انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** منذر کے کارنامے اس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے باپ کے وزیر اعظم ہاشم بن عبدالعزیز کے قتل کا فتوی جو علماء نے لگایا تھا نافذ کیا اور اس کو دوسرے جہان میں پہنچایا،عمر بن حفصون نے صرف مالقہ بلکہ اور بھی متعدد شہروں پر قابض ومتصرف ہوچکا تھا سلطان منذر نے ہہاشم بن عبدالعزیز کے قتل سے فارغ ہوکر عمر بن حفصون پر چڑھائی کی ابن حفصون اگرچہ نہایت تجربہ کار اور بہادر سپہ سالار تھا مگر سلطان منذر بھی کچھ اس سے کم نہ تھا یکے بعد دیگرے قئعوں کو فتح کرتا ابن حفصون ککی فوجوں کو پیچھے ہٹاتا ہوا آگے بڑھا ابن حفصون نے مصلحت وقت دیکھ کر سلطان کی خدمت میں صلح کی درخواست بھیج کر اطاعت کی اقرار کیا ،سلطان نے اس درخواست کو غنیمت سمجھا اس لیے کہ وہ اس خطرناک دشمن کے ساتھ دیر تک الجھے رہنے کی نسبت دوسرے باغیوں کی سرکوبی کوضروری جانتا تھا سلطان ابھی واپس ہوکر قرطبہ تک نہیں پہنچنے پایا تھا کہ اس کے باغی ہونے کی خبر پہنچی سلطان نے پھر واپس ہوکر اس کا محاصرہ کرلیا اس کی مرتبہ ابن حفصون نے پھر نہایت ندامت وشرمندگی اور عجز والحاح کے ساتھ اپنی خطا کی معافی چاہی اور خود سلطان کے ساتھ قرھبہ جانے پر رضمامند ہوگیا سلطان نے اس بات کو بہت غنیمت سمجھا نہایت عزت وتکریم کے ساتھ اس باغی سردار کو اپنے ہمراہ لےکر قرطبہ کی طرف چلا۔ سلطان کا ارادہ تھا کہ قرطبہ پہنچ کر طلیطلہ پر چڑھائی کرے اور مرکزی شہر کو اول قبضے میں لاکر پھر کسی دوسری طرف متوجہ ہو یہ سلطان منذر کی کمال بیدارمغزی اور ہوشیاری کی دلیل تھی بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ شروع میں مسلمانوں سے غلطی ہوئی کہ انھوں نے طلیطلہ کی اہمیت اور اس کے محل وقوع کے اعتبار سے اس کے دارلسلطنت ہونے کی موزونیت کو محسوس نہیں کیاگیا اگر مسلمان طلیطلہ کو دارالسلطنت بنالیتے تو یقیناً مسلمانوں کو اس قدر مشکلات ملک اندلس میں پیش نہ آتے جو قرطبہ کے دارلسلطنت ہونے کی وجہ سے پیش آئے طلیطلہ ملا اندلس کے وسط میں واقع تھا اور بہت مضبوط مقام تھا شمالی عیسائی ریاستوں کے طاقتور ہونے اور پھیلنے کا موقعہ ہی نہیں مل سکتا تھا بہرحال سلطان منذر طلیطلہ پر قبضہ کرنے کے لیے بیتاب تھا اور بظاہر عمر بن حفصون کیطرف سے اس کو کامل اطمینان ہوچکا تھا راستے میں عمر بن حفصون کو کسی نے اس کا وہ انجام یاد دلایا جو فقہا کے فتوے کی تعمیل میں ہونے والا ہے حالانکہ اس کی دل دہی پر آمادہ اور اس سے اہم خدمات سلطنت لینے کا ارادہ رکھتا تھا مگر جب عمر بن حفصون کو اپنا وہ واقعہ یادآیا کہ محض فقہا کی مخالفت نے اس کو ہشام بن عبدالعزیز کے لشکر سے جدا ہوکر بھاگنے اور اپنے ارتداد کے اعلان پر مجبور کیاتھانیز اس کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہشام بن عبدالعزیز بھی انھیں حضرات کےفتوؤں کی بنا پر قتل ہوچکا ہے تو وہ اپنے قتل ہونے کو یقینی سمجھنے لگا اور قرطبہ تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگوں کی آنکھ بچاکر بھاگ نکلا سیدھا اپنے قلعے میں پہنچ کر قلعہ بند ہوبیٹھا اور اپنے اردگرد علاقہ سے اپنے تمام آدمیوں کو جمع کرلیا۔