انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** .ایک سوال اوراس کا جواب مشہور ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا: "انظر الی ماقال ولا تنظر الی من قال" (اسے دیکھو! جوکسی نے کہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے) معلوم ہوا کہ ہمیں متن سے غرض ہونی چاہئے سند سے نہیں؟۔ اگریہ بات حضرت علیؓ سے ثابت بھی ہو تو اس کا موضوع دانائی اورحکمت کی باتیں ہیں،قانون اور تاریخ کی باتیں نہیں،حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے،جہاں بھی ملے اس نے اپنی متاع پالی،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے،جو شخص کوئی بات نقل کرے یا کوئی قانون بیان کرے تو اسے بغیر جانے کہ کون کہہ رہا ہے لے نہیں لیا جاتا؛ بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص کہاں سے نقل کررہا ہے اور یہ کہ وہ خود کیسا شخص ہے،دیانت دارہے یانہ؟ کس حکومت کا نمائندہ اور کس قانون کا ترجمان ہے؛ اگر اس کے پاس اس بات کی جو وہ کہہ رہا ہے سند نہ ہو تو اس کا کوئی اعلان ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔ شریعت بھی قانونِ الہٰی ہے اوریہ نقل سے ہی پہچانی جاتی ہے،البتہ اس کے بعض پہلو استنباط سے کھلتے ہیں، شریعت کسی تجربے اور حکمت سے مرتب نہیں ہوتی،نہ یہ کبھی حکمت عملی کے نام سے ترتیب پاتی ہے،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امت نے اتفاق کیا ہے کہ وہ معرفت شریعت میں سلف پر اعتماد کریں، تابعینؓ نے صحابہؓ پر تبع تابعینؓ نے تابعینؓ پر اور اسی طرح ہر طبقہ کے علماء نے اپنے سے پہلوں پر اعتماد کیا ہے اور عقل اس کی تحسین پر دلالت کرتی ہے؛ اس لیے کہ شریعت نقل اوراستنباط سے ہی پہچانی جاتی ہے اور نقل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتی؛کہ ہر طبقہ اسے اپنے پہلوں سے اتصال کے ساتھ لیتا رہے۔ (عقد الجید:۵۴،مترجم طبع: کراچی) پس! علم شریعت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بات کہاں سے آرہی ہے،اس کا ماخذ کیا ہے؟ بات کہاں سے ہے اوراسے آگے روایت کرنے والے کس قوم کے لوگ ہیں؟ کیا ان پر اعتماد کرکے آخرت کی تمام زندگی ان لوگوں کی نقل و روایت کے سپرد کی جاسکتی ہے؟ دنیوی امور کے کسی اہم فیصلے سے یہ فیصلہ کہیں زیادہ اہم ہے۔