انوار اسلام |
س کتاب ک |
جوا اورملٹی لیول مارکٹنگ سے متعلق مسائل قمار کی بعض مروجہ صورتیں جوایک بڑی ناپسندیدہ چیز ہے، قرآن میں اس کوگندگی اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور اس کی مصلحت بھی بتائی گئی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ۔ (المائدۃ:۹۰،۹۱) ترجمہ:اے اہلِ ایمان! شراب، جوا، آستانے اور پانسے گندگی اور اعمال شیطانی میں سے ہیں اس سے بچو! توکامیاب ہوگے، شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب وجوے کے ذریعہ عداوت وبغض پیدا کردے اور ذکر خداوندی نیز نماز سے غافل کردے؛ پھرکیا تم ان چیزوں سے بچو گے؟۔ ایامِ جاہلیت میں جوے کا کاروبار بڑے وسیع پیمانے پرتھا اور وہ اس کے ایسے پرستار واقع ہوئے تھے کہ بساواقات بیوی بچوں کوداؤ پرلگادیتے تھے، حصوں میں تقسیم اور مختلف خرید وفروخت کے معاملات میں بیع مزابنہ، محاقلہ، ملامسہ، منابذہ، بیع حصاۃ، بیع عربان اور بعض دوسری صورتیں ہیں جن کا ذکر حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےبڑی خوش اسلوبی سے ان مختلف معاملات کی ممانعت کی وجہ اور قمار کے اقتصادی اور تمدنی نقصانات پرروشنی ڈالی ہے؛ آج کل قمار کی مروجہ صورتوں میں ایک اخباری معمہ ہے اخبار یامعمہ کا سیٹ خرید کرمعمہ پُرکرنے والا گویاعوض ادا کرتا ہے، اس مقابلے سے جوعوض ملتا ہے اس میں ملنے اور نہ ملنے دونوں کا اندیشہ ہے، اس طرح خطر ہ پیدا ہوگیا اور اسی کا نام قمار ہے، نمائشوں میں بند ڈبے فروخت کئے جاتے ہیں، کسی میں سامان زیادہ ہوتا ہے کسی میں کم اور کسی میں بالکل نہیں؛ لوگ پیسے دے کرخریدتے اور قسمت آزمائی کرتے ہیں، یہ بالکل اسی نوعیت کا قمار ہے جوایامِ جاہلیت میں تقسیم بالازلام (پانسوں کے ذریعہ حصوں کی تقسیم) کی صورت میں ہوا کرتا تھا؛ گولیاں کھیلنا، پتنگیں اُڑانا اور اس میں ہارجیت کی بازی لگانا اور اس پردونوں جانب سے پیسہ کی شرط رکھنا بھی جوا ہے اور حرام ہے؛ اسی زمرہ میں لاٹری کا وہ کاروبار بھی ہے جوآج بین الاقوامی سطح پرپھیلا ہوا ہے، اس میں ٹگٹ خریدنے والا اس رقم میں خود ٹگٹ کومقصود سمجھ کرنہیں خریدتا بلکہ اسے ایک پانسہ سمجھ کرخریدتا ہے کہ ممکن ہے اس کے نمبر پروہ متوقع رقم یاچیز مل جائے اس لیے یہ خریدوفروخت اور تجارت نہیں ہے بلکہ جوا ہے، اس کا ٹگٹ خریدنا بھی گناہ ہے اور اس کا ٹگٹ بیچنا بھی گناہ بالائے گناہ ہے کہ وہ اثم وعدوان کا مرتکب ہی نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کی دعوت بھی دیتا ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۹)