انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عامربن فہیرہؓ نام،نسب عامرنام،ابوعمروکنیت ،والد کانام فہیرہ تھا، یہ طفیل بن عبداللہ کے غلام تھے جوحضرت عائشہؓ کے اخیافی بھائی اورقبیلہ ازدکے ایک ممبر تھے۔ (کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع الخ) اسلام حضرت عامرؓ نے ابتداء ہی میں دعوتِ توحید کو آویزۂ گوش وہوش بنایا تھا،آنحضرت ﷺ اس وقت تک ارقم بن ابی الارقم ؓ کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے، غلامانہ بے بسی کے ساتھ اس حق پسندی نے قدرۃ ان کو سخت سے سخت مصائب میں مبتلا کیا، طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں، لیکن آخروقت تک استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دستِ کرم نے قید غلامی سے نجات دلائی۔ (اسد الغابہ:۳/۹۱) ہجرت ہجرت کےموقع پر جب آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ غارِ ثور میں پوشیدہ ہوئے تو حضرت عامر بن فہیرہ ؓ کے متعلق یہ خدمت تھی کہ وہ دن بھر مکہ کی چراگاہ میں حضرت ابوبکرؓ کی بکریاں چراتے، شام کو غار کے پاس لے آتے، یہاں ان کا دودھ دوھ کر استعمال کیا جاتا، صبح کے وقت حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ جو عموماً شب کے وقت حاضر ہوکر مکہ کی سرگذشتہ سنایا کرتے تھے، واپس جاتے تو بکریوں کو ان کے نشانِ قدم پر لے چلتے کہ مشرکین کو کچھ شبہ نہ ہو،(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع) غرض جب یہ قافلہ غارثور سے آگے بڑھا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا مدینہ پہنچ کر وہ حضرت سعد بن خثیمہ ؓ کے مہمان ہوئے اورحضرت حارث بن اوس ؓ ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۶۴) ابتداءً مدینہ کی آب وہوا جن لوگوں کو راس نہ آئی ان میں سے ایک حضرت عامر بن فہیرہؓ بھی تھے، یہ اس قدر سخت بیمار ہوئے کہ زندگی سے یاس ہوگئی، شدتِ بحران کے وقت یہ اشعار ورد زبان ہوتے تھے: (اصابہ تذکرہ ابن فہیرہ ؓ) انی وجدک الموت قبل ذوقہ ان الجبان حتفہ من فوقہ میں نے موت سے پہلے اس کا مزہ چکھ لیا،بے شک بزدل کی موت اوپر ہی سے ہے کل امرء مجاھد بطوتہ کالثوریحمی انفہ بروقہ ہر شخص اپنی طاقت سے کوشش کرتا ہے ، جس طرح بیل اپنی ناک کو سینگ سے محفوظ رکھتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو جب مہاجرین کرام ؓ کی علالت کی خبر ملی تو آپ نے دعافرمائی: "اے خدا تو مدینہ کو مکہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ہمارے لیے پسندیدہ بنا اور اس کو بیماریوں سے پاک کر" دعامقبول ہوئی اورحضرت عامر بن فہیرہ ؓ بسترِ علالت سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ (بخاری باب ہجرت النبی واصحابہ الی المدینہ) غزوات غزوۂ بدرواحد میں شریک تھے، ۴ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ستر قاریوں کی ایک جماعت کو مشرکین بیرِ معونہ کی تبلیغ و تلقین پر مامور فرمایا، حضرت عامر بن فہیرہ ؓ بھی اس میں شامل تھے قبائل ذکوان وغیرہ نے غداری کے ساتھ اس تمام جماعت کو شہید کردیا، صرف حضرت عمروبن امیہ ضمریؓ زندہ گرفتار ہوئے،عامر بن طفیل نے ان سے ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ بولے"عامر بن فہیرہؓ" اس نے کہا میں نے ان کو مقتول ہونے کے بعد دیکھا کہ آسمان کی طرف اٹھالیے گئے، یہاں تک کہ آسمان و زمین کے درمیان بالکل معلق نظر آئے، پھر زمین پر رکھ دیئے گئے۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع) تعجب انگیز شہادت حضرت عامر بن فہیرہؓ کے سینہ سے جس وقت جباربن سلمی کا نیز ہ پارہوا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا: "خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا" لاش تڑپ کر آسمان کی طرف بلند ہوئی، ملائکہ نے تجہیز وتکفین کی، اورروح اقدس کے لیے اعلی علیین کے دروازے کھول دیئے گئے، جباربن سلمی کو اس کرشمہ قدرت نے سخت متعجب کیا اور وہ متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :۳۷) اخلاق حضرت عامربن فہیرہؓ صورت ظاہری کے لحاظ سے گوسیاہ فام حبشی تھے، ذاتی وجاہت کا یہ حال تھا کہ ۳۴ سالہ زندگی کا بڑا حصہ ستم پیشہ آقاؤں کی غلامی میں بسر ہوا، لیکن فطری جوہر اخلاق ان ظاہری فریب آرائیشوں کا محتاج نہیں، وہ غریبی اور امیری میں ہمیشہ یکساں اپنی چمک دکھاتا ہے، انہوں نے گوناگوں مصائب و مظالم کے مقابلہ میں جس طرح استقلال واستقامت کا اظہار فرمایا وہ یقینا ًان کے دستارِ فضل کاایک نہایت خوشنما طرہ ہے۔ رازداری کا یہ حال ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے نازک سے نازک موقع پر ان کو اپنا معتمد علیہ بنایا، شوقِ شہادت نے ان کو دنیا سے بے نیاز کردیا تھا ،چنانچہ غزوۂ بیرِ معونہ میں جب برچھی جگر سے پار ہوگئی تو یہ کلمہ زبان پر تھا: فزت واللہ یعنی خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ (طبقات ابن سعدِ حصہ مغازی :۳۷)