انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ ؓبن مغفل مزنی نام ونسب عبداللہ نام، ابو سعید کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عبداللہ بن مغفل بن عبد بن عفیف بن سہم بن ربیعہ بن عدی بن ثعلبہ بن ذویب بن سعد بن عدی بن عثمان بن مزنیہ مزنی۔ اسلام عبداللہ ۶ھ میں مشرف باسلام ہوئے،قبولِ اسلام کے بعد سب سے اول غزوۂ حدیبیہ میں شریک ہوئے (بخاری کتاب التفسیر باب قول اذیبا یعونک تحت الشجرہ) اوربیعت رضوان کا شرف حاصل کیا۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۴۵) غزوات خیبر میں بھی ہمرکاب تھے،اس غزوہ کا ایک واقعہ بیان کرتےہیں کہ میں خیبر کے محاصرہ میں تھا کہ کسی نے اوپر سے چربی سے بھری ہوئی ایک تھیلی پھینکی ،میں اٹھانے کے لیے بڑھا ،آنحضرتﷺ کی نظر پڑ گئی،مجھے اس پر بڑی ندامت اورشرمندگی ہوئی (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خیبر) فتح مکہ میں بھی شریک تھے اس غزوہ کا یہ عینی مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن آنحضرتﷺ کو اونٹنی کے اوپر سوار سورہ فتح تلاوت کرتے دیکھا۔ (مسلم:۱/۲۵۶،مطبوعۂ مصر) ۹ھ میں تبوک کا غزوہ پیش آیا، اس سال نہایت شدید قحط تھا، اس لیے مسلمانوں کو بڑی دشواری پیش آئی، صاحبِ مقدرت لوگوں کے علاوہ معمولی حیثیت کے مسلمانوں کے لیے اس غزوہ میں شرکت کی کوئی صورت نہ تھی، عبداللہ ؓبن مغفل نادار صحابی تھے، ان کے پاس کوئی سامان نہ تھا، آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر، سامانِ سفر کی درخواست کی یہاں کیا تھا،صاف جواب ملا، لیکن جوش جہاد گھر میں بھی بیٹھنے نہ دیتا تھا، جب سامان سفر کی کوئی صورت نہ نکل سکی، تو اپنی محرومی پر مایوس ہوکر رونے لگے، ایک بزرگ ابن یامین نے روتا دیکھ کر سبب پوچھا ،کہا غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ ﷺ سے سواری مانگی تھی مگر نہیں ملی اور مجھ میں اتنی مقدرت نہیں کہ اپنے پاس سے سامان کروں،یہ سن کر ابن یامین نے سواری کے لیے ایک اونٹ اورزادراہ کے لیے تھوڑی سی کھجوریں پیش کیں، اس مختصر سامان کے ساتھ عبداللہ اوران کے دوسرے ساتھی عبدالرحمن بن کعب غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے (سیرۃ ابن ہشام:۱/۳۱۶) ان ہی ناداروں کے بارہ میں یہ آیہ نازل ہوئی تھی: (مسند احمد بن حنبل:۵/۷۵۴) وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ (توبۃ:۹۲) ترجمہ:اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے، کہ جب وہ تمہارے پاس آئے کہ تم ان کے لیے سواری کا انتظام کرو تو تم نے کہا میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، یہ سن کر وہ لوٹ گئے اورخرچ نہ میسر آنے کے غم میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ بصرہ کا توطن تاحیات نبوی مدینہ میں رہے، آپ کی وفات کے بعد مدینہ چھوڑدیا،حضرت عمرؓ نے جب بصرہ آباد کرایا تو عبداللہ کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بصرہ بھیج دیا، جہاں وہ آخرِ عمر تک مقیم رہے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۱:۷،۸) عراق کی فوج کشی میں شرکت عراق کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے،خوزستان کے صدر مقام شوستر کی تسخیر کے بعد سب سے پہلے یہی شہر میں داخل ہوئے تھے۔ (استیعاب:۱/۳۷۴) وفات کافی عمر پانے کے بعد باختلافِ روایت ۵۹ھ یا ۶۰ ھ میں بصرہ میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے،دم آخر اعزہ سے وصیت کی کہ غسل کے آخری پانی میں کافور ملانا اورکفن میں دو چادریں اورایک قمیص ہوکہ رسول اللہ کا کفن ایسا ہی تھا (مستدرک حاکم:۳/۵۷۸) نہلاتے وقت صرف احباب ہوں رسول اللہ ﷺ کے صحابی غسل دیں ،جنازہ کے پیچھے آگ نہ روشن کی جائے ابن زیاد (گورنر بصرہ) جنازہ کی نماز میں شریک نہ ہو ،وفات کے بعد ان وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا گیا، آنحضرتﷺ کے اصحاب نے نہلایا، جنازہ گھر سے نکلا تو ابن زیاد انتظار میں کھڑا تھا اس کو عبداللہ کی وصیت سنائی گئی،اس کو سن کر تھوڑی دور جنازہ کی مشایعت کرکے گھر لوٹ گیا(ابن سعد،جلد۷،ق۱:۱۸) حسب وصیت آنحضرتﷺ کے صحابی حضرت ابو برزہ اسلمیؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اوربصرہ کی سر زمین میں پیوندِ خاک کئے گئے۔ (اصابہ:۴/۱۳۲) اولاد وفات کے بعد سات اولادیں یاد گار چھوڑیں (استیعاب :۱/۳۷۴) فضل وکمال قبولِ اسلام کے بعد کئی برس تک ذات نبویﷺ سے استفادہ کا موقع ملا تھا، اس لیے ان کی ۴۳ مرویات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان میں سے ۴ متفق علیہ ہیں اورایک میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۲۱۶) حمید بن ہلال ثابت البنانی،مطرب بن عبداللہ معاویہ بن قرہ، عقبہ بن صہبان،حسن بصری، سعید بن جبیر، عبداللہ بن بریدہ (تہذیب التہذیب :۶/۴۲) وغیرہ ان کے رواۃ میں ہیں۔ گو عبداللہ کی مرویات کی تعداد کم ہے،لیکن ان کا علمی اور تعلیمی تجربہ زیادہ تھا؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے جن چھ اصحاب کو اہل بصرہ کی فقہی تعلیم کے لیے بھیجا تھا،ان میں ایک یہ بھی تھے۔ (ایضاً) بدعات سے نفرت عبداللہ کو بدعات سے سخت نفرت تھی، جو چیز انہوں نے عہدِ رسالت اورعہدِ خلفاء میں نہیں دیکھی تھی،یا ان کے علم میں نہ تھی، اس کو کسی طرح نہیں برداشت کر سکتے تھے،ان کے صاحبزادے راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نماز میں بسم اللہ جہر کے ساتھ پڑھی والد نے سن لیا، جب میں نماز تمام کرچکا تو مجھ سے کہا بیٹا اسلام میں باتیں نہ بڑھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ ابو بکرؓ ،عمرؓ اورعثمانؓ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی بسم اللہ (بالجہر) کے ساتھ نماز نہیں شروع کرتا تھا،یہ واقعہ بیان کرکے لڑکے نے کہا میں نے والد سے زیادہ بدعات کو براسمجھنے والا نہیں دیکھا۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۵۵)