انوار اسلام |
س کتاب ک |
تراویح کے سنتِ رسول ﷺ ہونے پر اعتراض کرنا کیسا ہے؟ نمازِ تراویح کو اجتہاد کہنا جسٹس صاحب کا "غلط اجتہاد"ہے، نمازِ تراویح کی ترغیب خود آنحضرتﷺسے ثابت ہےاور تراویح کا جماعت سے ادا کرنا بھی آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے، مگر اس اندیشہ سے کہیں یہ اُمت پر فرض نہ ہوجائے آپ ﷺنے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں چونکہ یہ اندیشہ باقی نہیں رہا تھا، اس لئے آپؓ نے اس سنت “جماعت” کو دوبارہ جاری کردیا۔ علاوہ ازیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتدا کا لازم ہونا شریعت کا ایک مستقل اُصول ہے، اگر بالفرض تراویح کی نماز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد ہی سے جاری کی ہوتی تو چونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو بالاجماع قبول کرلیا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا، اس لئے بعد کے کسی شخص کے لئے اجماعِ صحابہ اور سنتِ خلفائے راشدین کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ اہلِ حق میں سے کوئی ایک بھی تراویح کے سنت ہونے کا منکر نہیں۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳/۳۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔فتاویٰ محمودیہ:۷/۲۵۸،مکتبہ شیخ الاسلام دیوبند۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۵۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)