیؒ نام ونسب اسمٰعیل نام اور ابو عتبہ کنیت تھی،جتنے نسب نامہ کا ذکر ملتا ہے وہ صرف یہ ہے، اسماعیل بن عیاش بن سلیم (خلاصہ تذہیب التہذیب الکمال:۳۵)نسباعنسی اور وطناً حمصی مشہور ہیں، عنس بن مالک بن اود، یمن کے رہنے والے تھے؛ لیکن ان کے خاندان کی ایک بڑی جماعت شام منتقل ہوگئی اوروہیں مستقل بود وباش اختیار کرلی تھی (کتاب الانساب للسمعانی :۴۰۱)اغلب یہ ہے کہ انہی منتقل ہونے والوں میں عیاش بن سلیم بھی رہے ہوں گے۔ وطن اور ولادت بروایت صحیح ابو عتبہ ۱۰۲ ھ میں پیدا ہوئے،مولد کےبارے میں کوئی تصریح تو نہیں ملتی لیکن الحمصی کی نسبت سے قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کی ولادت کا شرف سرزمینِ حمص کو حاصل ہوا،یہ شام میں دمشق وحلب کے درمیان ایک مشہور شہر ہے۔ تحصیلِ علم تحصیلِ علم میں غیر معمولی جانکاہی اورمحنت ومشقت ائمہ سلف کا مشترک تمغۂ امتیاز تھا،ابو عتبہ بھی اس کا مجسم پیکر تھے، انہوں نے نہ صرف شام کے تمام مشاہیر اورماہر فن علماء سے اکتساب علم کیا ؛بلکہ عراق اورحجاز وغیرہ دوسرے ملکوں کا سفر کرکے وہاں کے بھی ممتاز فقہاء و محدثین کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا، کسی کام کے لئے طلب صادق اور سچی لگن انسان کو کمال کی انتہائی رفعتوں تک پہنچا دیتی ہے،ا بو عتبہ نے انہی اوصاف سے سر شار ہوکر تحصیل علم کی راہ میں تن من کے ساتھ دھن دولت کو بھی قربان کردیا تھا۔ چنانچہ تحدیث نعمت کے طور پر خود ہی بیان کرتے ہیں: ورثت من ابی اربعۃ الان دینارا نفقتھا فی طلب العلم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۱،ومیزان الاعتدال:۱/۱۱) مجھے اپنے والد سے چار ہزار دینار وراثت میں ملے تھے میں نے ان سب کو تحصیلِ علم میں خرچ کردیا۔ جلالتِ علم و علوئے مرتبت تحصیل علم میں اسی محنتِ شاقہ اورعرق ریزی کا نتیجہ تھا کہ وہ معدنِ علم کے گوہر شب چراغ شمار ہوئے اور زبان خلق نے نقارۂ خدا بن کر انہیں محدث الشام اور مفتی اھل الحمص کے خطاب سے نوازا ،بالخصوص شامی شیوخ کی روایات کے بارے میں ابو عتبہ کا پایہ نہایت ارفع واعلیٰ ہے اوراس سلسلہ میں بالاتفاق انہیں مستندترین اورثقہ ترین قرار دیا جاتا ہے،علامہ خزرجی ان کو عالم الشام واحد مشائخ الاسلام اورحافظ ذہبی الامام محدث الشام ومفتی اھل الحمص لکھتےہیں (خلاصہ تذہیب الکمال:۳۵ والعبر فی خبر من عنبر:۱/۲۷۹)ابوزرعہ کا بیان ہے: لم یکن بالشام بعد الاوزاعی مثلہ (میزان الاعتدال:۱/۱۱۳) امام اوزاعی کے بعد شام میں اسمعیل بن عیاش کے مثل کوئی نہ تھا۔ حدیث اسماعیل حدیث اورفقہ دونوں میں مہارت رکھتے تھے،لیکن حدیث میں انہیں خصوصی درک حاصل تھا،ان کے اساتذہ حدیث میں مختلف ملکوں کے ائمہ شامل ہیں جن میں ہشام بن عروہ ،یحییٰ بن سعد الانصاری،شرجیل بن مسلم،بجیربن سعد، تمیم بن عطیہ،زید بن اسلم، محمد بن زیاد الالہانی،صفوان بن عمرو، عبدالرحمن بن جبیر، ثوربن یزید،حبیب بن صالح ،حجاج بن ارطاۃ،صالح بن کیسان، سہیل بن ابی صالح کے نام لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۲۲،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۰) فقہ میں انہیں امام اوزاعی سے تلمذ حاصل تھا،جو اپنی غیر معمولی مہارت فقہی کی بناء پر فقیہ الشام کے لقب سے ذکر کئے جاتے ہیں، ابو عتبہ نے فقہ میں انہی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اورپھر خود بھی حمص میں افتاء کی خدمات انجام دیں۔ خود اسمعیل بن عیاش سے مستفید ہونے والوں میں لیث بن سعد، ولید بن مسلم ،معتمر بن سلیمان،عبداللہ بن مبارک،ابوداؤد الطیاسی،حجاج الاعور،شبانہ بن سوار، حسن بن عرفہ ،سعید بن منصور، مناد،محمد بن بکار اورداؤد بن عمرو ممتاز ہیں (تہذیب التہذیب:۱/۳۲۲ تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۰)امام اعمش اور ابنِ اسحاق ان سے روایت کرتے ہیں۔ جرح وتعدیل اسماعیل بن عیاش کی روایات دو طرح کی ہیں ایک تو وہ جو انہوں نے شامی شیوخ سے بیان کی ہیں اور دوسری غیر شامی یعنی حجاز وعراق وغیرہ ممالک کے شیوخ کی روایات،نوعِ اول کے بارے میں علماء جرح وتعدیل بالاتفاق ان کو ثقاہت وعدالت اورتثبت واتقان میں بلندمقام دیتے ہیں؛چنانچہ ابن مدینی کہتے ہیں۔ ماکان احد اعلم بحدیث اھل الشام من اسماعیل بن عیاش اہل شام کی روایت کو اسماعیل بن عیاش سے زیادہ جاننے والا کوئی نہ تھا۔ یحییٰ بن معین سے ان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: عن الشامیین حدیثہ صحیح (میزان الاعتدال:۱/۱۱۳) شامیوں سے ان کی روایت صحیح ہے یعقوب بن سفیان کا بیان ہے: اسماعیل ثقۃ عدل اعلم الناس بحدیث الشام اسمعیل ثقہ عادل ہیں نیز اہل شام کی روایت کا لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے محمد بن عثمان کا قول ہے: اسماعیل ثقۃ فیماروی عن الشامیین اہل شام کی روایت کے بارے میں اسمٰعیل ثقہ ہیں لیکن وہ روایتیں جو اسمٰعیل نے غیر شامی علماء ومشائخ سے بیان کی ہیں ،ان کے بارے میں محققین اورماہرین فن انہیں غیر مقبول اورضعیف قرار دیتے ہیں، اس کے اسباب علل کا کوئی واضح ذکر نہیں ملتا، علامہ ذہبی نے جو سبب بیان کیا ہے وہ بالکل ناکافی ہے،علامہ موصوف رقمطراز ہیں: کان من اوعیۃ العلم الا انہ لیس بمتقن لما سمعہ بغیر بلدہ کانہ کان یعتمد علیٰ حفظہ فوقع خلل فی حدیثہ عن الحجاربین وغیرھم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۰) وہ علم کا ظرف تھے لیکن غیر شامیوں سے انہوں نے جو سماع حاصل کیا تھا اس میں وہ غیر ثقہ ہیں کیونکہ وہ اپنے حافظہ پر زیادہ اعتماد کرتے تھے،اس لئے اہل حجاز وغیرہ کی روایات میں ضعف پیدا ہوگیا۔ جب علماء ان کی ذہانت وفطانت اورمحیر العقول قوتِ حافظہ پر متفق اللسان ہیں اورانہیں اس خصوصیت میں امام وکیع کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں تو پھر غیر شامی شیوخ سے ان کی مرویات میں خلل تضعیف کا قوی سبب نہیں ہوسکتا، ممکن ہے اس کا کوئی دوسرا سبب ہو۔ قوتِ حافظہ ابن عیاش کا حافظہ نہایت قوی تھا،ہزاروں حدیثیں انہیں زبانی ازبر تھیں ،یزید بن ہارون کہتے ہیں: مارایت شامیاً ولا عراقیا احفظ من اسماعیل بن عیاش (تذکرۃ الحفاظ :۱/۲۳۰) ادری ما الثوری (ایضاً) میں نے اسماعیل بن عیاش سے زیادہ قوتِ حافظہ رکھنے والا کسی بھی شامی یا عراقی عالم کو نہیں پایا، میں جانتا بھی نہیں تھا کہ ثوری کیا چیز ہیں۔ داؤد بن عمر کا بیان ہے: ماحدثنا اسمعیل الامن حفظہ وکان یحفظ نحوا من عشرین الف حدیث (العبرفی خبر من عنبر:۱/۲۷۹) انہی کا قول کان اسما عیل یحدثنا من حفظہ مارایت معہ کتاباً قط (العبرنی خبر من غنبر:۱/۲۷۹) اسماعیل ہم سے اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے تھے میں نے ان کے ساتھ کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ امام احمد بن حنبل نے ایک مرتبہ داؤد بن عمر سے دریافت کیا کہ اسماعیل بن عیاش کو کتنی حدیثیں یا د تھیں، فرمایا بہت زیادہ،انہوں نے پھر پوچھا کیا دس ہزار؟فرمایا نہیں تیس ہزار یہ سن کر امام احمد نے فوراً کہا کہ بخدا یہ تو امام وکیع کی مثال ہے جو قوتِ حافظہ میں ضرب المثل تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۲۲) کثرتِ عبادت ابن عیاش عالم با عمل تھے،درس و تدریس کے علاوہ شب وروز کے تمام کے تمام اوقات ذکر وفکر اورعبادت وریاضت میں گذار تے ،ابوالیما ن عینی شہادت دیتے ہیں کہ کان منزلہ الی جنب منزلی فکان یحی اللیل (میزان الاعتدال:۱/۱۱۱) اسماعیل بن عیاش کا گھر میرے پڑوس میں تھا وہ شب بیداری کرتے تھے۔ مناقب ان کی پوری زندگی گوناگوں مناقب محامد سے معمور تھی ،علم وفضل ،ورع وتقویٰ عبادت ریاضت ،اخلاق ومعاملات ،شرافت ونیک نفسی غرض ہر حیثیت سے وہ ایک مثالی اورمعیاری انسان تھے،علامہ ذہبی رقمطراز ہیں: ومناقبہ کثیرۃ (العبر:۱/۲۷۹) پھر تذکرہ میں لکھتے ہیں: کان محتشماً تبیلاً جوادا وکان من العلماء العالمین (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۰) وہ نہایت باعزت،شریف اورسخی تھے اور عالم با عمل تھے۔ یحیی الو عاظی کا بیان ہے کہ مارایت اکبر نفساً من اسماعیل بن عیاش کان اذا اتینا مرزعتہ لا یرضی لنا الا بالخروف والحلوا (میزان الاعتدال:۱/۱۱۱) میں نے اسماعیل بن عیاش سے زیادہ بلند ظرف کسی کو نہیں دیکھا،جب ہم ان کے پاس کھیت پر ملنے جاتے تو حلواء اور تازہ پھل ضرور کھلاتے تھے۔ ان کے مناقب ہی کے ذیل میں یہ کارنامہ بھی لائقِ ذکر ہے کہ اہل حمص ان کی پیدائش سے قبل حضرت علیؓ کی تنقیص علی الاعلان بکثرت کرتے تھے،جب ابن عیاش نے سنِ شعور کو پہنچ کر یہ فتنہ دیکھا تو اہلِ شہر میں حضرت علیؓ کے فضائل ومناقب کی تبلیغ شروع کردی جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اورپھر اس تنقیص کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ (میزان الاعتدال۱/۱۱۱) وفات باختلافِ روایت ۸۱ ھ یا ۸۲ھ میں انتقال فرمایا( تہذیب التہذیب:۱/۳۲۵) علامہ ذہبی نے اول الذکر اسی کو اصح قرار دیا ہے، وفات کے وقت ۸۰ سال کی عمر تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۲۳۱)