انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کیا قرآن وحدیث برابر کے ماخذ علم ہیں؟ یہ صحیح ہے کہ بعض روایات حدیث میں کتاب و سنت کو دوبرابر کے ماخذ علم کی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے "ترکت فیکم امرین" اور "انی تارک فیکم الثقلین" کی تعبیرات دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرتی ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام مرویات میں کتاب اللہ کا ذکر پہلے اورسنت یا حدیث کا ذکر بعد میں ہے،یہ صحیح ہے کہ عربی زبان میں واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی ؛لیکن سینکڑوں روایات میں ایک ہی ترتیب کا التزام بتلاتا ہے کہ قرآن مجید ہمیشہ سے مقدم رہا ہے اورحدیث قرآن کی برابری کے لیے نہیں اس کا آگے عملی پھیلاؤ ہے،یہ نہر ہدایت منبع قرآن سے ہی نکلی ہے اورحدیث میں ہر جگہ قرآن کو ہی سربراہ تسلیم کیا گیا ہے، علوم اسلامی کے تمام سوتے قرآن سے ہی پھوٹے ہیں اور یہی منبع علم ہے جو آگے پھیلتا چلا گیا؛پھر ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن میں آنحضرتؐ نے صرف قرآن کوہی پیش کیا ہے؛ اسی کو حق سے وابستگی بتلایا ہے؛ اسی کو حق کا نشان کہا ہے اوربنی نوع انسان کو اسی کی ابدی سچائی کی طرف دعوت دی ہے۔ ان تمام روایات کا حاصل صحابہ کرامؓ اور ائمہؒ دین کے ہاں یہی سمجھا گیا کہ یہاں کتاب اللہ یا قرآن پاک سے صرف قرآن پاک مراد نہیں بلکہ قرآن پاک بشمول سنت کاملہ مراد ہے، سنت کریمہ قرآنی ارشاد واطیعوالرسول میں لپٹی ہوئی ہے اور اس پہلو سے یہ قرآن پاک کا ہی جز ہے؛ اسی تشریح سے ان روایات کو جن میں صرف قرآن پاک کی تعمیل کا حکم ہے، ترکت فیکم امرین وغیرہ سے تطبیق دی گئی ہے، محدثین کے ہاں ان روایات میں قرآن مجید سے صرف قرآن پاک کبھی مراد نہیں لیا گیا؛ یہاں علم کے دونوں ماخذ مراد ہیں۔