انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزید بن ولید بن عبدالملک ابوخالد یزید بن ولید بن عبدالملک بن مروان بن حکم کویزد ثالث اور یزید الناقص بھی کہتے ہیں، یزید الناقص اس کو اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے لوگوں کے وظائف یعنی فوج کی تنخواہوں کوکم کردیا تھا، ولید بن یزید نے خلیفہ ہوکر فی کس دس درہم کا اضافہ وظائف میں کردیا تھا، یزید نے خلیفہ ہوکر اس اضافہ کوموقوف کرکے وہی تنخواہیں مقرر رکھیں جوہشام بن عبدالملک کے زمانے میں مقرر تھیں، یزید نے خلیفہ ہوکر لوگوں کوجمع کیا اور کہا کہ ولید بدعقیدہ وبداعمال تھا؛ اسی لیے وہ مارا گیا ہے، میں اب تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کروں گا، تمہاری تنخواہیں مقررہ وقت پرضرور مل جایا کریں گی، میں جب تک حدودِ اسلامیہ کومضبوط اور عدل وانصاف سے شہروں کوآباد نہ کرلوں گا، اس وقت تک بلا ضرورت کسی کوکوئی جاگیر نہ دی جائے گی، میں اپنے دروازے پردربان نہ رکھوں گا؛ تاکہ ہرشخص بآسانی مجھ تک پہنچ سکے؛ اگرمیں غلط روی اختیار کروں توتم کواختیار ہے کہ مجھ کومعزول کردو، اس کے بعد یزید بن ولید نے لوگوں سے اپنے بھائی ابراہیم بن ولید اور اس کے بعد عبدالعزیز بن حجاج بن عبدالملک کی ولی عہدی کے لیے بیعت لی۔ اہلِ حمص کوجب یہ معلوم ہوا کہ ولید بن یزید قتل ہوگیا ہے توانہوں نے بغاوت کی اور ولید کے خون کا بدلہ لینے کی غرض سے یزید بن خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کواپنا سردار بناکر دمشق کی طرف روانہ ہوئے یزید بن ولید نے سلیمان بن ہشام بن عبدالملک کوفوج دے کرمقابلے کے لیے روانہ کیا، اوّل اہلِ حمص کے سامنے صلح کی درخواست پیش کی گئی؛ لیکن جب وہ نہ مانے تولڑائی شروع ہوئی، نتیجہ یہ ہوا کہ یزید بن خالد گرفتار ہوکر قید ہوا اور اہلِ حمص بہت سے مارے گئے جوباقی رہے وہ میدان چھوڑ کربھاگ گئے۔ یہ خبر سن کراہلِ فلسطین نے بھی بغاوت کی اور یزید بن سلیمان بن عبدالملک کواپنا سردار بنایا، اہلِ اُردن نے سنا تومحمد بن عبدالملک کواپنا بادشاہ بنالیا اور اہلِ فلسطین کے ساتھ شریک ہوگئے اور دونوں جگہ کی فوجیں مل کردمشق کی طرف بڑھیں ان تمام مقامات کے لوگوں کویزید بن ولید نے پہلے اپنا ہم خیال بنالیا تھا؛ لیکن خلیفہ کے قتل کا حادثہ نہ تھا؛ لہٰذا ان لوگوں کے دل میں یکایک مقتول خلیفہ کی ہمدردی اور موجودہ خلیفہ کی نفرت کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قاتل ڈاکو کوجب پھانسی کی سزادی جاتی ہے تواگرچہ معقولی طور پرہرشخص اس کوپھانسی کا مستحق یقین کرتا ہے؛ لیکن جب اس کوپھانسی پرلٹکتا ہوا دیکھتے ہیں تواس وقت تمام ہمدردی اسی کے شاملِ حال ہوجاتی ہے اور وہ نفرت جواس کی نسبت پہلے دل میں موجود تھی کافور ہوجاتی ہے، اس لشکر کا حال سن کریزید نے سلیمان بن ہشام کوایک زبردست لشکر کے ساتھ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے مامور کیا؛ چنانچہ سلیمان نے ان سب کوشکست دے کرخلیفہ وقت کی بیعت واطاعت پرآمادہ کردیا۔ ملکِ شام کے مذکورہ فسادات کوفرو کرنے کے بعد یزید نے یوسف بن عمر کوعراق وخراسان کی امارت سے معزول کرکے اس کی جگہ منصور بن جمہور کوعراق وخراسان کا حاکم مقرر کیا، یوسف نے منصور کوباقعدہ اپنی امارت کا چارج نہیں دیا؛ بلکہ عراق سے دمشق کی جانب پوشیدہ طور پرروانہ ہوا، دمشق کے قریب پہنچا تھا کہ یزید بن ولید نے گرفتار کراکر قید کردیا اور اسی حالت میں مقتول ہوا، منصور بن جمہور نے کوفہ پہنچ کریوسف کے زمانے کے قیدیوں کورہا کیا اور اپنی طرف سے خراسان کی گورنری پراپنے بھائی کوبھیجا، وہاں نصر بن سیار نے خراسان میں اس کوداخلہ نہیں دیا، ابھی یہ جھگڑا طے نہیں ہونے پایا تھا اور منصور بن جمہور کوکوفہ میں آئے ہوئے دومہینہ بھی نہ گذرے تھے کہ یزید بن ولید نے منصور کومعزول کرکے اس کی جگہ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کوعراق کی امارت پرروانہ کردیا، منصور بن جمہور عراق کی امارت عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کے سپرد کرکے شام کی طرف روانہ ہوا، عبداللہ بن عمر نے خراسان کی حکومت پرباقاعدہ طور پرنصر بن سیار کومقرر فرمایا، ان دنوں یمامہ کی ولایت بھی عراق کے صوبہ سے متعلق تھی، کبھی یمامہ حجاز میں شامل کردیا جاتا تھا، کبھی عراق میں، یوسف بن عمر کے زمانے سے اہلِ یمامہ علی بن مہاجر حاکم یمامہ کونکال کر اپنی خودمختاری کا اعلان کرچکے تھے، ابھی تک وہ بدستور اپنی خودمختاری پرقائم رہے اور کوئی بندوبست اس علاقہ پرقبضہ قائم کرنے کے لیے نہ ہوسکا۔ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز نے عراق کی امارت اپنے ہاتھ میں لے کرجب نصر بن سیار کوخراسان کا حاکم اپنی طرف سے مقرر کیا تووہاں جدیع بن کرمانی ازدی نے نصربن سیار سے بغاوت وسرکشی اختیار کی، جدیع بن علی اصل میں ازدی تھا؛ لیکن چونکہ وہ کرمان میں پیدا ہوا تھا اس لیے کرمانی مشہور تھا، وہ یہ دیکھ کرکہ نصر بن سیار جوپہلے خراسان کا خود مختار حاکم تھا، اب کوفہ کے گورنرکی طرف سے نامزد ہوکر مرکز حکومت سے متعلق ہوگیا، رنجیدہ ہاو اور اس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ لوگ فتنہ میں پڑرہے ہیں تم اپنے کاموں کے لیے کسی کواپنا امیرمنتخب کرلو، نصر بن سیار اور کرمانی کے دلوں میں پہلے سے کچھ کدورت تھی، اب کرمانی کے اس جدید فتنہ برپا کرنے پرنصر نے اس کوگرفتار کرالیا اور ۲۷/رمضان سنہ۱۲۶ھ کوقید کردیا، کرمانی چند روز قید رہا، اس کے بعد قید خانہ میں نقب لگاکر نکل آیا اور فوراً تین ہزار آدمیوں کواپنے گرد جمع کرلیا، ادھر سے نصر نے بھی اس کی سرکوبی کے لیے ایک سردار کومامور کیا؛ مگرلوگوں نے درمیان میں پڑکرلڑائی کے روکنے اور صلح کرانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کرمانی نصر کے پاس چلا آیا اور نصربن سیار نے اس کوخانہ نشینی کی ہدایت کی، چند روز کے بعد پھرکرمانی نے بغاوت وسرکشی کا ارادہ کیا، غرض اس طرح کئی مرتبے جنگ کی تیاری اور کئی مرتبہ صلح ہوئی آخریہ تجویز ہوئی کہ کرمانی خراسان کوچھوڑ کرجرجان کی طرف چلا جائے؛ چنانچہ اس پرعمل درآمد ہوا۔ جن دونوں نصراور کرمانی کے درمیان بار بار نزاع پیدا ہوکر صورتِ حال خطرناک ہورہی تھی، نصر کویہ اندیشہ ہوا کہ کہیں کرمانی بلادِترکستان سے حرث بن شریح کوبلواکر اپنی طاقت کونہ بڑھالے حرث بن شریح کا ذکر اوپرآچکا ہے وہ بارہ تیرہ سال سے بلادِ ترک میں مقیم تھا؛ چنانچہ نصر نے حرث کوبلانے اور اپنے پاس لانے کے لیے مقاتل بن حیانی نبطی کوبھیجا اور ادھر عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کے پاس کوفہ میں اور یزید بن ولید کے پاس دمشق میں خطوط بھیجے جن میں حرث بن شریح کے متعلق اندیشہ وخطرہ کی اطلاع دے کراس کی سفارش کی تھی کہ اس کوامان دے کربلوالینے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے، دونوں جگہ امان نامے آگئے، ادھر حرث بن شریح بھی بلاد ترکستان سے خراسان میں آگیا، نصر نے اس کی خوب خاطر مدارات کی اور مرورود میں اس کوٹھہرایا، پچاس درہم روزانہ اس کا روزینہ مقرر کیا اور کہا کہ آپ جس شہر کی حکومت پسند کریں وہاں کا عامل آپ کوبنادیا جائے، حرث نے کہا کہ میں حکومت اور دولت کا خواہش مند نہیں ہوں، میں توکتاب وسنت پرعمل درآمد کرنے کا خواہش مند ہوں، ظلم وتعدی سے پریشان ہوکر ان شہروں سے نکل گیا تھا، اب بارہ تیرہ برس کے بعد تم نے مجھ کوپھراس طرف واپس بلایا ہے، نصر یہ سن کرخاموش ہوگیا، حرث نے اس کے بعد کرمانی کے پاس کہلا کربھجوایا کہ اگرنصر بن سیار نے کتاب وسنت پرعمل کیا تومیں اس کا طرف دار ہوکر اس کے دشمنوں سے لڑوں گا اور اگراس نے کتاب وسنت پرعمل نہ کیا توپھر میں تمہارا شریک ہوجاؤں گا؛ بشرطیکہ تم نے کتاب وسنت پرعمل کرنے کا اقرار کیا، اس کے بعد حرث ے قبائل تمیم اور دوسرے لوگوں کواپنی امارت کی طرف متوجہ کیا، چند روز میں تین ہزار آدمیوں نے اس کے ہاتھ پربیعت کرلی۔ خراسان کی تویہ کیفیت تھی جومذکور ہوئی، ادھر آرمینیا میں مروان بن محمد بن مروان اور جزیرہ میں عبدہ بن ریاح غسانی امارت کررہے تھے، جب ولید بن یزید مقتول ہوا تو عہدہ غسانی جزیرہ سے ملکِ شام کی طرف چلا گیا، مروان بن محمد کے بیٹے عبدالملک نے جزیرہ کے صوبہ کوخالی دیکھ کراس پرقبضہ کرکے جابجا اپنے گماشتے بھیج دیے اور اپنے باپ مروان بن محمد بن مروان کولکھا کہ یہ موقع نہایت ہی موزوں ہے آپ خونِ ولید کا معاوضہ لینے کے لیے کھڑے ہوجائیں ادھر حمص واردن وفلسطین کی بغاوتوں سے یزید بن ولید کوفرصت نہ ملنے پائی تھی کہ مروان بن محمد کے خروج کی خبر ملی، یزید کے لیے یہ موقع چونکہ بہت ہی نازک تھا اس نے مروان کولکھ بھیجا کہ تم میری بیعت کرلو میں تم کوجزیرہ آدربائیجان، آرمینیا، موصل تمام ولایتوں کی حکومت دے دوں گا اور سند گورنری تمہارے پاس بھیج دوں گا، مروان بن محمد نے بیعت کرلی اور یزید نے جیسا کہ وعدہ کیا تھا سندگورنری اس کے پاس بھیج دی، اس طرح راستے ہی سے مروان واپس چلا گیا اور اپنے متعلقہ صوبوں پرحکومت کرنے لگا، پہلے وہ صرف آرمینیا پرحاکم تھا، اب موصل تک کے تمام علاقہ کا حکمراں مقرر ہوگیا ۔ یزید بن ولید المشہور بہ یزید الناقص اپنے اخلاق وقابلیت کے اعتبار سے برانہ تھا؛ لیکن اس کی عمر نے وفانہ کی اور ۲۰/ماہ ذالحجہ سنہ۱۲۶ھ کوچند روز کم چھ مہینے خلافت کرکے ۳۵/سال کی عمر میں مرضِ طاعون سے وفات پائی۔