انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** زکوۃ زکوٰۃ کی فرضیت اوراہمیت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان اور نماز کے بعد زکوٰۃ کادرجہ گویا یہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ زکوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ جس مسلمان کے پاس ایک مقررمقدار میں مال ودولت ہووہ ہر سال حساب لگاکر اپنی اس دولت کا چالیسواں حصہ غریبوں،مسکینوں پریا نیکی کی ان دوسری مدوں میں خرچ کردیا کرے جوزکوٰۃ کے خرچ کے لیے اللہ ورسول اللہﷺ نے مقررکی ہیں۔ قرآن شریف میں جابجانماز کے ساتھ زکوٰۃ کی تاکید کی گئی ہے اگرآپ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوں گے تو اس میں بیسیوں جگہ پڑھا ہوگا"اَقِیْمُواالصَّلوٰۃَ وَاٰتُواالزَّکٰوۃَ" (البقرۃ:۴۳) (یعنی نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیاکرو) اور کئی جگہ مسلمانوں کی لازمی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ"الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ" (المائدہ:۵۵) (یعنی وہ نماز قائم کرتے ہیں اورزکوۃ دیتے ہیں)۔ اس سے معلوم ہوا کہ جولوگ نماز نہیں پڑھتے اورزکوٰۃ نہیں دیتے وہ اصلی مسلمان نہیں ہیں کیونکہ اسلام کی جو باتیں اور جو صفتیں اصلی مسلمانوں میں ہونی چاہئیں وہ ان میں نہیں ہیں؛ بہرحال نماز نہ پڑھنا اورزکوۃ نہ دینا قرآن شریف کے بیان کے مطابق مسلمانوں کی صفت نہیں ہے؛ بلکہ کافروں مشرکوں کی صفت ہے،نماز کے متعلق توسورہ روم کی ا یک آیت میں فرمایا گیا ہے: "وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ"۔ (الروم:۳۱) نماز قائم کرو(اورنماز چھوڑکے)مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ اورزکوۃ نہ دینے کو مشرکوں کافروں کی صفت سورہ فصلت کی اس آیت میں بتلایاگیا ہے: "وَوَیْلٌ لِّـلْمُشْرِکِیْنَoالَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ" (فصلت:۷،۶) ان مشرکوں کے لیے بڑی خرابی ہے اور ان کا انجام بہت براہونے والا ہے جو زکوۃ ادا نہیں کرتے اور وہ آخرت کے منکر اورکافر ہیں۔ زکوۃ نہ دینے کا دردناک عذاب زکوۃ نہ دینے والوں کا جو براانجام قیامت میں ہونے والا ہے اور جو سزاان کو ملنے والی ہے وہ اتنی سخت ہے کہ اس کے سننے ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل کانپنے لگتے ہیں،سورہ توبہ میں ارشاد فرمایاگیا ہے۔ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍoیَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ۔ (التوبہ:۳۴،۳۵) اورجولوگ سوناچاندی(مال ودولت)جوڑکے رکھتے ہیں اور اسکو خداکی راہ میں خرچ نہیں کرتے(یعنی ان پر جوزکوٰۃ وغیرہ فرض ہے اس کو ادانہیں کرتے)اے رسول!تم انہیں سخت دردناک عذاب کی خبرسنادو،جس دن کہ تپایاجایئے گاان کی اس دولت کو دوزخ کی آگ میں‘پھر داغی جائیں گی اس سے ان کی پیشانیاں اورانکی کروٹیں اورپٹھیں (اورکہاجائے گا)یہ ہے وہ مال ودولت جس کو تم نے جوڑا تھا اپنے واسطے،پس مزا چکھواپنی جوڑی ہوئی دولت کا۔ اس آیت کے مضمون کی کچھ تفصیل حضورﷺ نے ایک حدیث میں بھی بیان فرمائی ہے،اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ: جس شخص کے پاس سونا یا چاندی(یعنی مال ودولت)ہو اور وہ اس کا حق ادانہ کرے(یعنی زکوٰۃ وغیرہ نہ دیتاہو)توقیامت کے دن اس کے واسطے آگ کی تختیاں تیار کی جائیں گی،پھر ان کو دوزخ کی آگ میں اور زیادہ گرم کرکے ان سے اس شخص کی پیشانی کو اورکروٹ کواورپشت کو داغاجائے گا اوراسی طرح باربار ان تختیوں کو دوزخ کی آگ پر تپاکے اس شخص کو داغاجاتارہے گااور روزقیامت کی پوری مدت میں اس عذاب کا سلسلہ جاری رہے گا اور وہ مدت پچاس ہزار سال کی ہوگی (توگویاپچاس ہزارسال تک اس کویہ سخت دردناک عذاب ہوتارہے گا)۔ (ابو داؤد،باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:۱۴۱۴،شاملہ، موقع الإسلام) بعض حدیثوں میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے اس کے علاوہ اور دوسرے قسم کے سخت عذابوں کا بھی ذکرآیا ہے،اللہ تعالی ہم کواپنے عذاب سے بچائے۔ اللہ تعالی نے جن لوگوں کو خوشحال اور مالدار کیا ہے وہ اگرزکوٰۃ نہ دیں اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں کرچ نہ کریں توبلاشبہ وہ بڑے ہی ناشکرے بڑے ہی ظالم ہیں اور ان کو جوسخت سے سخت سزا بھی قیامت میں دی جائے بالکل بجاہے۔ زکوۃ نہ دیناظلم اورکفران نعمت ہے پھریہ بھی سوچنا چاہئے کہ زکوٰۃ صدقات سے دراصل اپنے ہی غریب اورضرورت مندبھائیوں کی خدمت ہوتی ہے،توزکوٰۃ نہ نکالنادراصل اپنے ان غریب اورمجبور بھائیوں پر ظلم کرنا اوران کا حق مارنا ہے۔ بھائیو!ذراسوچوہمارے آپ کے پاس جوکچھ مال ودولت ہےوہ سب اللہ تعالی ہی کا تو دیا ہوا ہے اور ہم خود بھی اسی کے بندے اور اسی کے پیداکئے ہوئے ہیں،پس اگروہ ہم سے ہماراسارامال بھی طلب کرے،بلکہ جان دینے کو بھی کہے تو ہمار فرض ہے کہ بلاچون وچراسب کچھ دے دیں،یہ تو اس کا بڑاکرم ہے کہ اپنے دیئے ہوئے مال میں سے صرف چالیسواں حصہ نکالنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ زکوٰۃ کا ثواب پھر اللہ تعالی کا دوسرابہت بڑاکرم اور احسان یہ ہے کہ اس نے زکوٰۃ اورصدقہ کابہت بڑاثواب مقررکیاہے،حالانکہ زکوٰۃ یاصدقہ دینے والا بندہ جوکچھ دیتا ہے اللہ تعالی ہی کے دئے ہوئے مال میں سے دیتا ہے،اس لیے اگر اللہ پاک اس پر کوئی ثواب نہ دیتا تو بالکل حق تھا،مگریہ اس کا کرم ہی کرم ہے کہ اس کے دیئے ہوئے مال میں سے ہم جو کچھ اس کے حکم سے زکوٰۃ یاصدقہ کے طورپر اسکی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو وہ اس سے بہت خوش ہوتاہے اور اس پر بڑے بڑے ثوابوں کا وعدہ فرماتا ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہے: "مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍoوَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاءُoوَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌoاَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَآاَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآاَذًىo لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْo وَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ"۔ (البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲) جولوگ اللہ کی راہ میں اپنامال خرچ کرتے ہیں ان کے اس خرچ کرنے کی مثال اس دانہ کی سی ہے جس سے پودااُگے اور اس سے سات بالیں نکلیں اورہربالی میں سودانے ہوں اوراللہ بڑھاتاہو جس کے واسطے چاہے،وہ بڑی وسعت والاہے اور سب کچھ جانتا ہے،جولوگ اپنامال خداکی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر نہ وہ احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں،ان کے واسطے ان کے رب کے پاس بڑاثواب ہے اور انہیں قیامت میں کوئی خوف وخطر ہ نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں زکوٰۃ دینے والوں اورخداکی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے تین وعدے فرمائے گئے ہیں: (۱)یہ کہ جتنا وہ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو اس کے بدلے سیکڑوں گنا زیادہ دے گا۔ (۲)یہ کہ ان کوآخرت میں اللہ کے ہاں بہت بڑااجروثواب ملے گااوربڑی بڑی نعمتیں ملیں گیں۔ (۳)یہ کہ قیامت کے دن ان کو کوئی خوف وخطر اورکوئی رنج وغم نہ ہوگا،سبحان اللہ!۔ بھائیو!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالی کے ان وعدوں پر پورا پورا یقین تھا اس لیے ان کاحال یہ تھا کہ جب راہ خدامیں صدقہ کرنے کی فضیلت کی اور ثواب کی آیتیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا بیان سنا تو ان میں جو غریب تھے اور جن کے پاس صدقہ کرنے کے لیے پیسہ بھی نہ تھا وہ بھی صدقہ کرنے کے ارادے سے مزدوری کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے اور اپنی پیٹھ پر بوجھ لاد لاد کر انہوں نے پیسے کمائے اور راہ خدا میں صدقہ کیا۔ ( بخاری ،بَاب اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَة،حدیث نمبر:۱۳۲۷،شاملہ، موقع الإسلام) زکوٰۃ کی اہمیت اورفضیلت کے بارے میں یہاں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حدیث اوردرج کرتے ہیں،حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤدشریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین باتیں ہیں جس شخص نے ان کو اختیار کرلیا اس نے ایمان کا مزہ پالیا:ایک یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کرے اور دوسرے یہ کہ لاَاِلٰہَ اِلاَّاللہُ پر اس کا سچاایمان واعتقاد ہو اور تیسرے یہ کہ ہرسال دل کی پوری خوشی سے اپنے مال کی زکوٰۃ اداکرے(توجس کو یہ تین باتیں حاصل ہو جائیں گی اس کو ایمان کی لذت اورچاشنی حاصل ہوجائےگی)"۔ (ابو داؤد،باب فی زکوۃ السائمہ،حدیث نمبر:۱۳۴۹،شاملہ، موقع الإسلام) اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کا ذائقہ اور اس کی لذت نصیب فرمائے۔ زکوٰۃ اورصدقات کے بعض دنیوی فائدے زکوٰۃ اورصدقات کاجوثواب اور جو انعام اللہ تعالی کی طرف سے آخرت میں ملے گا اس کے علاوہ اس دنیوی زندگی میں بھی اس سے بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں، مثلا یہ کہ زکوٰۃ اور صدقات اداکرنے والے مومن کا دل بڑاخوش اور مطمئن رہتا ہے،غریبوں کو اس پر حسد نہیں ہوتا،بلکہ وہ اس کی بہتری چاہتے ہیں،اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور اس کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں،عام دنیا کی نظروں میں بھی ایسے شخص کی بڑی وقعت ہوتی ہےاور سب لوگوں کی محبت وہمدردی ایسے شخص کو حاصل ہوتی ہے،اللہ تعالی اس کے مال میں بڑی برکتیں دیتاہے،ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: "اللہ تعالی کافرمان ہے کہ اے فرزند آدم (علیہ السلام)!تو(میرے غریب وحاجت مند بندوں پر اور نیکی کے دوسرے کاموں میں)میرا دیاہوامال خرچ کئے جا،میں تجھ کو برابر دیتا رہوں گا"۔ (بخاری،فضل النفقۃ علی الاہل،حدیث نمبر:۴۹۳۳،شاملہ، موقع الإسلام) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اس پر قسم کھاسکتا ہوں کہ صدقہ کرنے کی وجہ سے (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے) کوئی شخص غریب اور مفلس نہ ہوگا۔" (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ أَرْبَعَةِ نَفَر،حدیث نمبر:۲۲۴۷،شاملہ، موقع الإسلام) اللہ تعالی ہم کو رسول اللہﷺ کے ان ارشادات پر حقیقی ایمان ویقین نصیب فرمائے اورذوق وشوق کے ساتھ عمل کی توفیق دے۔