انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امیر معاویہ اورحسینؓ ممکن ہے حضرت امام حسینؓ کا دل امیر معاویہؓ کی جانب سے صاف نہ رہا ہو،یا وہ ان کو اچھا نہ سمجھتے ہوں لیکن دونوں کے ظاہر تعلقات خوشگوار تھے اورامیر معاویہؓ ان کا بڑا لحاظ رکھتے تھے، حضرت حسنؓ نے دستبرداری کے وقت حسینؓ کے لئے جورقم مقرر کرائی تھی وہ امیر معاویہؓ انہیں برابر پہنچاتے رہے ؛بلکہ اس رقم کے علاوہ بھی مسلوک ہوتےرہتے تھے البتہ یزید کے ولیعہدی کے وقت ناخوشگواری پیدا ہوگئی تھی،لیکن اس میں بھی کوئی بدنما صورت نہیں پیدا ہونے پائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۵۶ھ میں جب امیر معاویہؓ نے اہل مدینہ سے یزید کی بیعت لینی چاہی تو طبری کے بیان کے مطابق سوائے چند لوگوں کے کل اہل مدینہ نے بیعت کرلی بیعت نہ کرنے والوں میں ایک امام حسینؓ بھی تھے، لیکن جب عام بیعت ہوگئی تو امیر معاویہؓ نے ان لوگوں سے کچھ زیادہ اصرار نہیں کیا(طبری:۷۱۹۷) یہ طبری کی روایت ہے ابن اثیر کی روایت کی رو سے امیر معاویہؓ نے پہلے تمام اکابر مدینہ سے بزور بیعت لی اوران کی بیعت کو عوام کے سامنے سند میں پیش کرکے سب سے بیعت لی اورکسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا، سب خاموش رہے،ان خاموش رہنے والوں میں حضرت حسینؓ بھی تھے، اس کی تفصیل امیر معاویہؓ کے حالات پر لکھی جاچکی ہے۔ امیر معاویہؓ نہایت زمانہ شناس اوربڑے عاقبت بین مدبر تھے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے اندازہ کرلیتے تھے چنانچہ اس کا یقین تھا کہ ان کے بعد ابن زبیر ضرور خلافت کا دعویٰ کریں گے اورحسینؓ کو بھی اہل عراق یزید کے مقابلہ میں کھڑا کردیں گے اس لئے موت کے وقت یزید سے دونوں کے بارہ میں وصیت کرتے گئے، حضرت حسینؓ کے متعلق خاص طور سے تاکید کی تھی کہ میرے بعد عراق والے حسین ؓ کو تمہارے مقابلہ لاکر چھوڑیں گے جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہوجائے تو درگذر سے کام لینا کیونکہ وہ قرابت دار، بڑے حقدار اوررسول اللہ ﷺ کے عزیز ہیں۔ (طبری:۷/۱۹۰،والفخزی:۱۰۲)