انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** استصحاب جن مصادر ومآخذ سے فقہی احکام کے استنباط میں فقہاء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے استصحاب بھی ہے، ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین استصحاب کا استعمال کسی نہ کسی درجہ میں ضرور کرتے ہیں، اختلاف جوکچھ ہے وہ صرف اس کی تفصیلات میں ہے؛ ورنہ اصولی حد تک یہ بھی فقہ کے ضمنی مآخذ میں سے ہے، اس اصل سے مسائل مستنبط کرنے میں سرِفہرست حنابلہ پھرشافعیہ پھرمالکیہ ہیں، احناف کا نمبرسب سے آخیر میں ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کی بنیاد "ادلہ شرعیہ" میں وسعت پیدا کرنے یانہ کرنے پر ہے جولوگ قیاس اور استحسان کے مفہوم میں وسعت پید کرلیتے ہیں اور نص کی عدم موجودگی میں عرف سے بھی مسائل مستنبط کرتے ہیں یا "مصالح مرسلہ" سے استنباط کے قائل ہیں، ان کے یہاں استصحاب سے مستنبط مسائل کی تعداد بہت کم ہے ؛مثلاً احناف، مالکیہ، حنابلہ اور شوافع چونکہ ضرورت شدیدہ پر ہی قیاس کا اعتبار کرتے ہیں اس لیے انہوں نے استصحاب سے خوب کام لیا ہے۔ (حیاتِ امام احمد بن حنبل لابی زہرہ:۳۹۵) استصحاب کی تعریف استصحاب باب استفعال کا مصدر ہےاس کے معنی ہیں ساتھی بنانا، کسی کو ساتھ رہنے کی دعوت دینا۔ (المعجم الوسیط مادہ:ص ح ب) مصباح المنیر میں ہے کہ ہروہ چیز جودوسرے کا لازم بن جائے ،اسے استصحاب کہتے ہیں۔ (المصباح المنیر، مادہ:ص ج ب) اصولِ فقہ کی اصطلاح میں کسی حکم کو حسبِ حال بحال رکھنے کواستصحاب کہا جاتا ہے، متعدد فقہاء نے مختلف الفاظ میں اس کی تعریف کی ہے؛ چنانچہ اصولِ فقہ کی شہرہ آفاق کتاب "کشف الاسرار" میں ہے: "هُوَالْحُكْمُ بِثُبُوتِ أَمْرٍ فِي الزمان الثاني بناء على أنه كان ثابتا في الزمان الأول"۔ (کشف الاسرار:۳/۶۶۶) ترجمہ:حال میں کسی چیز کے ثبوت کا حکم محض اس بنا پر لگانا کہ وہ چیز ماضی میں موجود تھی۔ علامہ قرافی اس طرح رقمطراز ہیں: "ومعناہ ان ماثبت فی الزمان الماضی فاصل بقاء فی الزمن المستقبل"۔ (البحر المحیط فی اصول الفقہ،استصحاب الحال،۴/۳۲۷،انوارالبروق فی انواع الفروق،الفرق بین قاعدۃ الانشا والخبر۱/۸۶) ترجمہ:یعنی جوچیز زمانہ ماضی میں ثابت ہو اس کو مستقبل میں باقی رکھنا ہی اصل (ضابطہ) ہے۔ اس کی تائید ذیل کے قاعدہ سےبھی ہوتی ہے: "الأصل بقاء ماكان على ماكان حتى يوجد المزيل"۔ (الموسوعۃ الفقہیہ:۳/۳۳۳) علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس بات پر زمانہ ماضی سے عمل درآمد ہوتا چلا آرہا ہو وہ زمانہ حال اور استقبال میں بھی اپنی حالت پر قائم رہے گی، چاہے وہ حکم وجودی ہو یاعدمی، عقلی ہو یاشرعی۔ (ارشادالفحول:۳۵۳) ان تمام تعریفات کا حاصل یہی ہے کہ کسی چیز کا وجود یاعدم زمانہ ماضی میں ثابت تھا تواب زمانہ حال اور مستقبل میں اس چیز کواپنی حالت پر ہی برقرار کھا جائیگا، جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے، مثلاً ایک شخص نے کوئی چیز خریدی یااسے وہ چیز ہدیہ میں ملی یاکوئی اور طریقے سے وہ اس چیز کا مالک بن گیا، تواب فی الحال اور مستقبل میں وہ چیز استصحاب کی وجہ سے اسی کی ملکیت متصور ہوگی، جب تک کہ کوئی ایسی دلیل واضح ہوکر سامنے نہ آجائے جواس کی ملکیت کے ختم ہوجانے کو یقینی بنادے، محض اس احتمال سے کہ اس نے اس چیز کو فروخت کردیا ہوگا، یاکسی کو ہبہ کردیا ہوگا، اس کی ملکیت ختم نہیں ہوگی؛ البتہ اس بات پر بینہ قائم ہوجائے کہ اس نے اس چیز کو فروخت کردیا ہے، یاہبہ کردیا ہے تواس یقین کی وجہ سے یہ چیز اس کی ملکیت سے نکل جائیگی اور استصحاب پر عمل نہیں ہوگا۔ (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶) اسی طرح کسی شخص کے متعلق مشاہدہ سے معلوم تھا کہ وہ گذشتہ زمانہ میں باحیات تھا ،چند سال یاچند ماہ گذرنے کے بعد محض فوت ہونے کا احتمال اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اس کومردہ تصور کیا جائے؛ بلکہ جب تک کوئی واضح دلیل سامنے نہ آجائے اس کوباحیات ہی سمجھا جائے گا؛ اسی طرح ایک چیز شرعاً حلال ہے تومستقبل میں بھی اس کوحلال ہی تصور کیا جائیگا ،ہاں اگر کوئی دلیل قائم ہوجائے جواس کی حلت ختم ہونے کویقینی بنادے توپھر اس کی حلت حرمت میں تبدیل ہوجائیگی۔ (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶) استصحاب اور ائمہ اربعہ حاصل یہ کہ استصحاب کوئی مستقل دلیل نہیں؛ بلکہ اس میں شئی کی بقاء کوہی دلیل تصور کیا جاتا ہے؛ اسی وجہ سے امام ابویوسفؒ نے استصحاب کوعدم الدلیل سے موسوم کیا ہے اور علامہ خوارزمیؒ فرماتے ہیں:"ھوآخرمدار للفتوی" یعنی استصحاب فتویٰ کی آخری جائے گردش ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۲) البتہ اس کی قوت استنباط اورحیثیت کے بارے میں فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں، فقہائے احناف نے چونکہ غیرمنصوص مسائل میں قیاس اور استحسان سے خوب استفادہ کیا ہے؛ اس لیے استصحاب کو آخری اور سب سے کمزور درجہ کی دلیل قرار دیا ہے؛ اسی طرح مالکیہ نے بھی دلائلِ شرعیہ میں "مصالح مرسلہ" کا اضافہ کرکے استنباط کے میدان کووسیع کرلیا ہے؛ چنانچہ مالکی فقہاء نے بھی مسائل کے استنباط میں استصحاب سے بہت کم مدد لی ہے؛ علامہ قرافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مالکی فقہاء نے استصحاب کواس وقت حجت مانا ہے جب تک اس کے خلاف دلیل قائم نہ ہو، مثلاً مفقود الخبر کی حیات وموت کا حکم اس وقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک کہ قاضی شرعی اس کی موت کا حکم نہ لگادے، اس وقت تک لوگوں میں اس کی طبعی زندگی ثابت مانی جائے گی؛ لہٰذا بغیراقامت دلیل کے وفات کا حکم نہیں لگایا جائیگا۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷) فقہاء حنابلہ نے بنیادی دلائل شرعیہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور اجماع کے بعد قیاس سے استفادہ کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے اور سخت ضرورت کے وقت ہی قیاس کو دلائلِ شرعیہ کی فہرست میں جگہ دی ہے؛ کیونکہ مذہب حنبلی "اثری" ہے یعنی نقل پر اس کا مدار ہے اور اس میں اتباع سلف صالح پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے؛ اسی لیے حدیث و خبر سے موافقت رکھنے والی دلیلِ مثبت پر جہاں یہ زور دیتے ہیں وہاں استصحاب کو باطل کرنے والی مغیر احوال دلیل کے قبول کرنے میں بھی اتنی ہی سختی روا رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فقہ حنبلی میں ایسے احکام بہت زیادہ ہیں جواستصحاب پر مبنی ہیں؛ کیونکہ ان کے اصول کے مطابق استصحاب