انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث کوقبول کرنے کا جذبۂ اطاعت آیتِ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کی کسی حدیث کوقبول کرنے میں دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے، مؤمن کوچاہیے کہ آپ کے ہرایک حکم کوخوشی کے ساتھ دل سے قبول کرے اور آپ کے ہرحکم کوظاہراً وباطناً تسلیم کرے؛ ایسا نہ کرے گا تواس کے ایمان کا کہیں اعتبار نہیں، قرآنِ کریم میں ہے: "فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْيُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"۔ (النور:۶۳) سوڈرتے رہیں وہ لوگ جوخلاف کرتے ہیں اس کے حکم کاکہ آپڑے ان پرکوئی فتنہ یاپہنچے ان کوکوئی دردناک عذاب۔ ایک یہودی اور ایک منافق میں کسی بات پر جھگڑا ہوا، فیصلے کے لیے حضورﷺ کوحکم بنایا گیا، جب دونوں آپ کی خدمت میں آئے اور مقدمہ پیش کیا توآپ نے اس یہودی کے حق میں فیصلہ دیدیا، وہ منافق اس فیصلہ سے مطمئن اور راضی نہ ہوا، اس نے کہا کہ حضرت عمرفاروقؓ کی خدمت میں چلتے ہیں، حضرت عمرؓ کوفیصلہ کرنے سے پہلے اس یہودی نے بتادیا کہ ہم حضور علیہ السلام کے پاس سے آرہے ہیں اور آپؐ نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے، حضرت عمرؓ نے اس منافق سے اس بات کی تصدیق کی؛ پھرحضرت عمرؓ تلوار لیکر آئے اور اس منافق کو تہہ تیغ کرڈالا، اس مقتول کے اولیاء نے رسول اللہﷺ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کوبلاوجہ قتل کیا ہے، جب یہ استغاثہ حضورﷺ کی خدمت میں پیش ہوا توآپ کی زبانِ مبارک سے بھی بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: "ماكنت أظن أنّ عمر يجترىء على قتل رجل مؤمن"۔ (تفسیربحرِمحیط:۴/۱۸۱، شاملہ، موقع التفاسیر،المؤلف: أبوحيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيّان) مجھے گمان تک نہ تھا کہ عمر بھی کسی مؤمن کے قتل کی جسارت کرے گا۔ لیکن جب اِس آیتِ کریمہ "فَلَاوَرَبِّكَ لَايُؤْمِنُونَ" (النساء:۶۵) کا نزول ہوا توحقیقت واضح ہوگئی کہ وہ شخص مؤمن ہی نہ تھا اور حضورﷺ کا گمان حضرت عمرؓ کے بارے میں بالکل درست تھا کہ وہ کبھی قتل مؤمن کے مرتکب نہ ہوسکتے تھے، حضرات مفسرین نے اس آیتِ کریمہ کے تحت یہ بات لکھی ہے کہ یہ عمل آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک کیساتھ ہی نہیں، آپ کے بعد آپ کی شریعت مطہرہ کا فیصلہ آپ کا ہی فیصلہ شمار ہوگا؛ سو یہ حکم قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا، آپ کے زمانہ مبارک میں خود بلاواسطہ آپ سے رجوع کیا جاتا تھا؛ سوآپ کے بعد آپ کی شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع جاری رہیگا اور یہ حقیقت میں آپ کی طرف ہی رجوع ہے "فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ" (النساء:۵۹) پر اب اسی صورت میں عمل ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کی طرف رجوع اللہ کی طرف رجوع سمجھا جائے اور حدیث کی طرف رجوع خود آنحضرتﷺ کی طرف رجوع مانا جائے؛ ورنہ یہ آیت اس باقی امت کے لیے بیکار ہوکر رہ جائے گی اور قیامت تک لائق عمل نہ ٹھہرے گی، اس سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے فیصلے آپ کی وفات کے بعد بھی پوری امت کے لیے حجت ہیں، آپﷺ کی کسی حدیث پر اپنی رائے سے اعتراض کرنے بیٹھ جانا بہت نادانی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: "ادابِ نبوی میں سے ہے کہ رسول اللہﷺ کے ارشاد وعمل پر اپنی رائے سے اعتراض اور شک وشبہ نہ کرو، حضورﷺ کے قول سے اپنی رائے پر اعتراض اور شک وشبہ کرلو اور قیاس سے نص کا مقابلہ نہ کرو؛ بلکہ قیاس کونص کے تابع کرو، اسے اس کے مطابق بناؤ، قیاس کے صحیح ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ نص کے مقابلہ میں نہ ہو"۔ (مدارج النبوۃ:۱/۵۱۴) حافظ ابنِ قیمؒ فرماتے ہیں کہ "رسول کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنا جب عمل کواکارت کردیتا ہے تواس کے احکام کے سامنے اپنی رائے کومقدم کردینا اعمالِ صالحہ کے لیے کیونکر تباہ کن نہ ہوگا"۔ (ترجمان السنۃ:۱/۱۴۲۔ نقلا عن اعلام الموقعین:۱/۴۲)