انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عہدِصدیقی میں حضورِپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی وفات کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکے اس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے، جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ۷۰/ اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی:۱/۳۷، عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳) دربارِ رسالت کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے (مناہل العرفان:۱۷۹) اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی اللہ عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تشویش لاحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں: "کہ جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا؛ اس لیے عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی اللہ عنہٗ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی اللہ عنہٗ کی ہے، زید کہتے ہیں: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے مجھ سے فرمایا: تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا، بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے، یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ وعمر رضی اللہ عنہٗ کی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تلاش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں "لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وفٌ رَحِیْمٌ" (التوبۃ:۱۲۸) "ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں"۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۴۹۸۶) اس حدیث کے آخر میں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کے اس ارشاد کا مطلب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ "سورۂ برأۃ کی آخری آیت "لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَحِیْمٌ" (التوبۃ:۱۲۸) مجھے صرف ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کے پاس لکھی ہوی نہیں ملی" اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ آیت حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کو یاد نہ تھی یاکسی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی یااس کا جزوِقرآن ہونا کسی کو معلوم نہ تھا؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھوائی ہوئی یاان کے سامنے لکھی ہوئی قرآن کریم کی متفرق آیتیں لے لے کر آرہے تھے، ان میں سے یہ آیتیں سوائے حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہٗ کے کسی کے پاس نہیں ملی؛ جب کہ اس کے علاوہ دیگر آیتیں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم لے لے کر آرہے تھے؛ ورنہ جہاں تک ان آیات کے جزوِ قرآن ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات تواتر کے ساتھ سب کو معلوم تھی، اوّل تو جن سینکڑوں حفاظ کو پورا قرآن کریم یاد تھا؛ انھیں یہ آیات بھی یاد تھیں، دوسرے آیاتِ قرآنی کے جو مکمل مجموعہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہٗ نے تیارر کررکھے تھے، ان میں یہ آیات بھی لکھی ہوئی تھی؛ لیکن چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ نے مزید احتیاط کے لیے مذکورہ بالا ذرائع پر اکتفا کرنے کے بجائے متفرق طور پر لکھی ہوی آیتوں کو جمع کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا تھا، اس لیے انھوں نے یہ آیت اس وقت تک اس نئے مجموعہ میں درج نہیں کی جب تک کہ اس تیسرے طریقہ سے بھی وہ آپ کو دستیاب نہیں ہوگئی۔ (علوم القرآن:۱۸۴)