کوبدلنے کے لیے کسی نص کا ہونا ضروری ہے ،اس زریں اصول کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مسلک میں قیود کی کمی اور اطلاقات میں وسعت ہے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶) نیزحنابلہ کی طرح شوافع نے بھی استصحاب کو خاص اہمیت دی ہے اور ان سے غیرمنصوص مسائل کے حل کرنے میں بھرپور استفادہ کیا ہے؛ بہرحال استصحاب کی بنیاد اگرچہ گمان وظن پر ہے؛ پھربھی ائمہ اربعہ نےبعض تفصیلات میں اختلاف کے باوجود کسی حد تک استصحاب کو مستدل تسلیم کیا ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۱) البتہ بعض ایسے گروہ ہیں جواستدلال بالرائے سے انتہائی کم کام لیتے ہیں اور استصحاب پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جیسے ظاہریہ کہ استدلال بالرائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے استصحاب پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۱) استصحاب کی اقسام اصولِ فقہ کی کتابوں میں استصحاب کی متعدد قسمیں مذکور ہیں ،شیخ ابوزہرہ نے استصحاب کی چار قسمیں بیان کی ہیں: النوع الاوّل:" استصحاب البراء ۃ الاصلیۃ" حقیقی سبکدوشی کا اپنے حال پر باقی رہنا مثلاً: الف:انسان کا تکالیف شرعیہ سے بری رہنا، جب تک کہ مکلف ہونے پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے، انسان پیدا ہونے کے بعد اصلاً بری رہتا ہے یعنی اس کے ذمہ میں تکالیف شرعیہ نہیں رہتی ہیں تواس کی یہ حالت باقی رہے گی؛ مگرجب بالغ ہوجاتا ہے تووہ احکام شرعیہ کا مکلف ہوجاتا ہے۔ ب:اسی طرح مردوعورت ایک دوسرے کے حقوق سے دست بردار رہتے ہیں، یعنی کسی عورت پر مرد کے حقوق عائد نہیں ہوتے اور نہ ہی مرد پرعورت کے حقوق عائد ولازم ہوتے ہیں؛ لیکن ان دونوں کاجب عقدِ نکاح ہوجاتا ہے توان پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہوجاتے ہیں؛ گویا بلوغت ومناکحت سے پہلے استصحاب براءت تھا جوبعد میں ختم ہوگیا۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۲۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ ارشادالفحول:۳۵۲) النوع الثانی:"استصحاب مادل الشرع أوالعقل علی وجودہ" یعنی شریعت یاعقل انسانی جس چیز کے وجود کا تقاضا کرے ،اس کو اپنے حال پر باقی رکھنا مثلاً: الف:ایک آدمی نے دوسرے سےکچھ روپئے بطورِ قرض لیے توجب تک قرض کی ادائیگی پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے یایہ نہ معلوم ہوجائے کہ قرض دینے والے نے اسے معاف کردیا ہے، اس وقت تک قرض لینے والے پر ادائیگی کی ذمہ داری باقی رہے گی، یعنی یہ ذمہ داری استصحابِ حال کی وجہ سے باقی رہے گی۔ ب:اسی طرح خریدار پر ثمن کی ادائیگی اس وقت تک باقی سمجھی جائیگی جب تک کہ ادائیگی ثمن پر کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶) ج:اسی طرح نکاح کے بعد شوہر پر مہردینا واجب ہوجاتا ہے، یہ وجوب اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ ادائیگی مہر پر کوئی دلیل نہ قائم ہوجائے یایہ نہ معلوم ہوجائے کہ بیوی نےاپنا حق مہرمعاف کردیا ہے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶) النوع الثالث:" "استصحاب الحکم" یعنی حکم کا اپنی حالت پر باقی رہنا، جوچیزیں اصل کے اعتبار سے مباح ہیں وہ مباح ہی رہیں گی، جب تک کہ اس کے خلاف کوئی حرام کرنے والی دلیل نہ مل جائے، مثلاً قاعدہ ہے: "الاصل فی الاشیاء کلھا الاباحۃ ماعدا الابضاع"۔ ترجمہ:یعنی سارے چیزوں میں اصل اباحت ہے مگر شرمگاہیں۔ تو شرمگاہوں کی حرمت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس کو حلال کرنے والی کوئی چیز نہ پائی جائے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ ارشادالفحول:۳۵۲) النوع الرابع: "استصحاب الوصف" یعنی کسی صفت کا اپنے حال پر باقی رہنا مثلاً: الف:مفقود شخص کا زندہ رہنا ایک وصف ہے ،یہ وصف اس کے ساتھ اس وقت تک باقی سمجھا جائیگاجب کہ اس کے خلاف اس کی موت پر کوئی خارجی دلیل قائم نہ ہوجائے؛ چونکہ وہ شخص قبل ازواقعہ بقیدِ حیات تھا، اس لیے مستقبل میں بھی باحیات متصور ہوگا۔ ب:اسی طرح پانی کا وصفِ طہارت اپنی حالت پر باقی رہے گا؛ جب تک کہ اس کے نجس ہونے پر دلیل قائم نہ ہوجائے، جیسے رنگ وبو وغیرہ بدل جائے۔ ج:اسی طرح کسی شحص نے وضو کرلیا تومتوضی ہونے کی صفت اس کے ساتھ قائم ہوگئی؛ لہٰذا جب تک نقض وضو پر کوئی واضح دلیل قائم نہ ہوجائے وضو برقرار رہیگا، یانقض کا غالب گمان نہ ہوجائے وہ شخص متوضی ہی شمار ہوگا۔ اسی طرح عورت کی شادی کے بعد اس کے ساتھ "شادی شدہ" ہونے کی صفت قائم ہوجاتی ہے تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی واضح دلیل سامنے نہ آجائے اس کے ساتھ یہ صفت قائم رہے گی اور اس سے کسی دوسرے کا نکاح کرنا درست نہیں ہوگا۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۸۔ ارشادالفحول:۳۵۳) استصحاب اجماع استصحاب کی ایک اور قسم فقہاء بیان کرتے ہیں اور یہ اصولین کے یہاں محلِ نزاع بنی ہوئی ہے، وہ استصحاب حکم الاجماع بعد الاختلاف ہے؛ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب اعلام الموقعین میں اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں مخصوص شرائط واوصاف کے ساتھ تمام علماء کرام کا اجماع ہوتو کسی شرط یاوصف میں تغیر کے بعد بھی وہ اجماعی حکم باقی رہے گا یانہیں؟ اس کو یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی نزاعی صورت پیدا ہوجائے توحکمِ اجماع پر استصحاب کیا جائیگا (نفائس الاصول:۹/۴۲۰۶۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۸۔ ارشادالفحول:۳۵۳) مثالوں سے اس کی وضاحت اور ہوجاتی ہے: الف:نماز کا وقت جارہا ہے وضو کے لیے ایک شخص کو کہیں پانی نہیں ملتا توتمام فقہاء کرام کا اس امرپر اجماع ہے کہ ایسا شخص تیمم کرسکتا ہے اور اس تیمم سے نماز جائز ہوگی، اب اگر قبل اس کے کہ پانی پر نظر پڑے اس نے نماز پوری کرلی تونماز صحیح ہوگئی اگرچہ نماز پڑھ لینے کے بعد پانی مل ہی کیوں نہ گیا ہو اور اگر نماز سے پہلے پانی مل گیا توپھر نماز بغیر وضو کے درست نہیں ہوسکتی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اثناء صلوٰۃ میں یعنی نماز پڑھنے کے دوران میں اس نے پانی دیکھ لیا توکیا یہ نماز باطل ہوجائیگی؟ اور کیا وضو کرکے پھرسے نماز پڑھی جائیگی؟ استصحاب اجماع کے قائلین کا کہنا ہے کہ نماز ہوجائے گی اس کو پوری کرکے پھر سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ (اعلام الموقعین:۱/۳۱۹۔ حیات امام احمدبن حنبلؒ:۴۰۰) استصحاب کی اس قسم میں علماء اصولین مختلف ہیں؛ بلکہ خود حنابلہ جواس سے استنباط کرنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں ان کے یہاں بھی اختلاف ہے، ان میں سے بعض تواجماعی استصحاب کو حجت مانتے ہیں، جن میں سرِفہرست ابن شاقلا (ابراہیم بن احمد حنبلیؒ)، ابن حامد وغیرہ ہیں، جب کہ قاضی ابویعلی ابن عقیل (ابوالوفاء)، ابن زاغونی (ابوالحسن بن عبداللہ)، حلوانی (ابومحمدعبدالرحمن) اور ابوالخطاب وغیرہ اسے حجت نہیں مانتے؛ کیونکہ کسی خاص صفت پر اجماع کا انعقاد کسی دوسرے حال یاصفت پر اجماع کو مستلزم نہیں ہوسکتا، جب کہ یہاں پانی دیکھے بغیر صحت صلوٰۃ پر اجماع ہے، اس کا اقتضا یہ نہیں کہ پانی دیکھنے کی صورت میں بھی یہ اجماع قائم رہے؛ کیونکہ استصحاب کی شرط یہ ہے کہ جوحالت حکم کے وقت تھی اس پر قائم رہے؛ لیکن اگرصفت بدل جائے توحال بھی بدل جائیگا اور موجبِ حکم میں بھی تغیر ہوجائیگا؛ لہٰذا اب صورتِ حال کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ اس پر دوسرا حکم جاری کیا جائے؛ کیونکہ استصحابِ حال کسی دوسری دلیل کے مقابلے صلاحیت نہیں رکھتا، مثلاً صحابہ کرام نے لونڈی کے ام ولد بننے سے پہلے اس کی بیع کے جواز پر اجماع کرلیا، توام ولد کی بیع کے منع پر خود دلیل قائم ہوگئی؛ کیونکہ استصحاب کے مطابق حکم لگانے کا معارضہ دوسری دلیل اجماعِ صحابہ سے ہوگیا؛ لہٰذا اسے مسترد کردیا جائے گا۔ (ارشاد الفحول:۳۵۴۔ حیات احمد بن حنبل:۴۰۱) استحصاب کا حکم مذکورہ بالااقسام میں سے (آخری قسم کو چھوڑ کر) استصحاب کی پہلی تین قسمیں تمام فقہاء کے نزدیک مسلم ہیں؛ اگرچہ اس اصل پر جزئیات کو منطبق کرنے میں اختلاف پایا جاتا ہے (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۶) البتہ چوتھی قسم "استصحاب الوصف" میں اختلاف ہے، حنابلہ اور شوافع علی الاطلاق اس سے احکام مستنبط کرتے ہیں؛ خواہ وصف حادث ہو یاغیرحادث، نفیاً واثباتاً دونوں طرح اس سے احکام متفرع کرتے ہیں یعنی استصحابِ وصف کو علت دافعہ اور ثابتہ دونوں مانتے ہیں، مثلاً: استصحاب وصف کی نبیاد پر مفقود شخص کو زندہ مان کر جس طرح اس کے اموال کواس کی ملکیت میں باقی رکھتے ہیں اور اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے؛ اسی طرح اس کو دوسرے مورث کی وارثت بھی دلاتے ہیں، اس کا حصہ محفوظ رکھا جاتا ہے اور اگر کسی غیروارث نے اس کے حق میں وصیت کی ہوتو اس وصیت کو بھی نافذ کرکے موصی کے ترکہ سے اس کا حصہ محفوظ رکھواتے ہیں؛ تاکہ جب اس کا پتہ چل جائے تواس کو اس کا حق حوالے کردیا جائے؛ چنانچہ شیخ ابوزہرہؒ فرماتے ہیں: "اماالشافعیۃ والحنابلۃ فانھم یاخذون باستصحاب الوصف دفعاً واثباتاً ففی مسئلۃ المفقود یحکمون بحیاتہ مدۃ فقدہ حتی یحکم بموتہ وفی مدۃ الفقد اموالہ علی ملکیہ ویئول الیہ کل مال یثبت لہ بمیراث أووصیۃ فی مدۃ الفقد"۔ ترجمہ:رہی بات شوافع اور حنابلہ کی توانہوں نے استصحاب الوصف کواختیار فرمایا ہے، نفیاً بھی اثباتاً بھی؛ چنانچہ مفقود الخبر کے مسئلے میں اس شخص کے زندہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں، مدتِ فقد میں یہاں تک کہ اس کی موت کا (شرعی) حکم لگ جائے اور مدتِ فقد میں اس کے اموال کو اس کی ملک میں برقرار رکھتے ہیں اور مدتِ فقد میں ہراس مال کواس کے طرف پھیرتے ہیں جو اس کے لیے میراث یاوصیت سے ثابت ہوا ہے۔ لیکن احناف او رمالکیہ استصحاب الوصف کو صرف علت دافعہ اور نافیہ مانتے ہیں علت ثابتہ نہیں مانتے مثلاً مذکورہ بالا مسئلہ میں مفقود کواستصحاب کی وجہ سے زندہ تصور کرتے ہیں اور زندہ تصور کرنے کی وجہ سے اس کا مال اس کی ملکیت میں باقی رہتاہے، دوسرا کوئی شخص اس کا وارث نہیں بنتا، یعنی دوسرے کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے اور دوسرے کے مال میں یہ مردہ سمجھا جاتا ہے اور وہ کسی دوسرے کا وارث نہیں ہوتا (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷۔ ارشاد الفحول:۳۵۲) یعنی مفقود کے وصف حیاۃ کا اعتبار اس کے مال میں صرف غیروں کی ملکیت کی نفی کے لیے ہوتا ہے، اس کو زندہ ماننے کی وجہ سے اگرکوئی نیاحق اس سے متعلق ہورہا ہوتو اس جگہ اس کے اس وصف کا اعتبار نہیں کرتے ہیں اس لیے کہ یہ علتِ ثابتہ نہیں ہے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷۔ شریفیہ شرح سراجیہ:۱۵۱) "اماالحنفیۃ والمالکیۃ فقد اثبتوا الاستصحاب باالنسبۃ لاستصحاب الوصف وجعلوہ صالحاً للدفع وغیرصالح للاثبات ای انہ لایأتی بحقوق جدیدۃ بالنسبۃ لصاحب الصفۃ"۔ (الاشباہ والنظائر،حدالاستصحاب وحجیتہ ومافرع علیہ،۱/۹۵) ترجمہ:رہے احناف اور مالکیہ توانہوں نے استحصاب کو استصحاب الوصف کی بنسبت ثابت مانا ہے اور اس کو (دوسروں کے حق) دفع کرنے کے لائق مانا ہے اور دوسروں میں اثبات حق کے لائق نہیں مانا ہے؛یعنی وہ وصف صاحب وصف کے لیے کوئی نیا حق نہیں لاتا ہے۔ اگرمفقود کے کسی رشتہ دار کا انتقال ہوجائے جس سے مفقود کو زندہ ہونے کی صورت میں وراثت مل سکتی ہوتو ایسی صورت میں احناف اور مالکیہ کے نزدیک جب تک مفقود کی موت کا یقینی علم نہ ہو جائے یااحناف کے نزدیک اس کی عمر کے نوے سال اور مالکیہ کے نزدیک مفقود ہونے کے بعد اس کی عمر کے چار سال نہ گذر جائیں اس وقت تک مفقود کا حصہ وراثت موقوف رکھا جائیگا، قاضی بذاتِ خود یاکسی قائم مقام کے ذریعہ اس کی حفاظت کرائے گا (بحث ونظر،شمارہ نمبر:۴/۴۴) واضح رہے کہ استصحاب کے بنا پر جواختلاف پیدا ہوتا ہے اس کا زیادہ ترامور قضاء سے متعلق ہے ،قاضی حضرات دعاوی کے ثبوت اور نفی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۷) استصحاب کی مثالیں شک ناقض ِ وضو نہیں ایک شخص نے وضوکیا ،اب یہ شخص باوضو رہے گا اور اس وضو سے اس وقت تک نماز پڑھ سکتا ہے جب تک یقینی طور پر یاغلبہ ظن کے ساتھ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، وضو کرنے کے بعد اب اگر اس کے ٹوٹنے میں محض شک ہوجائے توایسی صورت میں استصحاب حال کی بنا پر وہ شخص باوضو مانا جائے گا، شک کے باوجود اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے؛ کیونکہ حالِ ثابت کی بقا ہی اصل ہے ،جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہوجائے اور چونکہ یہاں کوئی یقینی دلیل موجود نہیں ،اس لیے وہ باوضو ہی کہلائے گا۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۸۔ اعلام الموقعین:۱/۳۱۷) ذبائح کی اصل تحریم ہے کوئی شکار قبل اس کے کہ اس پر قابو پایا جائے، پانی میں ڈوب گیا، احناف اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ اسے نہیں کھایا جاسکتا؛ اگرچہ اس کے بدن پر تیر کے نشانات ہی کیوں نہ ہوں، اس لیے کہ نہیں معلوم اس کی موت پانی میں ڈوب کرہوئی ہے یاتیر سے؟ اگرڈوب کر ہوئی ہے تو حرام اور اگر محض تیر سے ہوئی ہے توحلال ہے اور چونکہ ذبائح میں اصل تحریم ہے؛ لہٰذا جب تک شکار کو باقاعدہ ذبح نہیں کیا جائے یایقینی طور پر تیر سے جان نکلنے کا علم نہ ہوجائے، اس کو حلال نہیں قرار دیا جاسکتا اور یہاں چونکہ حلال ہونے کا ثبوت نہیں ہے اس لیے اصل تحریم قائم رہے گی۔ (اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۱۰۔ البحرالمحیط:۶/۲۵) پانی کی اصل طاہر اور مطہر ہے فقہاء کے نزدیک پانی کی اصل طاہر اور مطہر ہے جب تک کہ اس کے اوصاف متغیر نہ ہوجائیں؛ لہٰذا جب تک وہ ایسی صورت میں منتقل نہ ہوجائے کہ حکم بدل جائے یہ اصل اس کے ساتھ برقرار رہے گا؛ گویاکہ اس کا طاہر ومطہر ہونااس وقت تک زائل نہیں ہوگا جب تک کہ رنگ وبو کا تغیر اس کی نجاست کی دلیل نہ بن جائے یااس میں کوئی نجس چیز واقع نہ ہوجائے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۰) انگور کا رس اور نبیذِتمر اصلاً حلال ہے یہی حال شیرۂ انگور کا ہے کہ وہ حلال ہے؛ لہٰذا اس کی حلت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس کی صفت متغیر نہ ہوجائے، مثلاً اس میں نشہ پیدا ہوجائے تواس کا حکم بدل جائے گا؛ یہی حال نبیذِتمر کا ہے کہ وہ بذاتِ خود حلال ہے تووہ حلال ہی رہے گی، جب تک کہ اس میں نشہ کا پایا جانا یقینی نہ ہوجائے۔ (اعلام الموقعین:۱/۳۱۷۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۳۸) شک کی صورت میں طلاقِ رجعی مانی جائیگی ایک شخص نے اپنی بیوی کوطلاق دیدی؛ لیکن اسے شک ہے کہ ایک طلاق دی یاتین؟ امام مالکؒ کے سوا امام احمد سمیت دوسرے اکثرفقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاقِ رجعی واقع ہوگی؛ کیونکہ جب شادی ہوئی تھی تووہ ہرمانع شرعی سے خالی تھی؛ لہٰذا اس کی حلت اپنی جگہ پر ثابت ہے اور اس کو اپنی حالت پر باقی قرار دیا جائیگا اور یہ کیفیت صرف شک سے زائل نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا ایک طلاقِ رجعی ویقینی مانی جائیگی اور وہی ثابت ہوگی۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۲۵) استصحاب پر مبنی قواعد شیخ عبدالوہاب خلاف نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ فقہاء نے استصحاب سے متعدد فقہی قواعد مستنبط کئے ہیں۔ ۱۔ "الاصل بقاء ماکان علی ماکان"۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۲۰) ۲۔ "الاصل فی الاشیاء الاباحۃ"۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۳۱۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۴۰) ۳۔ "ماثبت بالیقین لایزول بالشک"۔ (اصول الفقہ للخلاف:۹۲) ۴۔ "الاصل فی الانسان البرأۃ"۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ حرمت المیت،۸/۵۵۰،الاشباہ والنظائر،قاعدۃ:الاصل براءۃالذمۃ،۱/۵۹) یہ سارے قواعد اپنے مفاہم ومقاصد کے اعتبار سے استصحاب سے قریب تر ہیں، ان فقہی قواعد کا استصحاب سے مستنبط ہونا یاان کے مفہوم میں یگانگت کا پایا جانا استصحاب کی اصولی حیثیت واہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے؛ اسی لیے فقہاء نے اس کو خاص اہمیت دی ہے اور خصوصاً حنابلہ اور شوافع نے اس سے بہت سے مسائل مستنبط کیے ہیں۔