انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہا نام ونسب اسماء نام، ذات النطاقین لقب، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں، ماں کا نام قتلہ بنت عبدالعزیٰ تھا، ہجرت سے ۲۷/سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ نکاح حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ اسلام اپنے شوہر کی طرح انہوں نے بھی قبول اسلام میں سبقت کی، ابن اسحاق کے قول کے مطابق ان کا ایمان لانے والوں میں اٹھارہوا نمبر تھا۔ عام حالات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رفیق صحبت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کوان کے گھر تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے سفر کا سامان کیا، دوتین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا، نطاق جس کوعورتیں کمرمیں لپیٹتی ہیں پھاڑ کراس سے ناشتہ دان کا منہ باندھا، یہ وہ شرف تھا جس کی بناپرآج تک ان کوذات النطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (بخاری:۱/۵۵۳،۵۵۵) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کے وقت کل روپیہ ساتھ لے گئے تھے، ابوقحافہ کو جوحضرت ابوبکرؓ کے والد تھے، معلوم ہوا بولے کہ انہوں نے جانی اور مالی دونوں قسم کی تکلیف دی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا وہ کثیردولت چھوڑ گئے ہیں، یہ کہہ کراُٹھیں اور جس جگہ حضرت ابوبکر رضی الہ عنہ کا مال رہتا تھا بہت سے پتھر رکھدیے اور ان پرکپڑا ڈال دیا؛ پھرابوقحافہ کولے گئیں اور کہا ٹٹول لیجئے، دیکھئے یہ رکھا ہے، ابوقحافہ نابینا ہوگئے تھے اس لیے مان گئے اور کہا: کھانے کے لیے بہت ہے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے صرف ابوقحافہ کی تسکین کے لیے ایسا کیا تھا؛ ورنہ وہاں ایک حبہ بھی نہ تھا۔ (مسندابن حنبل:۶/۳۵۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کرمستورات کوبلوایا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی آئیں (اصابہ:۴/۲۲۹) قبامیں قیام کیا، یہاں عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے، ان کولیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کوگود میں لیا، گھٹی دی اور ان کے لیے دعا فرمائی (بخاری:۱/۵۵۵) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جوان ہوئے تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ان کے پاس رہنے لگیں؛ کیونکہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کوطلاق دے دی تھی۔ (فتح الباری:۶/۱۶۳۔ اسدالغابہ:۵/۳۹۲) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے گھٹی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ مبارک پیا تھا، اس بناپر جب سن شعور کوپہنچے توفضائلِ اخلاق کے پیکر مجسم تھے، ادھرسلطنتِ بنوامیہ کا فرمانروا (یزید) سرتاپا فسق وفجور تھا، حضرت عبداللہ نے اس کی بیعت سے انکار کیا، مکہ میں پناہگزیں ہوئے اور وہیں سے اپنی خلافت کی صدابلند کی؛ چونکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی عظمت وجلالت کا ہرشخص معترف تھا اس لیے تمام دنیائے اسلام نے اس صدا پرلبیک کہی اور ملک کا بڑا حصہ ان کے علم کے نیچے آگیا؛ لیکن جب عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا تواس نے اپنی حکمتِ عملی سے بعض صوبوں پرقبضہ کرلیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کی تیاریاں کیں، شامی لشکر نے خانہ کعبہ کا محاصر ہ کیا توابن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت اسماء رضی اللہ عنہاکے پاس آئے وہ بیمار تھیں پوچھا کیا حال ہے؟ بولیں، بیمارہوں، کہا: آدمی کوموت کے بعد آرام ملتا ہے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: شائد تم کومیرے مرنے کی تمنا ہے؛ لیکن میں ابھی مرنا پسند نہیں کرتی میری آرزو یہ ہے کہ تم لڑکرقتل ہواور میں صبر کروں یاتم کامیاب ہو او رمیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہنس کرچلے گئے، شہادت کا وقت آیا تودوبارہ ماں کی خدمت میں آئے وہ مسجد میں بیٹھیں تھیں صلح کے متعلق مشورہ کیا، بولیں بیٹا! قتل کے خوف سے ذلت آمیز صلح بہتر نہیں؛ کیونکہ عزت کے ساتھ تلوار مارنا ذلت کے ساتھ کوڑا مارنے سے بہتر ہے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس پرعمل کیا اور لڑکرمردانہ وار شہادت حاصل کی، حجاج نے ان کی لاش کوسولی پرلٹکادیا، ۳/دن گذرنے پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کنیزکوساتھ لےکر اپنے بیٹے کیلاش پرآئیں، لاش الٹی لٹکی تھی، دل تھام کراس منظر کودیکھا اور نہایت استقلال سے کہا: کیا اس سوار کے گھوڑے سے اترنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ (اسدالغابہ:۳/۱۶۳۔ استیعاب:۱/۳۶۶) حجاج کوچھیڑ منظور تھی، آدمی بھیجا کہ ان کوجاکرلائے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انکار کیا، اس نے پھرآدمی بھیجا کہ ابھی خیریت ہے ورنہ آئندہ جوشخص بھیجا جائے گا وہ بال پکڑ کرگھسیٹ لائے گا حضرت اسماء رضی اللہ عنہا صرف خدا کی شانِ جباری کی معترف تھیں، جواب دیا میں نہیں جاسکتی، حجاج نے مجبوراً خود جوتا پہنا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آیا اور حسب ذیل گفتگو ہوئی، حجاج نے کہا: کہیے میں نے دشمنِ خدا (ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ کیا سلوک کیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں تونے ان کی دنیا بگاڑی اور انہوں نے تیری عاقبت خراب کی! میں نے سنا ہے کہ توان کوطنزاً ذات النطاقین کا بیٹا کہتا ہے، خدا کی قسم ذات النطاقین میں ہوں میں نے نطاق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کھانا باندھا تھا اور دوسرے کوکمر میں لپیٹتی تھی؛ لیکن یہ یاد رہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم پیدا ہوگا؛ چنانچہ کذاب کودیکھ چکی ہوں اور ظالم توہے، حجاج نے یہ حدیث سنی توچپکا اُٹھ کھڑا ہوا۔ (صحیح مسلم:۲/۳۷۵) چند دنوں کے بعد عبدالملک کا حکم پہنچا توحجاج نے لاش اترواکریہود کے قبرستان میں پھنکوادی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے لاش اُٹھواکر گھرمنگوایا اور غسل دلواکر جنازہ کی نماز پڑھی، حضرت ابن زبیر کا جوڑ جوڑ الگ تھا، نہلانے کے لیے کوئی عضو اُٹھایا جاتا توہاتھ کے ساتھ چلاآتا تھا؛ لیکن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ کیفیت دیکھ کرصبر کیا کہ خدا کی رحمت ان ہی پارہ پارہ ٹکڑوں پرنازل ہوتی ہے۔ وفات حضرت اسماء رضی اللہ عنہا دعا کرتی تھیں کہ جب تک میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کی لاش نہ دیکھ لوں مجھے موت نہ آئے (استیعاب:۱/۳۶۶) چنانچہ ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے داعیِ اجل کولبیک کہا، یہ جمادی الاولی سنہ۷۳ھ کا واقعہ ہے اس وقت ان کی عمر سوسال کی تھی۔ اولاد حسب ذیل اولاد ہوئی، عبداللہ رضی اللہ عنہ، منذر، عروہ، مہاجر، خدیجۃ الکبریٰ، ام الحسن، عائشہ۔ (طبری:۳/۲۴۶۱) حلیہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سوبرس کی تھیں؛ لیکن ایک دانت بھی نہیں گراتھا اور ہوش وحواس بالکل درست تھے (اصابہ:۸/۸) دراز قد اور لحیم شحیم تھیں، اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ (مسند:۶/۳۴۸۔ اسدالغابہ:۵/۳۹۳) فضل وکمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ۵۶/حدیثیں روایت کی ہیں، جوصحیحین اور سنن میں موجود ہیں، راویوں میں حسب ذیل اصحاب ہیں: عبداللہ رضی اللہ عنہ، عروہ (پسران) عباد بن عبداللہ، عبداللہ بن عروہ (نبیرگان)، فاطمہ بنت المنذر، ابن زبیر رضی اللہ عنہ، عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن کیسان (غلام)، ابن عباس رضی اللہ عنہ، صفیہ بنت شیبہ، ابن ابی ملیکہ، وہب بن کیسان، ابوبکر وعامر (پسرانِ ابن زبیر رضی اللہ عنہ)، مطلب بن حنطب، محمد بن منکدر، مسلم معری، ابونوفل ابن ابوعقرب ۔ اخلاق حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بالطبع نیکی کی طرف مائل تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، نماز کوبہت طول دیا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا ان کے پاس دوعورتیں کھڑی تھیں، جن میں ایک فربہ اور دوسری لاغر تھی یہ دیکھ کر انہو نے اپنے دل کوتسلی دی کہ مجھے ان سے زیادہ دیرتک کھڑا رہنا چاہئے (مسند:۶/۳۴۹) لیکن چونکہ نماز کئی گھنٹے تک ہوئی تھی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کوغش آگیا اور سرپرپانی چھڑکنے کی نوبت آئی۔ (بخاری:۱/۱۴۴) ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ ان کے سرمیں درد ہوتا توسرپکڑ کرکہتیں (یہ میرا گناہ ہے اور جو گناہ خدا معاف کرتا رہتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں)۔ حق گوئی ان کا خاص شعار تھا اس کی متعدد مثالیں اوپرگذرچکی ہیں، حجاج بن یوسف جیسے ظالم اور جبار کے سامنے وہ جس صاف گوئی سے کام لیتی تھیں وہ بجائے خود اپنے آپ ہی نظیر ہے، ایک دن وہ منبرپربیٹھا ہوا تھا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنی کنیز کے ساتھ آئیں اور دریافت کیا کہ امیر کہاں ہے، معلوم ہوا توحجاج کے قریب گئیں، اس نے دیکھتے ہی کہا: تمہارے بیٹے نے خدا کے گھر میں الحاد پھیلایا تھا، اس لیے خدا نے اس کوبڑا دردناک عذاب دیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے برجستہ جواب دیا توجھوٹا ہے، وہ ملحد نہ تھا؛ بلکہ صائم، پارسا اور شب بیدار تھا۔ (مسند:۶/۳۵۱) نہایت صابر تھیں، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک قیامت تھی جوان کے لیے قیامتِ کبریٰ بن گئی تھی؛ لیکن اس میں انہوں نے جس عزم، جس استقلال، جس صبر اور جس تحمل سے کام لیا اس کی تاریخ میں بہت کم نظیریں مل سکتی ہیں۔ حددرجہ خوددار تھیں، حجاج بن یوسف جیسے امیر کی نخوت بھی ان کی خودداری کی چٹان سے ٹکراکرچور چور ہوجاتی تھی۔ بااینہمہ نہایت متواضع اور خاکسار تھیں، محنت مشقت میں ان کوبالکل عار نہ تھا؛ چنانچہ جب ان کا نکاح ہوا توحضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ نہ تھا، صرف ایک اونٹ اور ایک گھوڑا تھا، وہ گھوڑے کودانہ دیتی، پانی بھرتی اور ڈول سیتی تھیں، روٹی پکانی نہیں آتی تھی، اس لیے آٹا گوندھ کر رکھتی اور انصار کی بعض عورتیں پکادیتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوجوزمین عنایت فرمائی تھی وہاں جاکر وہ چھوہاروں کی گٹھلیاں چنتی اور تین فرلانگ سے سرپرلادکرلاتی تھیں ایک دن اسی حالت میں آرہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی آپ نے اپنے اونٹ کوبٹھایا کہ سوار ہوجائیں؛ لیکن ان کوشرم معلوم ہوئی اور اونٹ پرنہ بیٹھیں گھرآکر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے سارا قصہ بیان کیا انہوں نے کہا: سبحان اللہ سرپربوجھ لادنے سے شرم نہیں آئی؟ کچھ زمانہ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کوایک غلام دیا جوگھوڑے کی تربیت اور پرداخت کرتا تھا؛ اسی وقت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی مصیبت کم ہوئی، کہتی تھیں فَکَأَنَّمَا اعتَقَنِیْ یعنی گویا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ کوآزاد کردیا۔ غربت کی وجہ سے جوکچھ خرچ کرتیں ناپ تول کرخرچ کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ پھرخدا بھی ناپ کردیگا، اس وقت سے یہ عادت چھوڑ دی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آمدنی وافرہوگئی اور پھرکبھی تنگدست نہیں ہوئیں۔ (مسند:۶/۳۵۲) حددرجہ فیاض تھیں، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے ان سے بڑھ کرکسی کوفیاض نہیں دیکھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جوان کے حصہ میں آیا تھا؛ لیکن انہوں نے اس کوایک لاکھ درہم پرفروخت کرکے کل رقم عزیزوں پرتقسیم کردی (بخاری،بَاب هِبَةِ الْوَاحِدِ لِلْجَمَاعَةِ) بیمار پڑتیں تواپنے تمام غلام آزاد کردیتی تھیں (خلاصۂ تہذیب:۴۸۸) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا مزاج تیز تھا اس لیے انہوں نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں بلااجازت ان کے مال سے فقراء کوخیرات دے سکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ (مسند:۶/۳۵۳) ایک مرتبہ ان کی ماں مدینہ میں آئیں اور ان سے روپیہ مانگا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ مشرک ہیں، کیا ایسی حالت میں ان کی مدد کرسکتی ہوں؟ ارشاد ہوا: ہاں! (اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو)۔ (صحیح بخاری:۲/۸۸۴) حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کئی حج کئے، پہلا حج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا (صحیح مسلم:۱/۴۷۹) اس میں جوکچھ دیکھا تھا (بخاری:۱/۲۳۷) ان کوبالکل یاد تھا؛ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب حج کے لیے آئیں اور مزدلفہ میں ٹھہریں تورات کونماز پڑھی؛ پھراپنے غلام سے پوچھا: چاند چھپ گیا، اس نے کہا نہیں، جب چاند ڈوب گیا بولیں کہ اب رمی کے لیے چلو، رمی کے بعد پھرواپس آئیں اور صبح کی نماز پڑھی، اس نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی، فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشینوں کواس کی اجازت دی ہے (بخاری:۱/۲۳۷) جب کبھی حجون سے گذرتیں، کہتیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہاں ٹھہرے تھے، اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا، ہم نے اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور زبیر رضی اللہ عنہ نے عمرہ کیا تھا اور طواف کرکے حلال ہوئے تھے۔ (بخاری:۱/۲۳۷) نہایت بہادر تھیں، اخلاقی جرأت کے چند واقعات اوپرگذرچکے ہیں، سعید بن عاص کے زمانہ حکومت میں جب اسلام میں فتنہ پیدا ہوا اور بدامنی شروع ہوگئی توانہوں نے ایک خنجر رکھا تھا، لوگوں نے پوچھا: اس کا کیا فائدہ ہے؟ بولیں اگرکوئی چور آئے گا تواس سے اس کا پیٹ چاک کرونگی۔ (ذیل طبری:۱۳/۲۴۶۱) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے تقدس کا عام چرچا تھا، لوگ ان سے دعا کراتے تھے، جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی اور دعا کے لیے آتی تواس کےسینہ پرپانی چھڑکتیں اور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کوپانی سے ٹھنڈا کرو۔ (صحیح بخاری:۲/۸۵۲) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ بخار آتشِ جہنم کی گرمی سے ہے، اس کوپانی سے ٹھنڈا کرو۔ (صحیح بخاری، بَاب الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ) گھرکاکوئی آدمی بیمار ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ (جس کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت ان کے سپرد کیا تھا) دھوتی اور اس کا پانی پلاتی تھیں، اس سے بیمار کوشفا ہوجاتی تھی۔ (مسند:۶/۳۴۸)