انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت لبید ؓبن ربیعہ نام ونسب لبید نام، ابو عقیل کنیت،نسب نامہ یہ ہے،لبید بن ربیعہ بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ عامری لبید کے والد ربیعہ اپنے قبیلہ کے بڑے فیاض سیر چشم اور غربا پرور لوگوں میں تھے، ان کی غربا پروری نے قوم سے "ربیع المتقرین" کا لقب حاصل کیا تھا۔ اسلام سے پہلے لبید زمانہ جاہلیت کے فحول شعراء میں تھے،ان کی سحر بیان زمانہ جاہلیت کے مشاعروں کو گرماتی اوراربابِ ذوق کو تڑپاتی تھی وہ ابتدا سے سلیم الفطرت تھے اوراسلام سے پہلے بھی ان کی شاعری معارف وحقائق سے معمور ہوتی تھی حسب ذیل شعر زمانہ جاہلیت کا بیان کیا جاتا ہے۔ وکل امری یوما سیعلم سعیہ اذا کشفت عندالالہ المحاصل ترجمہ:اورہر انسان کو اپنی کوششوں کا نتیجہ اس وقت معلوم ہوگا،جب اس کے نتائج خدا کے سامنے ظاہر ہونگے۔ اس لیے آنحضرتﷺ بھی ان کے بعض اشعار کو پسند فرماتے ؛چنانچہ آپ کو ان کا یہ مصرعہ،الا کل شی ماخلا اللہ باطل، بہت پسند تھا،اس کے متعلق فرماتے تھے کہ شعراء کے کلام میں لبید کا یہ کلام بہت سچا ہے۔ (استیعاب:۱/۲۳۵) اسلام لبید نے اسلام کا زمانہ پایا ،فطرت ابتدا سے سلیم تھی،اس لیے اپنے قبیلہ بنی جعفر بن کلاب کے وفد کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے۔ (استیعاب:۱/۲۳۵،واسد الغابہ لبید بن ربیعہ) اکثر اربابِ سیر کا بیان ہےکہ اسلام کے بعد شاعری ترک کردی تھی،قال اکثر اھل الاخباران لبید الم یقل شعرا منذاسلم لیکن یہ بیان علی الاطلاق صحیح نہیں معلوم ہوتا،ان کے بعض اشعار خود بتاتے ہیں کہ وہ اسلام کے بعد کہے گئے ہیں، ابن قتیبہ نے اس کے ثبوت میں یہ شعر نقل کیا ہے۔ الحمد اللہ لم یاتنی اجلی حتی اکتسبت من الاسلام ترجمہ: خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس وقت تک موت نہیں آئی جب تک میں نے اسلام کا خلعت نہیں پہن لیا۔ لیکن بعض اخباری اوپر کے شعر کی نسبت لبید کی طرف صحیح نہیں سمجھتے اوراس کے بجائے یہ شعر نقل کرتے ہیں: ماعاتب المٔرالکریم کنفسہ والمر یصلحہ القرین الصالح ترجمہ: شریف آدمی کو خود اس کی ذات کی طرح دوسرا عتاب نہیں کرسکتا اورانسان کی اصلاح اس کا صالح ہم جلیس کرتا ہے۔ بہرحال دونوں شعروں میں سے جو شعر بھی صحیح مانا جائے،اس میں صاف اسلامی رنگ جھلکتا ہے،پہلے میں زیادہ واضح ہے اور دوسرے میں اس سے کم تاہم اس میں شبہ نہیں کہ قبول اسلام کے بعد انہیں شاعری سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہےگئی اور قرآن کے پر تاثیر اورسحر آفرین کلام کے بعد وہ شاعری کرنا عبث سمجھتے تھے۔ حضرت عمرؓ بڑے سخن فہم اور سخن سنج تھے،اپنے زمانہ خلافت میں ایک مرتبہ اپنے ایک عامل کو لکھا کہ لبید سے پوچھو کہ زمانہ اسلام میں کون سے اشعار کہے،انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ خدا نے شعر کے عوض مجھے بقرہ اورآل عمران دی ہے، یعنی اس سحر آفرین کلام کے بعد شاعری بے مزہ ہے،اس جواب پر حضرت عمرؓ نے ان کا وظیفہ بڑھا کر دو ہزار کردیا، امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں ان سے کہا لبید میرا تمہارا وظیفہ برابر ہے میں تمہارا وظیفہ گھٹادوں گا، انہوں نے کہا کچھ دن اور ٹھہر جائیے، اس کے بعد اپنا اور میرا دونوں کا وظیفہ تنہا خود لے لیجئے گا (طبقات الشعر ابو عبداللہ بن سلام حجمی:۴۹) امیر معاویہ ان کے اس جواب سے بہت متاثر ہوئے اور وظیفہ کی رقم میں کوئی کمی نہیں کی۔ (اسد الغابہ:۴/۲۶۲) فضل وکمال ان کے دیوانِ فضائل میں شاعری کا عنوان بہت جلی ہے،عرب کے فحول شعراء میں ہیں عرب کی صفِ شعراء میں ان کی ممتاز جگہ تھی وہ جاہلیت کے مشاعروں کے صدر نشین تھے، بڑے بڑے ناقدین فن ان کی سحر بیان کے مداح و معترف ہیں،مشہور ناقد شعرا ابو عبداللہ بن سلام حجمی طبقات الشعراء لکھتے ہیں، کان عذاب المنطق رقیق حواشی الکلام ، خود ان کے زمانہ کے بعض نامور شعراء ان کے کلام کا اتنا لوہا مانتے تھے کہ اسے سن کر سر بسجود ہوجاتے تھے، عرب کا نامور شاعر فرزدق ایک مرتبہ ان کا یہ شعر: وجلا السيول عن الطول كأنها ... زبر تجد متونها أقلامها ترجمہ:اورسیلاب نے ٹیلوں کو اس طرح صاف کردیا گویا وہ ٹیلے کتاب کے صفحات ہیں،جن کے متن کو قلم نے درست کیا پڑھ کر سجدہ میں گر گیا لوگوں نے پوچھا یہ کیا،اس نے کہا جس طرح لوگ قرآن کے مقاماتِ سجدہ کو پہچانتے ہیں،میں شاعری کے مقام سجود کو پہچانتا ہوں۔ (اصابہ:۶/۵) عام حالات لبید فیاضی،شہ سواری ،بہادری اورصداقت تمام اوصافِ شرافت سے آراستہ تھے،فیاضی باپ سے وراثہً ملی تھی، انہوں نے جاہلیت میں عہد کیا تھا کہ جب باد صبا چلا کریگی،تو جانور ذبح کرکے لوگوں کو کھلایا کریں گے، اس فیاضانہ عہد پر ہمیشہ اورہر حالت میں قائم رہے ؛چنانچہ کوفہ کے دوران قیام میں جب ان کی مالی حالت نہایت خراب ہوگئی تھی اس وقت بھی یہ رسم جاری رکھی، لوگ ان کے عہداور ان کی حالت سے واقف تھے،اس لیے جب باد صبا چلتی تھی تو بطور امداد کے اونٹ جمع کرکے دیتے تھے اورلبید انہیں ذبح کرکے اپنا عہد پورا کرتے تھے۔ (استیعاب:۱/۲۲۴) شاعری اصطلاحی معنوں میں جھوٹ کا دوسرا نام ہے،اسی لیے جھوٹ اورمبالغہ کو "شاعری" سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن لبید کی زبان سے سچ کے علاوہ کبھی جھوٹ بات نہ نکلتی تھی (طبقات اقراء ابو عبداللہ جہمی:۴۸) ارباب سیران کے اوصاف کی یہ تصویر کھینچتے ہیں، کان لبیر بن ربیعۃ ابو عقیل فارسا ،شاعراً شجاعاً شتر لفافی الجاھلیۃ والا سلام لبید بن ربیعہ ابو عقیل شہ سوار، شاعر، شجاع اورجاہلیت واسلام دونوں میں معزز اورشریف تھے۔ (طبقات القراء ابو عبداللہ جہنی:۴۸)