انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** زکوٰۃ اسلام میں زکوٰۃ ادا کرنے کی اہمیت وفضیلت اہمیتِ زکوٰۃ یہ ایک معلوم ومعروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید ورسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے، اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ۳۲/مقامات پر صراحتاً اور ۱۵/مقامات پر صدقہ کا ذکر آیا ہے جو زکوٰۃ کو بھی شامل ہے؛ نیز قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کرچکے تھے اور توحید ورسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ سے انکار کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیادپر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ اور رسولؐ کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے، بخاری کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیتے ہوئے انہو ں نے فرمایا: "وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ"۔ (بخاری، باب وجوب الزکوٰۃ، حدیث نمبر:۱۳۱۲۔ مسلم، حدیث نمبر: ۲۹) خدا کی قسم! نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ پھر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کرلیا اور اس پر سب کا اجماع ہوگیا، اس کے علاوہ بہت ساری احادیث ایسی ہیں کہ جن میں آپ ﷺ نے اسلام کے ارکان اور بنیادی احکام ومطالبات کا ذکر کرتے ہوئے توحید ورسالت کی شہادت کے بعد اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونو ںکا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے۔ زکوٰۃ کا حکم پچھلی شریعتوں میں زکوٰۃ کی اس غیرمعمولی اہمیت کی وجہ سے اس کا حکم پچھلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے، انبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحاق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: "وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئَ الزَّکٰوۃِج وَکَانُوْا لَنَاعٰبِدِیْنَ"۔ (الانبیاء: ۷۳) اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔ اور سورۂ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: "وکَانَ یَاْمُرُاَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ"۔ (مریم: ۵۵) "اور وہ اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں"۔ اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا: "قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللہ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاo وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَاکُنْتُص وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَادُمْتُ حَیًّاo"۔ (مریم: ۳۰،۳۱) "میں اللہ کا ایک بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور نبی بنایا ہے اور جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوںگا مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی ہے"۔ اور بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے: "وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ"۔ (البقرۃ:۸۳) "اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوٰۃ ادا کیا کرنا"۔ اسی طرح جہاں مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد ومیثاق کا ذکر کیا گیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے: "وَقَالَ اللہ اِنِّیْ مَعَکُمْط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ"۔ (المائدۃ:۱۲) "اور اللہ نے فرمایا: میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں؛ اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃادا کرتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے"۔ قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں، ہاں ان کے حدود اور تفصیلی احکام وتعینات میں فرق رہا اور یہ فرق تو خود ہماری شریعت کے بھی ابتدائی اور آخری تکمیلی دور میں بھی رہا ہے، مثلاً یہ کہ پہلے نماز تین وقت کی تھی پھر پانچ وقت کی ہوگئی اور مثلاً یہ کہ پہلے ہرفرض نماز صرف دورکعت پڑھی جاتی تھی پھر فجر کے علاوہ باقی چار وقتوں میں رکعتیں بڑھ گئیں۔ (نسائی شریف، باب کیف فرضت الصلاۃ، حدیث نمبر:۴۴۹۔۴۵۳ عن عائشہؓ، ابن عباسؓ) اور مثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں نماز پڑھتے ہوئے سلام کلام کی اجازت تھی اس کے بعد اس کی ممانعت ہوگئی ("زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، بخاری، بَاب مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنْ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ(" (حدیث نمبر:۱۱۲۵) اسی طرح ہجرت سے پہلے مکہ کے زمانہ قیام میں زکوٰۃ کا حکم تھا؛ چنانچہ مؤمنون، نمل اور لقمان کی بالکل ابتدائی آتیوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور پر اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے؛ حالانکہ یہ تینوں سورتیں مکی دور کی ہیں؛ لیکن اس دور میں زکوٰۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مند