انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعید بن جبیر ؒ حضرت سعید بن جبیر مشہورتابعی ہیں، آپ کا شمار کبارتابعین میں ہوتا ہے، آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ،حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ ،حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اورعائشہ رضی اللہ عنہا جیسے صحابہ سے استفادہ کیاہے۔ (تھذیب التھذیب:۱۱۴) تفسیر حدیث اورفقہ میں آپ ممتاز تھے،حضرت ابن عباس سے آپ نے قرأت اورتفسیر کا درس لیا اورآپ ہی سے وابستہ رہے سعید بن جبیر نے مختلف صحابہ کی قرأتیں حفظ کررکھی تھیں اوراس کو پڑھتے بھی تھےجیسا کہ اسماعیل بن عبدالملک کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے، فرماتے ہیں کہ سعید بن جبیر رمضان کے مہینہ میں ہمیں نماز پڑھاتے تھے اس دوران کسی رات وہ عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت کے موافق قرآن پڑھتے تھے تو کسی رات زید بن ثابتؓ کی قرأت پر قرآن پڑھتے تھے اورکسی رات کسی اورکی قرأت پر قرآن پڑھتے تھے یہی ہمیشہ کا معمول تھا،لہذا اس سے یہ بات بلا کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ ان مختلف قرأتوں کے جمع کرنے کی بناء پر آپ کو قرآن کریم کے معانی ومطالب اوراس کے لطائف واسرار پر گہری واقفیت ہوگئی تھی(التفسیر والمفسرون:۳۳)چنانچہ قتادہ فرماتے ہیں :سعید تابعین میں تفسیر قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے، سفیان ثوریؒ کہتے ہیں تفسیر کو چار حضرات سے سیکھو،سعید بن جبیر،مجاھد،عکرمہ اورضحاک سے۔ (الاتقان:۴۱۸۲) میمون بن مہران کا بیان ہے سعید بن جبیر خدا سے اس حال میں جاملے کہ سطح زمین میں کا ہرشخص ان کے علم کا محتاج تھا۔ (سیر اعلام النبلاء:۳۳۵۴) خصیف کا بیان ہے تابعین میں طلاق کے مسائل کے سب سے بڑے عالم سعید بن المسیب ہیں اورمناسک حج کے سب سے بڑے عالم عطاء ہیں ،حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے طاؤس ہیں، تفسیر کے سب سے بڑے عالم مجاہدبن جبر ہیں اور ان سب علوم کے جامع سعید بن جبیر ؒہیں۔ (وفیات الاعیان:۳۷۲۲) ابن المدینی فرماتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اصحاب و تلامذہ میں سعید بن جبیر جیسا کوئی نہیں، کسی نے کہا طاؤس بھی نہیں آپ نے فرمایا:طاؤس بھی نہیں(سیر اعلام النبلاء:۴۳۴۱)تفسیر میں یہ مقام و مرتبہ رکھنے کے باوجود وہ تفسیر بالرائے کو پسند نہیں کرتے تھے، ابن خلکان بیان کرتے ہیں :کسی نے ان سے تفسیر قرآن لکھنے کی فرمائش کی تو وہ خفا ہوگئے اورفرمایا میرے جسم کا ایک حصہ شل ہوجائے یہ مجھے تفسیر قرآن لکھنے سے زیادہ محبوب ہے،(وفیات الاعیان ۲۳۷۱) آپ کو حجاج بن یوسف کے حکم پرسنہ۹۵ھ میں شہید کردیا گیا شہادت سے قبل حجاج بن یوسف کے ساتھ آپ کا ایمان افروز واقعہ کتب تاریخ میں معروف ومشہور ہے۔ (التفسیر والمفسرون:۳۴) تفسیری اقوال سعید بن جبیرؒ کے تفسیری اقوال کی ۳ مثالیں بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں۔ (۱)ابوالبشر فرماتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے کوثر کی تفسیر دریافت کی تو سعید بن جبیر نے فرمایا کوثر وہ خیر کثیر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو عطا فرمایا، میں نے کہا ہم تو سنتے تھے کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے، توآپ نے فرمایا: وہ نہر بھی اسی خیر میں داخل ہے جسے اللہ تعالی نے آپ ﷺکو عطا فرمایا ہے۔ (تفسیر طبری:۶۴۸۲۴) (۲)سعید بن جبیر اس آیت : "قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ"۔ (یوسف:۷۷) کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو تعجب نہیں کیونکہ اس کا ایک بھائی (یعنی یوسفؑ)تھا وہ بھی اس سے پہلے چوری کرچکا۔ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں یوسف علیہ السلام کے نانا یعنی ان کی ماں کے باپ کافر تھے بتوں کو پوجتے تھے تو ان کی ماں نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان بتوں کو چپکے سے لیجا کر اسے توڑدیں، ممکن ہے کہ وہ اس طرح بتوں کی پوجا سے باز آجائیں تعمیل ارشاد میں یوسف علیہ السلام نے ایسا ہی کیا (اسی کو ان کے بھائیوں نے چوری سے تعبیر فرما کر یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا ،اس کی اور بھی تفسیریں ہے تفصیل کے لیے کتب تفسیر کی طرف مراجعت فرمالیں)۔ (تفسیر کبیر:۱۸۱۴۷) (۳)اللہ تعالی کے اس ارشاد"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ"(البقرۃ:۱۷۹) (اوراے عقلمندلوگو! اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے ہم امید کرتے ہیں کہ تم لوگ (ایسے قانون کی خلاف ورزی کرنے سے پرہیز رکھو گے) کی تفسیرکرتے ہوئے سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں یعنی جس شخص کو عقل وفہم کی دولت حاصل ہوگی وہ جب قصاص کو یاد کرے گا تو قصاص کا خوف اس کو قتل کرنے سے روک دے گا "لعلکم تتقون" تاکہ تم قصاص کے خوف سے ایک دوسرے کا خون بہانے سے بچےر ہو۔