انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بیعتِ عقبہ اولیٰ ۱۱ نبوی تو ختم ہی ہوچکا تھا،۱۲ نبوی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں اسی طرح گزرا جیسا کہ ۱۱ نبوی گزرا تھا، قریش کی مخالفت بدستور ترقی پذیر تھی،ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پورا سال سخت امید وبیم کی حالت میں گزرا؛کیونکہ آپ کو مدینہ کے ان چھ مسلمانوں کا بہت خیال تھا جو تبلیغ اسلام کا وعدہ کر گئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عرصہ میں کوئی خبر نہیں معلوم ہوئی کہ مدینہ میں تبلیغ اسلام کا کیا نتیجہ نکلا،آخر ۱۲ نبوی کے آخری مہینہ ذی الحجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامی منیٰ کے پاس اُسی مقام عقبہ میں جا جا کر یثرب کے قافلہ کی تلاش کرنے لگے،اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اُن لوگوں پر پڑی جو پہلے سال بیعت کرگئے تھے،انہوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اوربڑے شوق سے بڑھ کر ملے، اب کی مرتبہ یہ کل بارہ آدمی تھے ان میں کچھ تو وہی پچھلے سال کے مسلمان تھے، کچھ نئے آدمی تھے جو اوس و خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے،ان بارہ بزرگوں کے نام یہ تھے: ابو امامہ، عوف، بن حارث بن رفاعہ،رافع بن مالک بن العجلان،قطبہ بن عامر بن حدبہ، عقبہ بن عامر، یہ پانچ شخص تو پچھلے سال کے چھ مسلمانوں میں سے تھے،باقی نئے سات یہ تھے: معاذ بن حارث برادرعوف بن حارث، ذکوان بن عبد قیس بن خالد،خالد بن مخلد بن عامر بن زریق،عبادہ بن صامت بن قیس(جو جنیب سے تھے)عباس بن عبادہ بن فضلہ،یہ دس حضرات قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے،ابو الہثیم بن الیہان(بنی عبدالاشہل سے تھے) عویم بن ساعدہ آخر کے دونوں بزرگ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بارہ حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی،یہ بیعت بیعتِ عقبہ اولیٰ گویا نتیجہ تھا ان چھ سابقہ مدنی مسلمانوں کی تبلیغ کا،رخصت ہوتے وقت اس مسلم جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ ایک قاری یعنی مبلغ بھیجا جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ روانہ کردیا، مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ پہنچ کر اسعدؓ بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا اور اسی مکان کو تبلیغی مرکز بناکر تبلیغِ اسلام کے کام میں ہمہ تن مصروف ہوگئے،عقبہ اولیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ اقرار کرآئے تھے: (۱)ہم خدائے واحد کی عبادت کریں گے اورکسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے۔ (۲)ہم چوری اورزنا کاری کے پاس نہ پھٹکیں گے (۳)اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے (۴)کسی پر جھوٹی تہمت نہ لگائیں گے (۵)چغل خوری نہ کریں گے (۶)ہر اچھی بات میں نبی کی اطاعت کریں گے ۔