بندوں پر اور خیر کی دوسری راہوں میں اپنی کمائی صرف کی جائے، (روح المعانی:۱۲/۴۳۲، الانبیاء، آیت:۳۷) نظام زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے وہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے (الدرالمختار علی الرد، کتاب الزکاۃ:۶/۴۴۵) ورنہ زکوٰۃ کا مطلق حکم تو یقینا اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت سے کافی پہلے آچکا تھا، یہ بات قرآن مجید کی منقولہ بالا مکی سورتوں کی ان آیات کے علاوہ (جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بھی ثابت ہوتی ہے جن میں انہوں نے حبشہ کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سوال کے جواب میں اسلام اور رسول اللہﷺ کے تعارف میں کی تھی، اس میں رسول اللہﷺ کی دعوت وتعلیم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ بھی ہیں: "وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ" الخ۔ (مسند احمد، حدیث جعفر، حدیث نمبر:۱۶۴۹) "اور وہ ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں"۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ سے بہت پہلے اسلام کے ابتدائی دور میں حبشہ جاچکے تھے، اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق شاہ روم کے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق (اس وقت کے آپ ﷺ کے شدید دشمن) ابوسفیان کا یہ بیان کہ: "يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصَّدْقِ وَالْعَفَافِ" الخ۔ (بخاری، باب بدء الوحی، حدیث نمبر:۶۔ مسلم، حدیث نمبر:۳۳۲۲) "وہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں اور سچائی اور پاکدامنی کی ہدایت کرتے ہیں"۔ اس کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت سے پہلے بھی مکہ معظمہ کے زمانہ قیام میں بھی نماز اور زکوٰۃ کی دعوت دیتے تھے، ہاں نظام زکوٰۃ کے تفصیلی مسائل اور حدود وتعینات ہجرت کے بعد آئے اور مرکزی طور پر اس کی تحصیل کا نظام تو سنہ۸ھجری کے بعد قائم ہوا (تاریخ طبری، ذکرالخبر عن غزوۃ تبوک:۲/۱۹۱) الغرض اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں زکوٰۃ کی حددرجہ اہمیت ہی کی وجہ سے ہرزمانہ میں زکوٰۃ کا رواج رکھا گیا۔ فضیلتِ زکوٰۃ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ زکوٰۃ اسلام کا (بہت بڑا مضبوط) پل ہے۔ (معجم کبیر للطبرانی، باب قطعۃ من المفقود، حدیث نمبر:۱۷۹۵۔ شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۱۵۹) کسی جگہ جانے کا ذریعہ اور سہولت سے بھرپور سبب مضبوط پل ہے اسی طرح اسلام کی حقیقت تک سہولت سے پہنچنے کا یااللہ جل شانہ کے عالی دربار تک رسائی کا ذریعہ اور راستہ زکوٰۃ ہے۔ حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص مال کی زکوٰۃ ادا کردے تو اس مال کا شر اس سے دور ہوتا رہتا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، باب من اسمہ احمد، حدیث نمبر:۱۶۳۹) یعنی مال بہت سے شرور کا سبب ہوتا ہے لیکن اس کی زکوٰۃ اگر اہتمام سے ادا ہوتی رہے تو اس کے شر سے حفاظت رہتی ہے، آخرت کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ اس مال پر عذاب نہیں ہوتا، دنیا میں اس لحاظ سے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا مال کے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ بناؤ اور اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور بلاومصیبت کی موجوں کا دعا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے استقبال کرو۔ (المعجم الکبیر لطبرانی، حدیث نمبر:۱۰۰۴۴۔ شعب الایمان، حدیث نمبر:۳۳۹۹) اس حدیث میں "حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاۃِ" (اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ بناؤ) حصنوا، تحصین کے معنی اپنے چاروں طرف قلعہ بنالینے کے ہیں، یعنی جیسا کہ آدمی قلعہ میں بیٹھ جانے سے ہرطرف سے محفوظ ہوجاتا ہے ایسا ہی زکوٰۃ کا ادا کردینا اس مال کو ایسا محفوظ کردیتا ہے جیسا کہ وہ مال قلعہ میں محفوظ ہوگیا ہو۔ حضرت عبداللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تین کام کرلے اس کو ایمان کا مزہ آجائے، صرف اللہ جل شانہ کی عبادت کرے اور اس کو اچھی طرح جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور زکوٰۃ کو ہرسال خوشدلی سے ادا کرے (بوجھ نہ سمجھے) اس (جانوروں کی زکوٰۃ) میں بوڑھا جانور یاخارشی جانور یامریض یاگھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ متوسط جانور دے اللہ جل شانہ زکوٰۃ میں تمہارے بہترین مال نہیں چاہتے؛ لیکن گھٹیا مال کا بھی حکم نہیں فرماتے۔ (ابوداؤد، باب فی زکاۃ السائمۃ، حدیث نمبر:۱۳۴۹۔ سنن کبریٰ للنسائی، حدیث نمبر:۷۵۲۵) اس حدیث میں تذکرہ گرچہ جانوروں کی زکوٰۃ کا ہے لیکن ضابطہ ہرزکوٰۃ کا یہی ہے کہ نہ تو بہترین مال واجب ہے نہ گھٹیا مال جائز ہے؛ بلکہ درمیانی مال ادا کرنا اصل ہے؛ البتہ کوئی اپنی خوشی سے ثواب حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے عمدہ مال ادا کرے تو اس کی سعادت ہے، اس کی خوش قسمتی ہے۔