انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سلمہ بن اکوعؓ نام ونسب سنان نام، ابوایاس کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، سنان بن عبداللہ بن عبداللہ بن تشیر بن حزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم اقصی۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۶۲) اسلام وہجرت ارباب سیران کے زمانہ اسلام کے بارہ میں خاموش ہیں،مگر اس قدر مسلم ہے کہ ۶ھ کے پہلے مشرف باسلام ہوئے،اسلام کے بعد ہجرت کا شرف حاصل کیا ،اکثر مہاجرین نے مع بال بچوں کے ہجرت کی تھی؛لیکن سلمہ نے راہ اللہ میں بال بچوں کو بھی چھوڑ کر مدینہ کی غربت اختیار کی۔ غزوات مدینہ آنے کے بعد قریب قریب تمام غزوات میں شریک رہے، سب سے پہلے غزوۂ حدیبیہ میں شریک ہوئے اورخلعت امتیاز حاصل کیا، صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں بیعت رضوان کو تاریخ اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے،جب آنحضرتﷺ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر سن کر مسلمانوں سے موت پر بیعت لینا شروع کی تو سلمہؓ نے تین مرتبہ بیعت کی،پہلی مرتبہ سب سے اول جماعت کے ساتھ بیعت کرچکے تھے دوبارہ آنحضرتﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا سلمہ بیعت کرو ،عرض کیا: یا رسول اللہ جاں نثار پہلے ہی بیعت کرچکا ہے،فرمایا کیا ہرج ہے دوبارہ سہی، اس وقت سلمہؓ نہتے تھے،آنحضرتﷺ نے ایک ڈھال عنایت فرمائی،تیسری مرتبہ آنحضرتﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا کہ سلمہؓ!بیعت نہ کروگے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! دو مرتبہ بیعت کرچکا ہوں فرمایا تیسری مرتبہ سہی ؛چنانچہ انہوں نے سہ بارہ بیعت کی،آنحضرتﷺ نے پوچھا سلمہؓ !ڈھال کیا کی؟ عرض کیا کہ میرے چچا بالکل خالی ہاتھ تھے،ان کو دیدی ،آپ نے ہنس کر فرمایا تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے کہ اس نے دعا کی کہ خدایا! مجھ کو ایسا دوست دے جو مجھ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو، ابھی بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ اہل مکہ اورمسلمانوں کے درمیان صلح ہوگئی اور لوگ مطمئن ہوکر ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، سلمہؓ بھی ایک درخت کے نیچے لیٹ رہے،اتنے میں چار مشرکین آئے اوران کے قریب بیٹھ گئے آنحضرتﷺ کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگے جو ان کو ناگوار ہوئیں، یہ اُٹھ کر دوسرے درخت کے نیچے چلے گئے،ان کے جانے کے بعد چاروں ہتھیار اتار کر اطمینان سے لیٹ گئے، ابھی لیٹے ہی تھے کہ کسی نے نعرہ لگایا، مہاجرین دوڑنا ابن زنیم قتل کردیے گئے،آوازسن کر سلمہؓ نے ہتھیار سنبھال لیے اورمشرکوں کی طرف لپکے ،یہ سب سورہے تھے،سلمہؓ نے ان کے اسلحہ پر قبضہ کرکے ان سے کہا خیر اسی میں ہے کہ سیدھے میرے ساتھ چلے چلو، خدا کی قسم جس نے سر اٹھایا، اس کی آنکھیں پھوڑدوں گا، چنانچہ ان سب کو کشاں کشاں لاکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، ان کے چچا عامربھی ستراکہتر مشرک گرفتار کرکے لائے تھے؛لیکن رحمت عالم نے سب کو چھوڑدیا ،اس پریہ آیت نازل ہوئی: وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ (الفتح:۲۴) اور وہ خدا ہی تھا،جس نے عین مکہ میں تم کو کافروں پر فتحیاب کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا۔ مسلمانوں کا قافلہ مدینہ سے واپسی میں ایک پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوا،مشرکین کی نیت کچھ بد تھی، آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی اور پڑاؤ کی نگرانی کی ضرورت محسوس ہوئی؛چنانچہ آپ نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی جو پہاڑ پر چڑھ کر نگرانی کرے، سلمہؓ نے یہ سعادت حاصل کی اور رات بھر میں کئی مرتبہ پہاڑی پر چڑھ کر آہٹ لیتے رہے۔ (مسلم:۲/۹۸،۹۹،مطبوعہ مصر) غزوۂ ذی قروہ آنحضرتﷺ کے کچھ اونٹ ذی قروہ کی چراگاہ میں چرتے تھے،ان کو بنو غطفان ہنکالے گئے،سلمہؓ بن اکوع طلوع فجر کے قبل گھر سے نکلے،تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے غلام نے ان سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے اونٹ لٹ گئے، پوچھا کس نے لوٹا ،کہا بنوغطفان نے ،یہ سن کر آپ نے اس زورکا نعرہ لگایا کہ مدینہ کے اس سرے سے اس سرے تک آواز گونج گئی اور تن تنہا ڈاکؤں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ پانی کی تلاش کررہے تھے کہ سلمہؓ پہنچ گئے، یہ بڑے قادر انداز تھے، تاک تاک کر تیر برسانا شروع کردیے،تیربرساتے جاتے تھے اوریہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ انا ابن الاکوع الیوم یوم الرضع میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن سخت جنگ کا دن ہے اور اس قدر تیر باری کی کہ ڈاکؤں کو اونٹ چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا،اوربدحواسی میں اپنی چادریں بھی چھوڑ گئے،اس درمیان میں آنحضرتﷺ بھی لوگوں کو لے کر پہنچ گئے،سلمہؓ نے عرض کیا،یا رسول اللہﷺ میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا ہے،اگر ابھی ان کا تعاقب کیا جائے تو مل جائیں گے؛لیکن رحمت عالمؓ نے فرمایاکہ قابو پانے کے بعد درگذر کرو۔ (بخاری،جلد۲،کتاب المغازی باب غزوۂ ذی قروہ اورمسلم ،جلد۲،حوالہ مذکور) خیبر اس کے بعد ہی خیبر کی مہم میں داد شجاعت دی، فتح خیبر کے بعد اس شان سے لوٹے کہ آنحضرتﷺ کے دست مبارک میں ہاتھ دیے ہوئےتھے۔ (ایضا باب غزوۂ خیبر) غزوۂ ثقیف وہوازن خیبر کے بعد غزوۂ ثقیف وہوازن میں شریک ہوئے، اس غزوۂ کے دوران میں ایک شخص مسلمانوں کے لشکر گاہ میں اونٹ پر سوار ہوکر آیا اوراس کو باندھ کر مسلمانوں کے ساتھ ناشتہ میں شریک ہوگیا، اس کے بعد چاروں طرف نظر ڈال کر مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لیا اور سوار ہوکر تیزی سے نکل گیا، اس طرح اچانک آنے اور فوراً چلے جانے سے مسلمانوں کو جاسوسی کا شبہ ہوا، ایک شخص نے اس کا تعاقب کیا، سلمہؓ نے بھی پیچھا کیا اورآگے بڑھ کر اس کو پکڑلیا اور تلوار کا ایسا کاری وار کیا کہ ایک ہی وار میں وہ ڈھیر ہوگیا اوراس کی سواری پر قبضہ کرکے واپس ہوئے،آنحضرتﷺ نے دیکھا تو پوچھا، اس شخص کو کس نے قتل کیا، لوگوں نے عرض کیا سلمہؓ نے، فرمایا تو مقتول کا سب سامان ان کا ہے۔ (مسند احم بن حنبل:۴/۵۱) غزوات کی مجموعی تعداد اسلام کے بعد بیشتر غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا،بعض روایتوں میں ہے کہ ۱۴غزوات میں انہوں نے شرکت کی،ان میں سے سات میں آنحضرتﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا اور سات وہ تھے جو آنحضرتﷺ نے مختلف اطراف میں بھیجے،(استیعاب:۲/۵۸۴) اورمستدرک کی روایت کے مطابق ان غزوات کی تعداد سولہ تک پہنچ جاتی ہے۔ (مستدرک:۳/۵۶۲) وفات آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سے برابر مدینہ میں رہے،حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مدینہ چھوڑ کر ربذہ میں سکونت اختیار کرلی،وہاں شادی کی اور اولادیں ہوئیں ،بروایت بخاری۷۴ھ میں پھر مدینہ واپس ہوئے،واپسی کے دو ہی چار دن کے بعد وفات پائی اور گھوم پھر کر بالآخر دیار حبیب کی خاک کا پیوند ہوئے۔ (اصابہ:۳/۱۱۸) فضل وکمال حضرت سلمہؓ شرف محبت سے بھی فیضاب تھے اورغزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہنے کا زیادہ موقع ملا تھا اورحاشیہ نشینان بارگاہِ نبوت سے بھی استفادہ کرتے تھے؛چنانچہ رسول اللہﷺ کے علاوہ حضرت عمرؓ،عثمانؓ اورطلحہؓ سے بھی روایتیں کی ہیں،ا س لیے ان کی مرویات کی تعداد ۷۷ تک پہنچ جاتی ہے، جن میں سے ۱۶ متفق علیہ ہیں اور ۵ میں بخاری اور ۹ میں امام مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۱۴۸) ان کے رواۃ میں ایاس بن سلمہ،یزید بن عبید،عبدالرحمن بن عبداللہ اورمحمد بن حنیفہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب تذکرہ سلمہ بن اکوع) انفاق فی سبیل اللہ خداکی راہ میں خرچ کرنے میں بہت فیاض تھے،جو شخص اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا اس کو کبھی ناکام ناواپس کرتے اورفرماتے کہ جو شخص راہ اللہ میں نہیں دے گا، پھر کس میں دے گا ؛لیکن اللہ کا واسطہ دے کر مانگنے کو براسمجھتے تھے کہ اس میں الحاف ہے۔ (ابن سعدجز۴،قسم۲:۴۰) صدقات سے اجتناب مگر اپنی ذات کے لیے صدقہ کا مال حرام سمجھتے تھے،اگر کسی چیز میں صدقہ کا شائبہ بھی ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے؛چنانچہ اپنی صدقہ کی کوئی چیز دوبارہ بقیمت خریدنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ (ابن سعد،جز۴،قسم۲:۴۰) شدت احتیاط تمام اوامر ونواہی میں احتیاط کا یہی حال تھا (ابن سعدجز۴،قسم۲:۴۰) چنانچہ بعض ایسے کھیل جن میں جوئے کی مشابہت کا شائبہ نکلتا تھا ،اپنے بچوں کو نہ کھیلنے دیتے تھے۔ (اصابہ:۳/۱۱۸) شجاعت شجاعت وبہادری خصوصا ًپیدل تیز دوڑنے میں تمام صحابہ میں ممتاز تھے، صاحبِ اصابہ لکھتےہیں"کان من الشجعان ویسبق الفرس عدوا "یعنی وہ بہادروں میں سے ایک تھے اور دوڑ میں گھوڑوں سے مقابلہ کرتے تھے اوران سے آگے بڑھ جاتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بہتر سواروں میں ابوقتادہؓ اوربہتر پیادوں میں سلمہ بن اکوعؓ ہیں، اس تعریف کے بعدآپ کو دو حصے دیے، سوارکا الگ اورپیدل کا الگ۔ (ابن سعدجز۴،ق۲،:۳۹)