انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غریب الحدیث علامہ خطابی (۳۸۸ھ) لکھتے ہیں: "الغريب من الكلام إنماهوالغامضُ البعيدُ من الفهمِ"۔ (شذرات الذهب دراسة في البلاغة القرآنية:۲۱، مولف: محمود توفيق محمد سعد) ترجمہ:وہ بات غریب (بہت عجیب اورنادر)ہوتی ہے جو گہری اورفہم عام سے اونچی ہو۔ الفاظ اور بات کی غرابت سے مراد وہ دقیق الفاظ اوراونچے مضامین ہیں جن کا سمجھنا آسان نہ ہو، ایسے غریب الفاظ اورنادر مضامین پر محدثین نے جس فن میں گفتگو کی ہے اسے غریب الحدیث کہتے ہیں، بعض محدثین کا ذوق ایسے مضامین اور الفاظ کی تلاش رہا ہے جو اپنی ندرت اورغرابت میں ہر ایک کی رسائی میں نہ ہوں، اس باب میں صرف وہی علماء فن آگے بڑھ سکے جن کو طلب حدیث میں خصوصی شغف اورخاص انہماک رہا، حافظ اسمعیل عبداللہ بن محمد الاصبہانی(۳۹۶ھ)غریب الحدیث کی طلب اور روایت میں خاص ذوق رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں: "یروی الغریب من المحدثین فیبا لغ قال لی مرۃ ھذا الشان شان من لیس لہ شان سوی ھذا الشان یعنی طلب الحدیث"۔ (تذکرۃالحفاظ:۳/۳۷۷) ترجمہ: آپ محدثین سے غریب الحدیث روایت کرتے اورآپ کی توجہ اس باب میں بہت زیادہ رہتی (راوی کہتا ہے) ایک دفعہ آپ نے مجھے کہا غریب(نادر الفاظ اورمعانی کی)احادیث کولینا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جن کو اس حال سے سوا کسی اورحال سے غرض نہ ہو،ہر وقت طلب حدیث ان کا کام ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غریب الحدیث کی تلاش اورروایت کسی کمزوری کی بات نہیں ؛بلکہ یہ وہ باب کمال ہے جو اس فن کے متوالوں کو ہی نصیب ہوتا ہے اوراس کا ذوق وہ شان علم ہے جو اس فن کے اونچے علماء کو ہی میسر آتاہے۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذوقِ حدیث اس قسم کی روایات کا خاصا متلاشی رہتا تھا اور آپ پھران رویات کی تشریح اور تفصیل میں بہت اُونچی پرواز کرتے "سات زمینوں میں سات آدم آئے" یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک اثر ہے۔ (مستدرک حاکم:۲/۴۹۳) جواپنے معنی اور مفہوم میں بہت دقیق ہے، آپ نے اس پر ایک کتاب "تحذیرالناس من انکارِاثرابن عباس" لکھی، حدیث عما (مشکوٰۃ:۵۱۰) ایک نہایت دقیق اور غامض روایت ہے، آپ نے اس پر ایک مستقل رسالہ رقم فرمایا، چند اور روایات پربھی بحث کی ہے، علماء نے حدیث کے مشکل الفاظ پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، انہیں بالمعنی الاخص لغات حدیث بھی کہا جاسکتا ہے، قرآن کریم کے غریب الفاظ پر بھی علماء نے بحث کی ہے، معلوم رہے کہ غرابت الفاظ، فصاحت کلمہ یافصاحت کلام کے خلاف نہیں اور افصح العرب والعجم کی زبانِ مبارک سے غریب الحدیث کا صدور ان کی اس شان کے منافی نہ تھا، صحیح بخاری کی حدیث "ا م ز ر ع" اس کی وافی مثال ہے۔ جن قدماء نے غریب الحدیث پر خاص توجہ کی ان میں سے بعض یہ ہیں: ۱۔نضر بن الشمیل (۲۰۴ھ) ۲۔قطرب (۲۰۶ھ) ۳۔ابوعبیدہ معمر بن المثنیٰ (۲۰۸ھ) ۴۔اصمعی (۲۱۸ھ) غریب الحدیث پر لکھی گئی یہ کتابیں بہت اہم ہیں: (۱)غریب الحدیث لابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ)، ابوعبیدہ ہرات کے رہنے والے ہیں، اسحاق بن راہویہ (۲۳۸ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کے ہمعصر تھے، اسلامی معاشیات پر "کتاب الاموال" انہی کی تالیف ہے۔ (۲)غریب الحدیث لابن قتیبہ الدینوری (۲۷۶ھ)۔ (۳)غریب الحدیث لابی سلیمان الخطابی (۳۸۸ھ)۔ یہ تین کتابیں اس فن کی امہات سمجھی جاتی ہیں، یہ بڑی کتابیں نہیں رسائل سے ہیں لیکن اپنی نوع کے لحاظ سے بہت اہم ہیں؛ پھرہرات کے ایک مقتدر عالم جوابوسلیمان الخطابی اور ابومنصور ازہری کے شاگرد ہیں، ابوعبیداحمد بن محمد (۴۰۱ھ) نے غریب القرآن والحدیث کے موضوع پر "کتاب الغریبین" لکھی، آپ نے مقدمہ میں لکھا ہے: "فان اللغۃ العربیۃ انما یحتاج الیہا لمعرفۃ غریبی القرآن والحدیث.... والکتب المولفۃ فیہا جمۃ وافرۃ"۔ ترجمہ:قرآن اور حدیث کے غریب الفاط کوجاننے کے لیے لغتِ عربی کی ضرورت پڑتی ہے.... اس باب میں بہت کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ یہ کتاب اپنے موضوع پربہت معروف ہوئی، علامہ ابوموسیٰ المدینی (۵۸۱ھ) نے اس کا ایک قابل قدر تکملہ لکھا ہے، اس کے بعد اس موضوع پر یہ کتابیں معروف ہوئیں: الفائق، علامہ محمود زمخشری (۵۳۸ھ) تفسیرِ کشاف انہی کی تالیف ہے، علومِ عربیہ میں امام فن سمجھے جاتے ہیں، فائق کا معنی ہے فوقیت سے جانے والا..... سو یہ کتاب واقعی اسم بامسمیّٰ ہے، اس نے غریب الحدیث کی ہرمشکل آسان کردی ہے، علامہ ابنِ اثیر جزری (۶۰۶ھ) جنھوں نے خود اس موضوع پرایک ضخیم کتاب لکھی ہے، الفائق کے بارے میں لکھتے ہیں: "ولقد صادف ھذا الاسم المسمی وکشف من غریب الحدیث کل معی"۔